1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیتیں گے

دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیتیں گے

سیہون شریف میں شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے نے جہاں بے شمار معصوم اور بے گناہ زائرین کی جانیں لیں وہاں پورے وطن کو ایک سوگ کی کیفیت میں بھی مبتلا کر دیا۔ جس قدر بے رحمی سے دربار میں موجود زائرین کے خون سے ہولی کھیلی گئی اس کی مزمت کیلئے شاہد الفاظ کافی ہو ہی نہیں سکتے۔ پچھلے چند روز میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے ایک بار پھر وطن عزیز کی فضا کو خوف وحبس میں مبتلا کر دیا ہے۔ دہشت گردوں کا ایک خاص وقت میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو ٹارگٹ کرنا اور پھر سہیون میں مزار پر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد پھر سے منظم ہو کر ریاست پاکستان کو ایک بڑا چیلنج دینے والے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں دہشت گردوں نے دوبارہ سے منظم ہو کر نئے حملوں کی منصوبہ بندی کیسے اور کس کے تعاون سے کی اس کو جاننا اور سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ طالبان کے مختلف گروہوں کو استعمال کرنا افغانستان بھارت یا ایران کیلیے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ان تینوں ممالک سے ہمارے تعلقات کچھ خاص نہیں ہیں اور پس پردہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ان دہشت گرد حملوں میں جو ایک نیا زاویہ آیا ہے وہ مزاروں کو نشانہ بنا کر وطن عزیز میں مسلکی اور فرقہ واریت شدت پسندی کو ہوا دینے سے متعلق ہے۔

یہ پہلو نہ صرف بے حد خطرناک ہے بلکہ اس کے انتہائی خوفناک اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا شکار معاشرہ اگر گروہی یا مسلکی تقسیم کا شکار ہو جائے تو اس کو ختم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست پاکستان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ کیسے معاشرے کو تقسیم سے بچایا جا سکے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے پاک فوج کو اب افغانستان کی سرزمین پر خفیہ آپریشن لانچ کرنے پڑیں گے کہ طالبان کے زیادہ تر گروہ افغانستان کی سرزمین سے کاروائیاں کرتے ہیں۔

پاک فوج کی ان کاروائیوں کے جواب میں نہ صرف افغانستان سے بھی جواب آئے گا بلکہ ایران اور بھارت کو بھی وطن عزیز میں مزید دخل اندازی کا موقع ملے گا۔ یہ جنگ تین مختلف محاذوں پر پاک فوج کو لڑنی ہے جو کہ کسی بھی طور آسان کام نہیں ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر گلے پھاڑنا یا تجزیے لکھنا یا پھر کمپیوٹر اور موبائل کی سکرینوں سے پاک فوج پر طنز و تنقید کے نشتر برسانا بے حد آسان کام پے لیکن میدان میں دہشت گردوں کا سامنا کرنا اور ان کو ان کے بلوں میں گھس کر مارنا دراصل ہمت اور بہادری ہے۔ پاک فوج کے جوان ویسے بھی پالیسیاں نہیں بناتے۔

جن آمروں نے دہشت گردوں کو پالنے کی پالیسیاں بنائیں ان کا موجودہ فوج اور اس کی کمان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیئے شاید ہمیں اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہو کر اس کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔ آنے والے کچھ روز میں ہماری افواج کو بے حد کڑوے اور حساس فیصلے کرنے ہوں گے یہ فیصلے شاید مستقبل قریب میں بہت سے ایسے شدت پسند گروہوں کو بھی ہمارے خلاف کاروائیوں پر اکسائیں گے جو ابھی تک خاموش بیٹھے ہیں۔ یعنی اس جنگ میں شاید بے حد تکلیف دہ لمحات ابھی مزید آئیں گے۔ لیکن چاہے آپ پر جنگ مسلط کی جائے یا آپ اسے شروع کریں دونوں ہی صورتوں میں پھر نقصان کی پرواہ کیئے بنا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں یہ تلخ سانحات برداشت کرنے ہوں گے۔

دوسری جانب سیاسی حکومت کو بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ جیسے ملک اسحاق کا ان کاؤنٹر کیا گیا ٹھیک ویسے ہی بہت سے شدت پسندوں اور جہادی اثاثوں کو اب تلف کرنا ہوگا۔ ان کی اموات سے جو دباؤ یا تقسیم معاشرے کے مختلف طبقہ فکرکے لوگوں میں پیدا ہوگی اس کو احسن طریقے سے سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ہی ختم کر سکیں گی۔ شدت پسندی کے خاتمے کیلیۓ بے حد تلخ سیاسی فیصلے جو عام آدمی کے نظریات سے متصادم ہیں اب جلد یا بدیر لینے ہوں گے۔ یقینا ایسے فیصلوں کا سیاسی نقصان سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں ہوگا لیکن اگر تھوڑے سے سیاسی نقصان کے بدلے وطن عزیز سے شدت پسندی کے ناسور کا خاتمہ ہو سکے تو یہ سودا ہرگز بھی برا نہیں ہے۔

کچھ ذمہ داریاں بطور شہری ہم لوگوں کی بھی ہیں کہ بجائے ہر دھماکے کے بعد ہم اپنے اپنے سیاسی نظریاتی یا مسلکی وابستگیوں کے تابع ہو کر ریاست اور ایک دوسرے پر طنز و تنقید کے نشتر برسانا بند کریں۔ دور جدید میں پراپیگینڈہ کی جنگ کسی بھی لڑائی میں بے انتہا اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس پراپیگینڈے کا شکار ہو کر کسی بھی دوسرے نظریے سے تعلق رکھنے والے فرد یا گروہ سے لڑ کر منقسم ہو کر ہم محض اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ حضرات جو ایسے سانحات ہوتے ہی مائیک یا قلم لیکر حکومت اور فوج پر چڑھ دوڑتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ نہ تو کوئی بھی حکومت جان بوجھ کر اپنے شہریوں کو مرنے دیتی ہے اور نہ ہی کوئی فوج کسی بھی صورت میں دہشت گردوں کو جانتے بوجھتے عوامی مقامات یا مقدس مقامات پر دھاوا بولنے کی اجازت دیتی ہے۔

یقینا ہمارا اختلاف فوج کے سابقہ آمروں ریٹائرڈ جرنیلوں اور پالیسی سازوں یا وطن عزیز کے سابقہ سیاسی راہنماؤں سے ہے اور رہے گا جن کی غلط پالیسیوں اور غلط بیانیے قائم کرنے کی وجہ سے ہم یہ سب بھگت رہے ہیں لیکن اس جنگ کی ڈائنامکس کو بھی سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ یہ جنگ نظریات کے ساتھ ہے اور بدقسمتی سے ہم تیسری دنیا کا ایک ملک ہیں جہاں اکثر نظریات کی چھتری تلے دنیا کے مختلف ممالک بھی اپنی اپنی پراکسی جنگیں لڑتے ہیں۔ نظریات کو شکست دینے اور انہیں بدلنے میں دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔

سوچ اور نظریے کی یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ایک جانب زندگی کی حقیقتوں سے منہ موڑے نفرتوں اور موت کو گلے لگانے والا نظریہ ہے اور دوسری جانب زندگی کی تمازتوں اور اجالوں کا علم تھامے سوچ۔ یقینا اس جنگ کو نظریاتی محاز پر ہی لڑ کر جیتا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ کسی بیرونی دشمن یا بیرونی فوج سے نہیں بلکہ اپنے درمیان بسنے والے اپنے ہی جیسے دکھائی دینے والے بھٹکے ہوئے اور گمراه گروہوں سے ہے۔ یہ گروہ کبھی خود اور کبھی دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہ ایسے گروہ ہیں جو کسی بھی جنگی ضابطے یا قانون کو نہیں مانتے۔ اور اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی حد تک بھی گربھی سکتے ہیں۔

سوچ کی لڑائی سب سے کڑی، طویل اور صبر آزما ہوتی ہے۔ اعصاب کو شل کر دینے والی اس لڑائی کو نظریاتی محاز پر ہم سب مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ جہاں ریاست کو اس نظریاتی اور سوچ کے محاذ پر جاری جنگ میں بے پناہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے وہیں ہم سب کو بھی بطور معاشرہ اپنے اپنے حصے کا فرض نبھانے کی ضرورت ہے۔ ہم دہشت گردی کا واقعہ ہوتے ہی طنز و تنقید کے نشتر اٹھائے فورا اپنی اپنی سوچ کو درست ثابت کرنے نکل آتے ہیں اور ریاستی اداروں کو مجرم ٹھہراتے ہوئے نادانستگی میں مزید تقسیم ہوتے ہوئے دہشت گردوں کی ہی مدد کر دیتے ہیں۔ ہمیں بطور معاشرہ اس امر کے ادراک کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ایک آئیڈیل معاشرے یا آئیڈیل حالات و واقعات کے پس منظر میں نہیں رہتے۔ ایک جنگ سے نبرد آزما قوم کو اس شعوری ڈینائل میں پڑے رہنا کوئی مدد یا مثبت نتیجہ نہیں دے سکتا۔

عہد گم گشتہ یا گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا لیکن ہم سب اس ماضی سے سیکھتے ہوئے اپنے حال کو درست کرتے ہوئے آنے والے کل کو محفوظ ضرور بنا سکتے ہیں۔ ہم سب کو اس ضمن میں تلخ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار اس نظریے اور سوچ کے خلاف ادا کرنا ضروری ہے جو تاریکی سے پیار کرتا ہے اور اجالوں سے نفرت۔ یہ یقینا آسان کام نہیں ہےکیونکہ ہم نے لاتعداد بچوں اور بے گناہوں کی لاشیں اس جنگ کے دوران کاندھوں پر اٹھائیں ہیں اور شاید مزید اور بھی اٹھانا پڑیں۔ لیکن کیا ہم خوف کا شکار ہو کر اپنے بچوں کو گھروں میں قید کر لیں۔

خود زندگی کی تمام مسرتوں یا تفریحات سے منہ موڑ لیں۔ یا پھر ایسے ہی ایک دوسرے پر تنقید کرتے ان دہشت گردوں کے وجود کا باعث کبھی اپنی ہی فوج، گزشتہ پالیسیوں یا بیرونی سازشوں پر ڈال کر مزید تقسیم ہوتے جائیں؟ موجودہ حالات یا اس دہشت گردی کی جنگ میں حصہ لینا نہ لینا ہمارا فیصلہ نہیں تھا لیکن ہم نے یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ کیا ہم نے محض ڈر کر نوحہ خواں بن کر اور طنزو تنقید کے نشتر برسا کر خود کو اور اپنے بچوں کو خوف کی فضا میں سانس لیتے رہنے دینا ہے یا پھر ایسے پر امن معاشرے میں بسنا ہے جہاں زندگی اپنی تمام تر تکالیف اور مصائب کے باوجود مسکراتی گنگناتی اور رواں دواں رہے۔

کہتے ہیں کہ طویل سے طویل رات کی بھی صبح ہوتی ہے۔ ہر جنگ کا ایک اختتام ہوتا ہے۔ ہم نہیں تو ہمارے بچے یقینا ایک پرامن اور مثالی معاشرہ ضرور دیکھنے پائیں گے۔ بس ہمیں یقین کی ضرورت ہے اور اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے کردار کو نبھانے کی۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ایک اچھا پہلو ہے اور ان پر تنقید ہم کرتے ہی رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اس جنگ کو جیتنے اور امن کی جانب لوٹنے کے لیئے مشکل حالات میں ہم سب کو مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی کی رمق کا ساتھ دینا ہوگا نا کہ نفرت اورجہالت کے اندھیروں کا۔ یہ لڑائی ہمیں جیتنی ہے اور ہم جیتیں گے بس یقین اور حوصلہ مضبوط رکھنا ہوگا۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔