1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. گمشدہ قوم

گمشدہ قوم

گستاخ مذہب کو سر عام پھانسی دو۔ توہین کا ارتکاب کرنے والوں کو چوک میں لٹکا دو اور سنگسار کر دو۔ یہ نعرے یہ الفاظ آج کل وطن عزیز میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پڑھنے اور نجی محفلوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ جب سے بلاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لاپتہ ہوئے ہیں ملک کے دانشور، یہاں تک کہ الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز نے بھی ان نعروں اور مطالبات سے زمین آسمان ایک کیا ہوا ہے۔ اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے افراد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم کے ذریعے ان گمشدہ افراد کو بنا کسی ثبوت اور شنوائی کے نہ صرف مجرم قرار دے چکے ہیں بلکہ ان کی بے رحمانہ موت کا تقاضہ بھی کر چکے ہیں۔

بھینسا، روشنی، اور موچی نامی ٹوئیٹر اور فیس بک پیجز سے نہ صرف سلمان حیدر اور دیگر گمشدہ افراد کا تعلق بنا کسی ثبوت کے قائم کیا جا چکا ہے۔ بلکہ اپنے تعیں یہ فرض بھی کر لیا گیا ہے کہ یہ افراد بدترین سلوک کے مستحق ہیں۔ روشنی اور موچی نامی پیجز زیادہ تر دفاعی پالیسیوں مسلم دنیا کی منافقانہ پالیسیوں فرقہ واریت اور مسلمانوں کے دوغلے پن پر چبھتے ہوئے سوالات اٹھاتے تھے۔ ان دونوں صفحات پر کم سے کم میری نظر سے کوئی ایسا مواد نہیں گزرا جس میں جان بوجھ کر کسی کے مذہب کا مزاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہو۔ بھینسا نامی پیج یقینا مذاہب کا مزاق اڑاتا رہا لیکن اس پیج کے چلانے والے اگر واقعی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس میں تھے۔ تو انہیں سائبر جرائم کے بل کی کئی دفعات لگا کر اور آرٹیکل 295 کی ناقابل ضمانت دفعہ لگا کر عدالت میں پیش کیا جا سکتا تھا۔ لیکن شاید ان افراد کو اغوا کرنے والوں کا مقصد کچھ اور تھا۔

ان افراد کو اغوا کرنے والے کون تھے اس کا اندازہ لگانے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیشہ کی طرح ان سماجی کارکنوں اور بلاگرز کو لاپتہ کرنے کے بعد مذہب کی چھتری کو استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ کو مشتعل کرکے اس واردات کو جائز قرار دینے کی کوشش گئی۔ ویسے بھی اندھے عقیدت مندوں کے معاشروں میں جہاں سوچ جیسی نعمت ناپید ہوتی ہے اس طرح کے اقدامات کو باآسانی مذہب کی آڑ میں قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔ بنا کچھ سوچے اور سمجھے زیادہ تر افراد اس پراپیگینڈے کا شکار ہو کر ریاست میں باشندوں کے لاپتہ ہونے کے فعل کو نہ صرف درست قرار دے رہے ہیں بلکہ ان لاپتہ افراد کے حق میں بولنے اور لکھنے والوں کو بھی گستاخ قرار دیتے ہوئے ان کو بھی لاپتہ کرنے یا مار دینے کے مطالبات اٹھا رہے ہیں۔

یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے کہ معاشرے کا وہ دانشور طبقہ جو لیفٹ ونگ سے تعلق رکھتا پے یا ترقی پسندانہ رجحانات رکھتا ہے، وہ طبقہ نہ صرف مذہب کی آڑ میں چھپے اس فعل کی مخالفت کرتے ہوئے ہچکچا رہا ہے بلکہ خوف بھی محسوس کر رہا ہے۔ جو افراد ان لاپتہ افراد کے حق میں آوازیں بلند کر رہے ہیں وہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خود اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر یہ کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اردو کے زیادہ تر اخبارات جریدے اور آن لائن ویب سائٹس نہ صرف لاپتہ بلاگرز اور سماجی کارکنوں کی بازیابی یا ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے حق میں لکھی گئی تحاریر کو شائع کرنے سے انکاری ہیں بلکہ واضح انداز میں اعلان فرما رہے ہیں کہ ان گستاخوں کے حق میں لکھی گئی کوئی تحریر شائع نہیں کی جائے گی۔ یہی حال زیادہ تر ٹی وی چینلوں کا بھی ہے۔ جہاں اردو لکھنے اور بولنےوالے صحافیوں اور دانشوروں کا تسلط ہے۔

ستم یہ ہے کہ ملک میں بسنے والی زیادہ تر آبادی اردو زبان میں اخبارات یا آن لائن ویب سائٹس کا مطالعہ کرتی ہے اور اردو ٹی وی چینلز کو ہی دیکھتی ہے۔ بدقسمتی سے اردو صحافت سے وابستہ زیادہ تر افراد آج بھی ضیاالحق کے نظریات سے وابستہ ہیں، اور مذہب اور دفاع کے معاملات دوارے ضیاالحق جیسی شدت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لاپتہ افراد کو بنا کسی عدالت میں پیش کیئے بنا کسی شنوائی کے مجرم قرار دے کر فیصلہ بھی عوامی عدالت میں سنایا جا چکا ہے، اور رائے عامہ کو اغوا کاروں کے حق میں موڑا جا چکا ہے۔ رہی سہی کثر اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے شدت پسند جو کہ دانشوروں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں انہوں نے پوری کر دی ہے۔ سلمان حیدر، وقاص گورایہ، یا عاصم سعید مجرم ہیں یا ملزم، اس کا تعین عدالت میں طے شدہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے، نا کہ ٹی وی ٹاک شوز یا اخبارات اور سوشل میڈیا کی عدالتوں میں۔

یہ رویے اور یہ رجحانات ان اغواکاروں کو ایسے اقدامات کرنے کیلئے مزید حوصلہ فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں یوں لاپتہ افراد کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس اقدام کی حمایت کرنے والے یہ نکتہ سمجنے سے قاصر ہیں کہ ریاست کے ادارے جب اپنے ہی شہریوں کو اغوا کرنا شروع کر دیں تو اس کے نتائج پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اور ایک ایسی خوف کی فضا قائم ہو جاتی ہے جس میں کوئی بھی فرد کسی بھی قسم کی ریاستی سماجی یا دفاعی پالیسیوں کے غلط پہلووں کو بھی اجاگر کرنے سے ڈرتا ہے۔

نفسیاتی طور پر ایسی فضا سب کو اپنی اپنی بقا اور جان کے تحفظ کے چکر میں ڈال کر غلط کو غلط کہنے کی نعمت سے ہی محروم کر دیتی ہے۔ اکثر قدامت پسند ریاستوں کی مذہبی اور دفاعی اشرافیہ کو ایسی عوام درکار ہوتی ہے جو صرف سر جھکا کر ان کے بنائے ہوئے جبر کے ہر قانون اور ضابطے کو مانتے ہوئے زندگی بسر کر دیں۔ دوسری جانب سلمان حیدر جیسے شاعر اور شعبہ تدریس سے وابستہ شخص کو اٹھا کر ریاست کے چند عناصر اس باغی یا روشن خیال طبقے کو بھی ایک پیغام دے رہے ہیں، جو مکالمے اور دلیل کی قوت پر یقین رکھتا ہے۔

پیغام بہت سیدھا اور واضح ہے کہ ریڈ لائن کو عبور مت کرو۔ جو بنیادی بیانیہ دفاع مذہب اور سماجی روایات کے متعلق تشکیل پا چکا ہے اگر اس کے بنیادی ڈھانچے کو دلیل کی قوت سے بدلنا چاہو گے تو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو جاؤ گے۔ لاپتہ افراد کی یہ فہرست نہ صرف طویل ہے بلکہ خوفناک بھی۔ سینکڑوں ہزاروں افراد محض اس فہرست کے ایک نمبر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان لاپتہ افراد کے ورثا کیلئے زندگی کسی جہنم سے کم نہیں کہ ہر لمحہ ان کی آنکھیں اپنے پیاروں کی منتظر رہتی ہیں ہر آن دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کا بیٹا باپ شوہر یا بھائی زندہ بھی ہے یا نہیں۔ انتظار اور بس انتظار۔

دوسری جانب زیادہ تر لاپتہ افراد کو جس بدترین ذہنی و جسمانی ٹارچر سے گزارا جاتا ہے اس کے بعد ان کی باقی ماندہ زندگی اس ازیت اور کرب سے ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے لڑتے ہوئے بیت جاتی ہے۔ لاپتہ افراد کی زندگی بھی اغواکاروں کے مرہون منت ہوتی ہے اگر تو بدترین ٹارچر اور انسانیت سے گرے ہوئے فعل سہنے کے بعد بھی وہ زندہ بچ جائیں تو اغواکار پہلے تسلی کرتے ہیں کہ انہیں آزاد کرنے کی صورت میں کہیں وہ دوبارہ تو پھر سے سوال اٹھانے یا تنقید کرنے یا حق مانگنے کا جرم تو نہیں کریں گے۔ مکمل تسلی کے بعد کچھ خوش نصیبوں کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ جن میں سے اکثر رہائی پانے کے بعد خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ دوبارہ سے اس بدترین ازیت میں خود کو اور اپنے پیاروں کو کوئی بھی نہیں مبتلا کرنا چاہتا۔ جبکہ کچھ لاپتہ افراد عقوبت خانوں میں ہی اِبدی نیند سلا دئیے جاتے ہیں۔

سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کے کیس میں بھی معاملہ یہی لگ رہا پے اور جس طرح سے مذہبی جزبات کا کارڈ استعمال کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان افراد کی زندہ سلامت واپسی اب شاید معجزے سے کم نہیں۔ اکثر زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب انسان چاہتا ہے کہ اس کے اندازے توقعات یا تجزیے غلط ثابت ہوں۔ سلمان سمیت دیگر لاپتہ بلاگرز کے اس معاملے میں بھی میری یہی دعا ہے کہ میرے تمام خدشات غلط ثابت ہوں۔ یہ افراد جلد سے جلد اپنے پیاروں کے درمیان موجود ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ افراد کسی طرح بازیاب ہو بھی جائیں تو کیا گارنٹی ہے کہ کوئی مشتعل فرد ان کو توہین مذہب کا مجرم گردانتے یا غدار وطن قرار دیکر گولی سے نہیں اڑائے گا۔

کیا فرق پڑتا ہے بس ہماری انا کی تسلی ہونی چائیے ہماری دفاعی اور مذہبی اشرافیہ کا تسلط قائم رہنا چائیے افراد چاہے اسلام آباد سے لاپتہ ہوں یا بلوچستان سے ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ وطن عزیز میں محفوظ ترین زندگی گزارنے کا سادہ سا نسخہ یہی ہے کہ چپ چاپ شتر مرغ کی مانند گردن جھکا کر جیتے جاؤ اور کسی بھی منافقانہ رسم و رواج یا ریاستی جبر کے خلاف کسی قسم کے مکالمے یا دلیل سے لڑنے کا سوچو بھی مت۔ ہم بطور معاشرہ منافقانہ پن کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ دانستہ طور پر ڈینایل کی کیفیت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کسی کو دفاعی پالیسیوں یا ادارے کے متعلق سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں لیکن ہم خود پوری دنیا کی افواج اور ریاستوں کی پالیسیوں کو نہ صرف ظالمانہ قرار دینا چاہتے ہیں بلکہ ان سے اس موضوع پر مکالمہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے عقائد اور مذہبی نظریات پر ہمیں معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں لیکن پوری دنیا کے مذاہب پر تنقید اور عقائد پر سوالات کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سلمان حیدر اور دیگر لاپتہ افراد کا تعلق خود ایک ایسی قوم اور معاشرے سے ہے جو جدید اور مہذب دنیا میں خود لاپتہ اور گمشدہ ہے اور بدقسمتی سے اپنے ہی جبری اغوا اور لاپتہ ہونے کا اس قوم کو ادراک ہی نہیں ہونے پا رہا ہے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔