1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

جب بولنے پر پابندی اور اظہار رائے پر قدغن لگ جائے اور جب آپ کو نامعلوم نمبرز سے دھمکی آمیز کالیں موصول ہونا شروع جائیں آپ کی حرکات و سکنات کی نگرانی کی جاتی ہو اور آپ کو روز چپ رہنے کا کہا جاتا ہو تو بطور صحافی یا لکھاری آپ کے پاس دو راستے بچتے ہیں یا تو چپ چاپ کنارہ کشی کرکے خاموشی اختیار کر لیں یا پھر سب کچھ رسک پر لگا کر صرف اور صرف سچ کا ساتھ دیں۔

یہ ایک کڑا اور مشکل فیصلہ ہوتا ہے جو شاید صرف ایک صحافی سمجھ سکتا ہے۔ سب کچھ داو پر لگانے کے بعد بھی یا تو اسے ایک لفافہ صحافی ہونے کا لقب دیا جاتا ہےیا پھر گمنام راہوں میں کہیں اس کی آواز کو ہمیشہ کیلئے دفنا دیا جاتا ہے۔ خیر قلم کی حرمت سے عہد وفا استوار رکھنے والے سود و زیاں کی پروہ آخر کرتے ہی کب ہیں۔ رہی بات سیاسی حالات و واقعات کی تو یوں تو وطن عزیز کی تاریخ میں جب بھی ایسٹیبلیشمنٹ نے کسی نام کے گرد سرخ دائرہ لگایا ہے اس کا انجام پھانسی کا پھندہ یا جلا وطنی ہی طے پایا۔ لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔

اب سوشل میڈیا کی موجودگی بین الاقوامی محاذ پر ایسٹیبلیشمنٹ کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جانا اور وطن عزیز کے طول و عرض میں ایک ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ کا وجود میں آنا دراصل اس وقت خود ایسٹیبلیشمنٹ کے لیئے بھی باعث پریشانی ہے۔ نواز شریف کو نااہل کرنے سے لیکر اس پر فرد جرم عائد کرنے تک نہ تو اس کی مقبولیت میں کمی آنے پائی اور نہ ہی اس کو سیاست سے باہر پھینکا جاسکا۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ناراضگی کا فائدہ اٹھا کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں بھی کارگر ثابت ہوتی نظر نہیں آتیں۔ بالفرض دیہی پنجاب اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے چند درجن افراد کو توڑ کر فارورڈ بلاک بنا بھی لیا جائے تو بھی نہ تو حمزہ شہباز اس کی قیادت کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی شہباز شریف۔ تو قصہ مختصر کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کا وطن دوبارہ واپس آنا اس بات کا اعلان ہے کہ چاہے اس کی جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں اب وہ اس بازی میں نہ تو پیچھے ہٹے گا اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کرے گا۔

نوازشریف کی وطن موجودگی دراصل ایسٹیبلیشمنٹ کو دباومیں لانے کا موجب بنتی ہے۔ جتنے جلسوں یا سیمینارز سے نوازشریف خطاب کرے گااتنا ہی اس کے بیانئے کو تقویت ملے گی۔ گو ایسٹیبلیشمنٹ بارہا نوازشریف کو شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے توسط سے یہ پیغام پہنچا چکی ہے کہ اگر ٹکراوکی سیاست سے دریغ نہ کیاگیا تو پھر ٹیکنو کریٹ سیٹ آپ لاکر حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ لیکن نہ تو نوازشریف اس دھمکی سے خوفزدہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی جماعت کی حکومت کو قربان کرنے میں کسی وسوسے یا پریشانی کا شکار لگتے ہہں۔

اب قباحت یہ ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت آخر لائی کیسے جائے۔ آئین کو معطل کرنے کیلئے کوئی ٹھوس وجہ بھی ہونی چائیے۔ عمران خان کاایک اور لانگ مارچ اگر دنگے فساد کروانے میں کامیاب ہو جائے تو پھر یہ موقع ایسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھ آ سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب کی بار وزیر داخلہ احسن اقبال ہیں جو چوہدری نثار کی مانند ایسٹیبلیشمنٹ سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ اس لیئے عمران خان یا ہمنواوں کو کسی بھی قسم کا فری ہینڈ ملنے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

تاریخ بتاتی ہے خان صاحب اور ان کے مریدین جو کہ انقلاب کے داعی بنے پھرتے ہیں اگر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہو کہ انقلاب کے راستے میں پولیس کی لاٹھیاں برس سکتی ہیں یا گرفتاریاں ہو سکتی ہیں تو جناب عمران خان سمیت ان کے مریدین بھی گھر میں بیٹھ کر ٹویٹر اور فیس بک پر انقلاب لانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لانگ مارچ کے ذریعے موجودہ حکومت کو گرانا تقریبا ناممکن ہے۔ مارشل لا لگانے کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کسی طور آمادہ دکھائی نہیں دیتے کیونکہ بنیادی طور پر وہ خود اس اقدام کے خلاف ہیں۔ ایسے حالات میں اگر افہام و تفہیم کی کوئی صورت نکلتی ہے تو وہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور نوازشریف کی ون آن ون میٹنگ کے ذریعے نکل سکتی ہے۔

اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے ادارے کے سرکش عناصر کو قابو میں رکھنے کی گارنٹی دیں اور نوازشریف کو یہ یقین دہانی کروا دیں کہ عدالتی کاروائی پر کسی ادارے کی جانب سے اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی تو معاملات سدھر بھی سکتے ہیں اور سیاسی جمود ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ اگر ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تو شاید بہت پہلے کر چکے ہوتے۔ "شکریہ راحیل شریف" والے گروہ کی موجودگی میں غالبا وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔

اب اگر نواز شریف کسی بھی صورت معاملات کو کھینچ کر مارچ تک لے گئے اور سینیٹ انتخابات کے بعد دو تہائی اکثریت سینیٹ میں بھی حاصل کر لی تو پھر اگلے عام انتخابات کے بعد ملک کے آئین کے ڈھانچے میں بنیادی ترامیم کرنے سے انہیں کوئی روک نہیں پائے گا۔ اور یہ ترامیم نہ صرف اداروں کو ان کی اپنی حدود میں رہنے کا مکمل طور پر پابند بنا دیں گی بلکہ ان اداروں کا احتساب بھی پارلیمان کے سپرد کر دیں گی۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر صورت میں ایسٹیبلیشمنٹ کویہ ممکن بنانا ہےکہ یا تو عام انتخابات کا انعقاد ہونے ہی نہ پائے اور ٹیکنو کریٹ حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے یا پھر نوازشریف کی جماعت کے حصے بخرے کرکے اسے آئیندہ عام انتخابات میں چند درجن نشستوں تک محدود کر دیا جائے۔ دوسری جانب نوازشریف کو نہ صرف اپنی اور اپنی جانشین مریم نواز کی سیاسی بقا کی جنگ لڑنی ہے بلکہ ہر صورت ملک میں اگلے عام انتخابات کا انعقاد ضروری بناتے ہوئے اپنی جماعت کو بھی ٹکڑوں میں بٹنے سے بچانا ہے۔

یہ ایک مشکل صورتحال ہے لیکن 1999 کے برعکس نواز شریف اس وقت انتہائی مستحکم پوزیشن میں ہیں۔ نہ تو وہ سیاسی طور پر تن تنہا ہیں اور نہ ہی 1999 کی مانند میڈیا یا سول سوسائٹی سے ان کا کوئی جھگڑا ہے بلکہ اس کے برعکس سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا ان کے بیانیئے کی تائید کرتادکھائی دیتا ہے۔ اس جنگ میں اس وقت کمزور پوزیشن کس کی ہے اس کا اندازہ آپ وطن عزیز میں اس وقت اظہار رائے اور اظہار بیاں ہر عائد ایک خاموش پابندی سے لگا سکتے ہیں۔ وہ بیانیہ جو کمزور ہو اورجس کی شکست کے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں اس بیانیے کو زبردستی زندہ رکھنے کیلئے تنقید کرتی آوازوں کا گلا گھونٹنا کی رسم نہ تو دنیا میں کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی وطن عزیز میں۔

ایوب کا دور ہو یا ضیا الحق کا یا پھر مشرف کا سب ادوار میں تنقید کرتی آوازوں کو جبر سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بالآخر حبس و جبر کی گھٹن کو سچائی کے اجالوں کے آگے سر خم کرکے پسپائی اختیار کرنا ہی پڑ گئی۔ اس وقت بھی جس طریقے سے خاموشی سے میڈیا کے تمام حصوں میں ایک زبردستی کی سینسر شب لگا کر جان و مال سے محروم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ہرچند مشکل نہیں کہ جمہوری بیانیہ جیتتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

کاش صحافیوں یا لکھنے والوں کی نگرانی کرنے کے بجائے اور ان کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے صرف اپنے بیانیے کو موثر انداز میں پیش کیا جاتا تو آج ہم سب شاید جمہوریت میں موحود خامیوں پر تنقید کرتے ہوئے اس نظام کو اور گورننس کو مزید بہتر کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے۔ لیکن جس طریقے سے جمہوری بیانیے کو کمزور کرکے روز اول سے آزاد آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش گئی اس کی وجہ سے ساری توجہ جمہوری مخالف بیانئے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازشوں پر مزکور ہوگئی۔

وطن عزیز میں جاری اس لڑائی میں ہو سکتا ہےکہ کوئی ایک فریق جیتے یا ہارے لیکن نظریات اور سچائی کا علم تھامے صحافی یا دانشور کبھی نہیں ہاریں گے۔ نواز شریف جیت گیا تو یہی افراد اس پر بھی بلا خوف وخطر تنقید کا عمل جاری رکھیں گے اور اگر جمہوریت مخالفت قوتیں جیتیں تو بھی کلمہ حق بلند کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پابندیاں ظلم یا جبر کبھی بھی سچ کا گلہ نہیں گھونٹ پاتے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔