1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. اندھا سفر اور ناتواں کاندھے‎

اندھا سفر اور ناتواں کاندھے‎

یہ ارض پاکستان ہے۔ 20 کروڑ سے زائد انسانوں کی سرزمین جہاں بسنے والے خوشی خوشی غلامی کے طوق کو گلے میں سجا کر جینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ غلامی کی عادت شاید یہاں پیدا ہونے والے ہر بچے کو گھٹی میں ڈال دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی بچوں کو سکھایا جاتا پے کہ نہ سوچو نہ سمجھو بس کولہو کے بیل کی مانند اس نظام کے گرد چکر لگاتے رہو اور اپنا اور اپنے بعد، آگے آنے والے غلاموں کا پیٹ بھرتے رہو۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی کا طوق پہنے غلام خوشی خوشی ایک ایسے نظام کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے ہیں جہاں صرف اشرافیہ کا راج ہوتا ہے اور جہاں قانون اخلاقیات اور سزا جزا صرف عام آدمی کو ڈرا کر نظام کے تابع رکھنے کیلیئے موجود ہیں۔

لاہور میں ہسپتال میں بستر نہ ملنے پر خاتون تڑپ تڑپ کر مرے یا طیبہ جیسی بچیوں کو بیچ کر غلام بنایا جائے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کہیں پانامہ کیس کو لے کر بحث جاری رہتی ہے تو کہیں مریم نواز، بلاول بھٹو یا عمران خان کے آئندہ متوقع وزیر اعظم بننے پر مباحث جاری رہتی ہیں۔ طیبہ جیسی بچیاں مرتی ہیں تو مریں لیکن مریم نواز، آصفہ بھٹو یا عمران خان پر کوئی آنچ نہیں آنی چائیے۔ کوئی بھلے ہی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں کا گلا گھونٹ دے یا خودکشی کر لے لیکن نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان زندہ باد کے نعرے ہر دم لگنے چائیے۔

یہاں روز کوئی گردہ بیچ کر محض زندہ رہنے کی سعی میں مصروف ہے تو کسی کو اپنے بچوں کو بیچ کر ضروریات زندگی پورا کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن آفرین ہے معاشرے میں بسنے والے غلاموں پر جو اف تک نہیں کرتے۔ کوئی مذہبی ٹھیکیداروں کی چاپلوسی میں مصروف ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے تو کوئی محب وطنی کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں کوشاں۔ ایسے میں طیبہ جیسی بچیاں جنہیں 3 ہزار روپے ماہانہ میں بیچ دیا جاتا ہے بھلا ان کی فکر کس کو ہے۔ یہ بچے بچیاں کروڑوں کی تعداد میں اس معاشرے میں موجود ہیں اور نہ تو ان کے مستقبل کی کسی کو فکر ہے نہ احساس۔ بس احساس ہے تو فقط ایک بات کا کہ اپنا اپنا الو کیسے سیدھا کرنا ہے۔

اسحاق ڈار کے پرفریب اور جھوٹے معاشی ترقی کے دعووں کی اصل حقیقت روزانہ گلیوں سڑکوں اور چوراہوں میں عام آدمی کی بے بسی اور حالت زار دیکھ کر خوب عیاں ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج میں بنیادی مسائل کو حل کیئے بنا، شعور اور بنیادی حقوق کی آگاہی پیدا کیئے بنا کس صورت میں ترقی یا خوشحالی کی جانب سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سماجی ڈھانچے کی تشکیل نو اور جدید خطوط پر اس کو استوار کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہ تو موجودہ سیاسی اشرافیہ کے پاس ہے اور نہ ہی مذہبی و دفاعی اشرافیہ کے پاس۔

سماج میں پنپتے مسائل کا تعلق ان فرسودہ خیالات اور نظریات کے ساتھ ہے جو خود اشرافیہ نے ہی اپنے تسلط کو مضبوط بنانے کیلئے قائم کیئے۔ یہ نظریات مذہب کے نام پر غریبوں کو اور جمہوریت، آمریت یا دفاع کے نام پر سفید پوش طبقے کو اس نظام سے جوڑ کر اشرافیہ کے مختلف طبقات کیلئے بالادستی کا جواز تو پیدا کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر پورے معاشرے کو سماجی انصافیوں اور فکری بانجھ پن کی دلدل میں مزید دھنساتے چلے جاتے ہیں۔ بقول منّو بھائی

سب توں وڈی دشمن ساڈی

ان مل تے بے جوڑ ترقی۔۔

موٹر وے تو پنج قدماں تے۔۔

پنج صدیاں پہلے دا چرخہ

پنج صدیاں پہلے دی چکی۔۔

یعنی موٹر وے یا انفراسٹرکچر ڈیویلوپمنٹ سے مستفید ہونے کیلئے بھی کم سے کم آبادی کی اکثریت کو زندہ رہنے اور ضروریات زندگی پورا کرنے کے مواقع ملیں تو ہی ان کا کچھ فائدہ ہے بصورت دیگر سیاسی شعبدہ بازیوں کیلئے تو سڑکیں اور بڑے بڑے تعمیرارتی منصوبے کام آ سکتے ہیں لیکن عام یا غریب آدمی کے یہ کسی کام کے نہیں۔ جس ترجیحی بنیاد پر حکومت کو ٹھیکیدارانہ انداز میں چلا کر یہ منصوبے بنائے جاتے ہیں اگر اسی انداز کو اپنا کر غربت کے خاتمے اور سماجی نا انصافیوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید کچھ بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر غیرت کے منافقانہ تصور، مذہبی شدت پسندی یا دیگر نظریات کو ریاستی سطح پر کم سے کم حوصلہ شکنی کرکے ایک ایسے سماجی ڈھانچے کی جانب قدم بڑھایا جا سکتا ہے جہاں کم از کم روایات اور اقدار کے نام پر کسی کا بھی استحصال نہ ہو۔ اسی طرح غربت جو کہ تمام جرائم کی جڑ ہوتی ہے اس کے خاتمے کیلئے ایک ایسی مربوط پالیسی بنائی جا سکتی ہے جس کی بدولت فوری طور پر عام آدمی کو کچھ معاشی ریلیف مل سکے۔ وگرنہ اعداد و شماراورکھوکھلے دعوے نہ تو کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتے ہیں اور نہ ہی طیبہ جیسی معصوم بچیوں کو سربازار بکنے یا جبری غلامی میں جانے سے روک سکتے ہیں۔

لیکن یہ تمام اقدامات تبھی ممکن ہیں جب معاشرے میں بسنے والے افراد ان کے لیئے مطالبہ کریں۔ محض نواز شریف زندہ باد بھٹو زندہ پے یا عمران خان کے سنگ تبدیلی، جیسے نعرے مارنے والے غلاموں کیلئے نہ تو ان کے آقا سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھائیں گے اور نہ ہی آسمانوں سے کوئی مسیحا ان کے دکھ درد پر مرہم یا مسائل کے حل کیلئے زمین پر اترے گا۔ بقول جون ایلیا مسئلے زمین پر پائے جاتے ہیں ان کا حل بھی زمین پر ہی تلاش کیجئے۔

اپنی اپنی انا یا چھوٹے سے مفاد کے حصول کی لالچ کی قید سے آزاد ہو کر دیکھئے کہ سیاسی مذہبی اور دفاعی اشرافیہ نے ستر برسوں میں سوائے اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور معاشرے کو زیر تسلط رکھنے کے اقدامات کے سوا اور کیا بھی کیا ہے۔ غلامی کی بیڑیاں بھلے ہی کتنی حسین اور پرفریب کیوں نہ ہوں لیکن در حقیقت یہ بیڑیاں معاشرے کو اندھے سفر کی جانب رواں دواں رکھتی ہیں۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی اور مسافتوں کا سارا بوجھ بھی غلاموں کے ناتواں کاندھوں پر ہی ہوتا ہے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔