1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. افسر شاہی کے ساتھ ایک نشست

افسر شاہی کے ساتھ ایک نشست

شہر اقتدار کی شامیں آج کل نہ صرف انتہائی سرد ہیں بلکہ بوجھل بھی ہیں۔ اس شہر میں رویے تو اکثر و بیشتر سرد و مہر ہی ہوتے ہیں لیکن آج کل فضا بھی سرد ہے۔ اس سردی میں کچھ سرکاری منشی جنہیں عرف عام میں بیوروکریٹ کہا جاتا ہے ان سے اتفاقا ایک نشست کا اہتمام ہوگیا۔ یہ سرکاری منشی ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے افسران کی نالائقی اور ان کی کرپشن کا رونا روتا نظر آئے۔ خیر نشست کے دوران موضوع گفتگو لاپتہ افراد کی طرف مڑ گیا۔ دارلحکومت میں آج کل پانامہ لیکس اور لاپتہ افراد کا موضوع نہ صرف انتہائی "ان" ٹاپک ہے بلکہ وقت گزاری کا تازہ ترین دلچسپ طریقہ۔

سرکاری منشیوں کے اس شہر میں وقت گزاری کیلئے یوں تو کئی مشغلے میسر ہوتے ہیں لیکن پانامہ لیکس کی روزانہ کی بنیاد پر عدالتی سماعت اور سوشل میڈیا کے بلاگرز اور ایکٹوسٹوں کا تازہ ترین لاپتہ ہونا فی الوقت وقت گزاری کا ایک اچھا مشغلہ ہے۔ گرما گرم سوپ یا کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نہ صرف پانامہ لیکس یا لاپتہ افراد کے بارے میں رومان پرور باتیں کرنا اچھا لگتا ہے بلکہ سرکاری منشیوں کی انا کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ آخر کو سیاستدانوں سے یا سینئر ایسٹببلیشمنٹ سے جھاڑ کھانے کے بعد اپنی زخم خوردہ اناؤں کو سہلانے کیلئے کتھارسس بھی تو ضروری ہوتا ہے۔

اکثر سرکاری منشیوں اور بابووں کی محفل میں راقم جیسے آزاد منش آدمی کا بیٹھنا دشوار ہو جاتا پے کہ حساب کتاب اور اپنی اپنی نوکریاں پکی کرنے کے خواہاں یہ حضرات فقط نظام سے ہر دم فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہیں اور بات چاہے پانامہ لیکس کی ہو یا لاپتہ افراد کی، اختتام پزیر ان افراد کے گریڈوں کی ترقی میں رکاوٹ تبادلے یا پھر مراعات میں اضافے پر ہوتی ہے۔ فائیو سٹار ہوٹل میں سوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک سرکاری منشی نے فخریہ انداز میں بتایا کہ سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا اور جلد ہی الیکٹرانک میڈیا بھی خاموشی سے قابو میں کر لیا جائے گا۔

دوسرے سرکاری منشی نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا اس جاہل عوام کے ساتھ یہی ہونا چائیے۔ جب دیکھو یا تو کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں یا پھر اپنی اوقات سے باہر ہوتے ہوئے حدود سے ہی تجاوز کر جاتے ہیں۔ یوں ایک مخصوص ذہنیت کی لاحاصل بحث کا آغاز ہوگیا۔ ایسے میں شریک بحث حضرات نے مذہبی حوالوں سے لیکر سیکولر حوالوں اور دلیلوں سے اپنی اپنی ذہنی و اخلاقی برتری ایک دوسرے پر جتائی اور آخر کار بحث اپنی اپنی پروموشن اور تبادلوں پر مرکوز ہوگئی۔

محفل میں ایک سرکاری بابو نے مجھ سے حکمران جماعت کے اندرونی حالات اور اندرونی خبروں دوارے پوچھا، تو میں نے بتایا فی الحال راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ البتہ ترقیاں اور تنزلیاں اس وقت انہی خاص افراد کے ہاتھ میں ہیں جن سے اکثر آپ حضرات نالاں رہتے ہیں۔ اب شریک محفل منشیوں کی توجہ میری جانب مبذول ہوئی اور ایک حضرت جو انسانیت اور مذاہب کے فضائل بیان کر کرکے دماغ کی بتی گل کر چکے تھے فرمانے لگے ایک کنٹریکٹ پکڑ دیں آپ کو 25 فیصد حصہ مل جائے گا۔ آپ کی تو حکمران جماعت کے اہم لوگوں سے شناسائی بھی ہے۔

اس ساری محفل اور بحث سے میں پہلے ہی بیزار بیٹھا تھا اس لیئے انتہائی سرد مہری سے میں نے جواب دیا کہ کمیشن کھانا دلالوں کا کام ہے اس لیئے جس کا کام اسی کو ساجھے۔ وہ صاحب اس جواب کی ہرگز توقع نہ کر رہے تھے اس لیئے بپھر گئے اور خفت مٹانے کو سارا نزلہ میرے اوپر گراتے ہوئے بولے تمہارے ترقی نہ کر پانے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ تم نہ تو نظام کو سمجھتے ہو اور نہ ہی کسی فائدے کے ہو۔

میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا درست فرمایا آپ نظام کو بہتر سمجھتے ہیں تبھی نظام کا یہ حال ہے کہ اشرافیہ کے گھر کی باندی بن چکا ہے۔ اس خطرناک جواب کے بعد مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ اب تمام سرکاری منشی اپنی اپنی توپوں کا رخ میری طرف کر دیں گے۔ اور یونہی ہوا ایک صاحب نے میڈیا کے حوالے سے لغو باتیں شروع کر دیں اور دوسرے حضرات نے صحافیوں لکھاریوں اور دانشوروں کو معاشرے میں موجود تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔

میں خاموشی سے ان حضرات کو دیکھنے لگا کوئی الیکٹرانک میڈیا پر بھڑاس نکال رہا تھا کوئی بیچارےرپورٹرز پر اور کوئی لکھاریوں پر۔ کچھ براہ راست مجھ پر طنز کے نشتر چلا رہے تھے۔ فائیو سٹار ہوٹل کی یہ لمبی ٹیبل ایک مچھلی بازار معلوم ہو رہی تھی جہاں عوام کا خون چوس کر اپنے اپنے الو سیدھا کرنے والے یہ منشی ہر ممکن طریقے سے بھانت بھانت کی تھیوریاں اور دلائل پیش کرتے سیاستدانوں میڈیا اور دانشوروں کو ملک کے مسائل کا اصل سبب اور میرے جیسوں کو نالائق اور موقع سے فائدہ نہ اٹھانے والا فرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان سب کے خاموش ہونے کے بعد میں نے ان افراد سے پوچھا کہ گورننس بہتر بنانے یا نظام کو چلانے کی ذمہ داری کیا شریک محفل حضرات کے محکموں کی نہیں ہے؟

جس پر ایک سینئر منشی نے چلاتے ہوئے جواب دیا گورننس مائی فٹ۔ کیسی گورننس اور کہاں کی گورننس سب کے سب چور ہیں ایسے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا آپ واقعی میں کچھ نہیں کر سکتے تبھی تو سرکاری خزانے پر بوجھ بن کر اس عوام کے ٹیکسوں اور خون پسینے کی کمائی پر عیش کرتے ہوئے محض توند اور اثاثوں کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب نے جواب دیا سرکاری معاملات ایسے نہیں چلا کرتے اوپر سے آئے حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے۔ میں نے پوچھا اگر اوپر سے کوئی حکم آئے کہ ابھی جاؤ اور کنوئیں میں چھلانگ لگاؤ تو کیا آپ کنوئیں میں چھلانگ لگا دیں گے۔ اس پر شریک محفل حضرات نے حقارت سے مجھے دیکھا اور فرمایا دیٹس وائے یو ڈو نٹ فٹ ان ٹو دا سسٹم۔۔

میں نے جواب دیا درست فرمایا لیکن سسٹم یا نظام تو غالبا میرے وطن میں کبھی تشکیل ہی نہ ہونے پایا۔ نظریہ ضرورت کے تابع بیوروکریسی عدلیہ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور سیاستدانوں نے مل جل کر اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے نظام کو بننے اور پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اب ایک منشی بڑبڑایا اور بولا تو کیا کرتے نوکریاں چھوڑ دیتے اس سے بھلا فرق ہی کیا پڑنا تھا۔ میں مسکرایا اور جواب دیا آپ تمام حضرات جو اس وقت شریک محفل ہیں کیا آپ میں سے کسی کو جبری یا زور زبرستی ان ملازمتوں پر لگایا گیا اور محکمے سونپے گئے؟

اگر میں غلط نہیں تو آپ حضرات نے ہر ممکن طریقے سے پیسہ اور اثرورسوخ استعمال کرکے ان محکموں میں جگہ بنائی اور نہ جانے کتنے حقداروں کی حق تلفی کی۔ آپ روازانہ کی بنیاد پر اپنے دفاتر میں اپنے جونیئر ملازمین کو کس بے رحمانہ انداز میں جھڑکتے ہیں اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں کبھی آپ نے سوچا۔ ایک عام آدمی تو آپ سے ملنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور جب یہی سلوک آپ کے ساتھ کوئی سیاستدان جرنیل یا آمر کرے تو آپ کو اخلاقیات سے لیکر مذہب کے اور دیگر تمام حوالے یاد آ جاتے ہیں۔

اس ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں سب کو اپنی اپنی زندگی سنوارنی ہے کسی دوسرے کا نہیں سوچنا۔ اور یہ وہ ناسور ہے جو معاشرے کو گھن کی طرح کھائے ہی جا رہا ہے۔ شریک محفل اب اکتا چکے تھے اس لیئے محفل برخاست کرنے کا اشارہ ہوا۔ ہوٹل سے نکلنے کے بعد شدید سردی نے وجود میں اترنا شروع کر دیا۔ یہ سردی تو موسمی ہے موسم بدلتے ہی چلہ جائے گی لیکن رویوں پر چھائی ہوئی سرد مہری نہ جانے کب ختم ہوگی۔ بیوروکریسی یا افسر شاہی کے مزاجوں اور سوچوں پر چھائی ہوئی مفادات کی دھند شاید جس دن چھٹے گی اس دن وطن عزیز میں بھی حبس و جبر کا موسم بدلے گا اور تازہ ہوا کے جھونکے عام آدمی کو بھی نصیب ہوں گے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔