1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. آئیے پوگو دیکھیں پلاٹ اور فائلیںں خریدیں یا سٹہ کھیلیں‎

آئیے پوگو دیکھیں پلاٹ اور فائلیںں خریدیں یا سٹہ کھیلیں‎

آج کل وطن عزیز میں رپورٹس کے منظر عام پر آنے اور فوری احتساب کا موسم ہے۔ آپ نواز شریف نامی ایک شخص یا اس کے خاندان کےخلاف کسی بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایے یا پھر کسی بھی ادارے سے رجوع کیجیے آپ کی فوری داد رسی ہوگی۔ یقین مانیے اب شریف خاندان کو اس حال میں دیکھ کر کوی حیرت نہیں ہوتی کہ چشم تماشہ یہ ڈرامے دیلھ دیکھ کر بیزار ہو چکی ہے۔

کبھی فاطمہ جناح غدار تو کبھی ذوالفقار بھٹو کبھی محمد خان جونیجو کرپٹ تو کبھی بینظیر بھٹو اور اب نواز شریف۔ وہی فرسودہ احتساب کا چورن انصاف کی پھکی اور ملک دشمنی کا منجن اور وہی پرانے راولپنڈی کے شکاری لولی لنگڑی عدلیہ و ملاوں کا گٹھ جوڑ۔ وہی پرانے آمریت کے تلوے چاٹتے صحافی و دانشور اور وہی عیاش و غلیظ ریٹارڈ بابے جو اعلی سرکاری نوکریوں کے بعد آخری عمر میں قبر میں پیر لٹکائے ٹیکنو کریٹ حکومت کے خواب دیکھتے ہیں۔

ان بڈھوں نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک سوائے حرامخوری اور مال پانی بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ جن جن اداروں یا محکموں کے سربراہان کے طور پر یا کسی نمایاں پوزیشن پر کام کیا تو صرف پلاٹ بنائے سٹاک ایسچینج کے سٹے سے مال پانی بنایا رشوت خوری اور کمیشن سے کالا دھن بنایا اور پھر محب وطنی کا چورن بیچ کر عوام کو خوب جزباتی بلیک میل بھی کیا۔ خیر اب جب ان کا چورن خریدنے والے موجود ہیں تو ان بڈھوں کی لالچ مکاری و عیاری پر کیا بات کی جائے۔

جب عدلیہ میں جسٹس منیر کی بدروح پھر سے سرایت کر جائے اور راولپنڈی ضیاالحق کے بھوت اور مشرف کی پرچھائی سے نہ نکلنے پائے تو پھر مداوا غم کون کرے۔ جب صحافت اور دانشوری مکاری میں چارلس سوبھراج کو بھی پیچھے چھوڑ جائے تو پھر تاریکی شب کی طوالت سے اکتاہٹ ہو بھی تو کیا فائدہ؟ شریف خاندان کو دراصل جس بہیمانہ طریقے سے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کا واضح مقصد ایسے "باغی" ہموطنوں کو جو کہ طے شدہ ریاستی بیانیے کو کھوکھلا سمجھتے ہوئے اس پر سوالات اٹھاتے ہیں انہیں یہ باور کروانا ہے کہ "اپنی اوقات میں رہو"۔

لڑائی گو شریفوں اور بدمعاشوں کی ہے لیکن عام آدمی کے لیئے اس میں ایک واضح پیغام موجود ہے کہ چپ چاپ جانوروں کی مانند دو وقت کی روٹی کھاؤ ٹیکس اور محصولات میں آدھی سے زیادہ کمائی پھونکو اور بچے پیدا کرکے آنے والی نسلوں کو بھی اسی تابعداری کا درس دیکر اگلے جہان کوچ کر جاؤ خبردار جو کسی نے بھی اس ملک کے اصل مسائل کی طرف توجہ دینے کی کوشش کی یا ان کو حل کرنے کی ہمت کی۔ پیغام بہت سیدھا اور واضح ہے لیکن صرف اہل عقل کیلئے۔ زیادہ تر افراد جو کہ صدق دل سے مطالعہ پاکستان کی نصابی کتابوں پر ایمان کامل لاتے ہوئے "مقدس گائے " کے بیانیے کو آسمانی صحیفہ سمجھتے ہوئے اس پر سوال اٹھانا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ان افراد کیلئے اس پیغام کو ایک خوشنما پیکنگ میں پیک کرکے پیش کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔

مشرف دور میں یہ پیکنگ قاف لیگ کی شکل میں تھی اور "شکریہ راحیل شریف" کے دور میں یہ پیکنگ تحریک انصاف کی شکل میں آ گئی۔ جو کہ آج بھی دستیاب ہے۔ اب عام آدمی یعنی آپ کے پاس دو ہی آپشن ہیں پہلا اس " پرانے چورن " کو نئی پیکنگ کے ساتھ خریدیے یعنی تحریک انصاف کی حمایت کیجئے اور صدق دل سے ایمان لائیے کہ شاہ محمود قریشی علیم خان جہانگیر ترین اشرف سوہنا فرشتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نہ تو کسی قبضہ مافیا سے تعلق رکھتا ہے نہ ہی شوگر مافیا سے۔

عمران خان کی پاکیزگی اور دیانت پر بھی مکمل ایمان لاتے ہوئے ٹیرن وائٹ عائشہ گلالئی کو بھولتے ہوئے اور زکوۃ چوری کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے لیڈر قرار دینا لازم و ملزم ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ نامعلوم افراد کی دھمکیاں نامعلوم فون نمبرز سے سنگین نتائج کی دھمکیاں اور اگر پھر بھی آپ نہ مانیں تو نامعلوم افراد کے ہاتھوں آپ کا دن دہاڑے لاپتہ ہو جانا۔ یعنی کہ حقیقتا آپ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ اس "چورن" کو خریدنے کا ہے۔ ویسے بھی دہائیوں سے آزمودہ یہ چورن آپ کے دادا اور باپ نے بھی کھایا یے تو اب آپ بھی کھائیے۔ رہی بات شریف خاندان کی تو اب جس وطن میں مادر ملت فاطمہ جناح غدار قرار دی جائیں اور انتخابات میں ایک فوجی آمر سے شکست کھا جائیں اس وطن میں شریف خاندان کے ساتھ یہ سب ہونے پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہونا چاھیے۔

کرپشن صرف اور صرف شریفوں نے کی ہے اور رپورٹس صرف ماڈل ٹاؤن سانحہ اور پانامہ کی پبلک ہو سکتی ہیں۔ خبردار اگر آپ میں سے کسی نے بھی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کارگل رپورٹ ایبٹ آباد رپورٹ عام کرنے کی بات بھی کی تو۔ نہ صرف یہ کہ اسے گناہ کبیرہ سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک ناقابل معافی جرم بھی ہے۔

دوسری جانب معزز عدلیہ نے بھی پیغام دے دیا ہے کہ اب سے صحافی حضرات عدالتوں میں جج کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا کریں کہ جج سے نگاہ ملانا بھی توہین عدالت ہوتی ہے۔ یعنی جسٹس منیر کی کوکھ سے جنم لینے والی وہ اندھی عدلیہ جسے ملک ریاض یا ارسلان افتخار کے لمبے چوڑے کرپشن کیسسز سننے کی توفیق نہیں اور جو لاپتہ افراد اور مشرف کے کیس کا نام سنتے ہی تھر تھر کانپنے لگتی ہے اب اس کے منصف بھی بزور طاقت اپنی عزت کروانا چاہتے ہیِں۔ ہو سکتا ہے کہ راقم کا اندازہ غلط ہو اور شاید عدلیہ کے ججز کو خود صحافیوِں سے نظر ملاتے ہوئے شرم کا سامنا کرنا پڑتا ہو آخر ضمیر نامی چڑیا کبھی کبھار ملامت کی چونچیں مار ہی دیا کرتی ہے۔ تو میرے پیارے ہموطنوں بات مختصرا یوں ہے کہ جب بیلٹ کی طاقت کو بندوق سے نہ دبایا جا سکے تو پھر بیلٹ پیپر پر سے وہ نام غائب کر دیا جاتا ہے جس پر عام آدمی انگوٹھا لگانا چاہتا ہے۔ اب تک تو یوں ہی ہوتا آیا ہے اور ہم نے گزشتہ ادوار میں یہ سب دیکھا ہے۔

قرآئن بتاتے ہیں کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہونے کو جا رہا ہے۔ ایسے میں شریف خاندان بالخصوص نواز شریف اور مریم نواز کس حد تک اس 70 سالہ کامیاب اور آزمودہ احتسابی و انتقامی چورن کو بکنے سے روک پاتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ ویسے ریٹائرڈ سرکاری منشیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف اصل آزادی کی تحریک بھی پنجاب سے ہی اٹھی تھی اور بھگت سنگھ نے گوروں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ باقی رہی عام آدمی کی بات تو آئیے ہم سب ملکر پوگو دیکھتے ہیں اور جو ہونے جا رہا ہے اسے ہونے دیں۔

بھلا فاطمہ جناح کے ذلیل و خوار ہونے سے لیکر بھٹو کی پھانسی، بی بی کے قتل، سقوط ڈھاکہ، ایبٹ آباد سانحہ، اکبر بگٹی قتل، مشرف کے ظلم و ستم پر جب ہم کچھ نہ بولے اوکاڑہ میں غریب کسانوں کے قتل پر آہ نہ کی تو اب کیوں بولیں گے۔ اچھا ہے ایک کرپٹ سیاستدان کرپٹ لوگوں کے ہی ہاتھوں اہنے انجام کو پہنچے گا۔ ملک کا کیا ہے اسے کوئی نہ کوئی تو سنبھال ہی لے گا۔ آئیے بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ یا فائلیں خریدیں یا پھر سٹاک ایکسچینج میں تھوڑا سا سٹہ ہی لگا لیں۔ نظام کا کیا ہے اس نے ایسے ہی چلنا ہے جیسے پچھلے ستر برسوں سے چلتا آیا ہے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔