یہ جدید تہزیب پر مبنی اکیسویں صدی ہے۔ انسانی شعور آگہی کی بلندیوں کو چھوتا ہوا ادراک کی منازل بتدریج طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی سائنس اور دیگر علوم نے علم و عرفان کے خزانے کے تالے کو کھول دیا ہے۔ اب چاند پر پریوں جیسی کہانیاں دم توڑ چکی اب بچے مارز پر انسانوں کے بسنے کی کہانیاں سنتے ہیں۔ بہت سے فرسودہ خیالات نظریات اور روایات دم توڑ چکے اور جو ابھی باقی ہیں چند ہی دہائیوں میں وہ بھی دم توڑ جایں گے۔
انسان اب ایک ایسی دنیا میں بستا ہے جہاں سب کچھ ٹیکنالوجی اور سائنس کے مرہون منت ہے۔ اب کسی کے ہاں سوگ ہو یا خوشی گھر بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ پر فیس بک یا ٹویٹر سے خوشی یا غم کا پیغام شیئر کیجیے اور دامن جھاڑ لیجئے۔ کسی بھی سوال یا مسئلے کا حل جاننا ہے تو گوگل حاضر ہے۔ دل کی پیوند کاری سے جگر کی ہیوند کاری تک سب کچھ ساینس کے دم پر ممکن ہے۔ ہم غالبا وہ آخری جنریشن (نسل)ہیں جس نے ٹیکنالوجی کا ارتقا اور ایک پرانی تہزیب کو دفن ہوتے ایک ساتھ دیکھا۔ ہم لوگوں نے جزبات کو مشینی سانچوں میں ڈھل کر برف ہوتے دیکھا۔
احساس کو ٹییکنالوجی کی ہایپر ٹیکسٹ لیگنونج کی گہرائی میں ڈوبتے دیکھا۔ خیالات اور افکار کی وسعتوں کو کارپوریٹ کلچر کے "منافع" میں دفن ہوتے دیکھا اور امن و محبت کو بارود کے ڈھیر تلے دفن ہوتے تک دیکھا۔ یہ دنیا کی ریت بھی ہے اور قانون فطرت بھی ہے کہ ہر تہزیب چند صدیوں بعد دفن ہو جاتی ہے اور دنیا ایک نئے رنگ اور ڈھنگ سے پھر سے رواں دواں ہو جاتی ہے۔ اب یوں ہے کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اس دور میں خود انسانوں کا زندگی کو گزار پانا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سروایول آف دی فٹسٹ کے اس دور میں انسان کو مشینوں اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مققبلہ کرنا پڑتا ہے اور اس مقابلے میں پتہ ہی نہیں چلتا کب انسان احساسات جذبات کو چھوڑ کر صرف ایک مشین بن جاتا ہے۔ ایک ایسی مشین جسے مارکیٹنگ کے پراپیگینڈے کے تابع کرکے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اس کے اوڑھنے بچھوڑنے سے لیکر اس کا لباس کھانا پینا کیا ہوگا۔ اور انسان اس پراپیگینڈے کے زیر اثر رہ کر آرزووں اور نا ختم ہونے والی خواہشات کے سراب کے تعاقب میں بھاگے ہی چلا جاتا ہے۔ اس سراب کے تعاقب میں اپنے جیسے نہ جانے کتنے ہی انسانوں کو روند کر ایک "سٹیٹس" حاصل کیا جاتا ہے۔
اس نئی تہزیب نے انسان کو منافع اور سٹیٹس کے پیچھے بھاگتا ہوا ایک مشینی روبوٹ بنا دیا ہے جو آزادی اور شخصی انفرادیت کی گردان الاپے دراصل ان گنت ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اور اس بات پر خوش ہے کہ مرنے والوں میں ہم نہیں یا گڑھے میں گرنے والے ہم نہیں۔ اس جدید دنیا اور نئی تہزیب نے ٹیکنالوجی اور سائنس کا لبادہ تو اوڑھ لیا لیکن صدیوں پرانی انسانی سرشت کو تبدیل نہ کرنے پائ۔
انسان آج بھی ایک دوسرے کے خون کا اسی طرح پیاسا ہے جیسا کے صدیوں پہلے تھا۔ اور انسانوں کے رویوں اور مزاج کو ترتیب دیتے مخصوص گروہ آج بھی دنیا پر ایسے ہی قابض ہیں جیسے کے صدیوں پہلے تھے۔ انسان کے رویوں اور مزاج کو ساینٹیفیکلی اب جس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے پہلے کبھی نہیں کیا جاتا تھا۔ پوری دنیا سے ریسرچ اور ڈیٹا اکٹھا کرکے انسانی لاشعور کو باآسانی تابع بناتے ہوئے اسے غلام رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں انفرادیت یا شخصی آزادی ایک پرکشش یونیک سیلینگ پوائنٹ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں۔ ہمارے مجموعی رویے انسانی شعور کی ترقی اور نالج ریوولیشن کے بعد بہتر پونے چائیے تھے لیکن اس کے برعکس ہمارے رویے سردمہری کا شکار ہوتے چلے گئے۔
انٹرنیٹ نے جہاں معلومات تک رسائی دی وہیں اس نے ایک "پیرالیل یونیورس " بھی بنا ڈالی۔ اسـوقت ورچویل ریالٹی حقیقی دنیا سے زیادہ آباد ہے۔ اس ورچویل ریلیٹی نے کمپیوٹر اور موبائل سکرینوں کے اندر جھانکتی ایک گردن جھکائی ہوئی نسل تیار کر دی ہے جسے "نیک ڈاؤن جنریشن" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نسل موبایل سکرینوں اور لیپ ٹاپ میں گردن جھکائے اردگرد کی حقیقتوں کو فراموش کیئے انٹرنیٹ کی دنیا یعنی ورچویل ورلڈ میں بستی ہے۔ اس ورچویل ورلڈ کو کنٹرول کرنا بے حد آسان ہے۔
کابل کی ایک جلتی ہوئی بستی سے لیکر عراق و لیبیا کی گلیاں یا نیو یارک ٹائم سکوائر ہو تقریبا ہر دوسرا آدمی ہاتھوں میں موبایل یا لیپ ٹاپ تھامے گردن جھکائے اپنی اپنی فیس بک یا ٹویٹر کی ٹائم لائن پر اپنے احساسات ٹائپ کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کے ہر باشندے کو گمان ہے کہ وہ ورچویل ورلڈ میں آ کر آزاد ہے۔ حالانکہ اس ورچول ورلڈ کو جس قدر کنٹرول کیا جاتا ہے عام دنیا کو اس قدر کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔
دوسری جانب اس جدید تہزیب کا المیہ یہ ہے کہ انسان اب اپنی محسوس کرنے کی حس کھوتا چلا جا رہا پے۔ اب قتل عام برما میں ہو یا فلسطین میں یا پھر نیو یارک یا شکاگو میں چند تصاویر آپ لوڈ کرکے اور انٹرنیٹ پر چند سٹیٹس آپ لوڈ کرکے اگلی لاشوں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ تا کہ بحث اور بات کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آ سکے۔ جنگوں کے میدان سے اٹھتا ہوا دھواں اور تباہی و بربادی کے ہولناک مناظر کا اس ورچول ورلڈ میں سب سے زیادہ دیکھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں اب قتل و خون کو ایک خاموش قبولیت کی سند ملتی جا رہی ہے۔
اسی طرح رشتوں ناطوں کی اہمیت بھی خاموشی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب جدید تہزیب "ایموشنز" یعنی جزبات کو ایک بوجھ اور فرسودہ چیز سمجھتے ہوئے بے حسی کو اعزاز سمجھتے ہوئے اسے "پریکٹیکل" لائف کا نام دیتی ہے۔ اس تہزیب میں رشتہ ایک ہی بچا ہے جو کہ خریدار اور بیچنے والے کا ہے۔ بیچنے کیلئے برانڈڈ اشیا سے لیکر تعلیم جنس سے لیکر سیکس ٹوائیز جنگوں سے لیکر اسلحہ اور خوابوں سے لیکر خواہشات سب کچھ ہے بس گاہک بولی لگائے۔ گاہک بنا سوچے سمجھے جدید تہزیب کی اس منڈی میں بیوپاریوں سے اشیا خریدتا ہی جاتا ہے اور پھر ایک دن خود کسی اعداد و شمار کا حصہ بن جاتا ہے۔
کمپیوٹر اور موبایل کی سکرینوں میں گردن جھکائے "نیک ڈاؤن" جنریشن اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کے درد سے نا آشنا پراپیگنڈا کی طاقت سے نابلد گردن جھکائے اور کانوں پر ہیڈفون لگائے انسانی جزبات اور احساس کی دم توڑتی چیخوں سے ناآشنا اس نئی تہزیب کے برزخ کے وارثوں کے ہاتھوں یرغمال بنتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ اربوں انسان شاید خود بھی چیختے ہیں لیکن ٹیکنالوجی اور سائنس پر مبنی یہ جدید تہزیب ان چیخوں کو کسی بھی مصنوعی ورچویل سمبل کے بٹن تلے ہی دفن کر دیتی ہے۔ یوں یہ ان سنی رہ جاتی ہیں۔