حلقہ این اے 120 لاہور کا ضمنی انتخاب مستقبل قریب میں جمہوری قوتوں اور آمریت کے تلوے چاٹنے والی قوتوں کے درمیاں لڑائی میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔ اس حلقے میں مریم نواز نے اپنی والدہ کی سیاسی مہم چلاکر سیاست کے میدان میں عملی طور پر انٹری بھی دے دی۔ مریم نواز شریف کی یہ انتخابی مہم کتنی کارگر رہی اس کا جواب مسلم لیگ نون کے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے پر ہوگا۔
اگر تو 2013 کی بہ نسبت مسلم لیگ نون کی جیت زیادہ ووٹوں سے ہوئی تو پھر نہ صرف مریم نواز کی اپنی جماعت کے معاملات پر گرفت مضبوط ہو جائے گی بلکہ نواز شریف کے قائم کردہ بیانیے کو بھی تقویت ملے گی۔ اس انتخابی معرکے میں بھاری مارجن سے جیت اعلی عدلیہ کے اس سیاہ فیصلے کی دھجیاں بکھیرنے میں بھی معاون ثابت ہوگی جس کی رو سے نواز شریف کو "پس پشت" قوتوں کی ایما پر دیوار سے لگایا گیا۔
یہ حلقہ نواز شریف کے بیانیے کو قبول کرتا ہے یا پس پشت قوتوں کے فرسودہ بیانیے کو اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں وطن عزیز میں ایک خاموش اور دکھائی نہ دینے والی طاقت کے حصول کی جنگ میں شدت ضرور لائے گا۔ نواز شریف نے جو راستہ چنا ہے اس پر چلنے کی ایک بھاری قیمت ہے جو پورے شریف خاندان کو ادا کرنا پڑے گی۔ دوسری جانب شریف خاندان میں پڑتی دڑاڑیں بھی مسلم لیگ نون کیلئے کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہیں۔
ایسے میں پس پشت قوتوں کا عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک جانب حدیبیہ پیپر ملز کے کیس کا دوبارہ کھولنا اور دوسری جانب جماعت الدعوہ کو سیاسی جماعت مسلم لیگ ملی کے نام سے حلقہ این اے 120 میں اتارنا اس بات کا ثبوت پے کہ بیانیوں کی یہ جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ اینٹی سیسٹیبلشمنٹ ہونا کس قدر خطرناک ہوتا ہے اس بات کا اندازہ آپ لاڑکانہ کے قبرستان میں مدفن بھٹو کے پورے خاندان کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔
نواز شریف نے اگر بھٹو خاندان کے انجام کو دیکھتے ہوئے بھی اس راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس جرات مندانہ اقدام کا کریڈٹ اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تاریخ بھی کم بخت بہت ظالم ہے ایک زمانے میں قدامت پسند اور ایسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی پر سیاست کرنے والی جماعت اور سیاست دان نواز شریف آج نہ صرف مکمل طور پر اپنی جماعت کو ایک لبرل اور پراگریسو جماعت بنا چکا ہے بلکہ ایسٹیبلیشمنٹ کے مقابلے میں اپنا ایک متبادل بیانیہ بھی تیار کر چکا ہے۔
لاہور کے ووٹر اور بالخصوص حلقہ این اے 120 کے ووٹرز نے سال 1985 سے لیکر 2013 تک اس حلقے سے نواز شریف اور اس کی جماعت کو مسلسل کامیاب کروایا ہے۔ اب بھی اگر آپ اس حلقے کا دورہ کریں تو آپ باآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس حلقے کا ووٹر روایتی طور پر نواز شریف کا ووٹر ہے۔ مشرف دور میں جب دھاندلی کے تمام تر ریکارڈ توڑے گئے اور مسلم لیگ نون کو کئی حلقوں میں مشرف کے ظلم و ستم کی وجہ سے امیدوار تک نہ میسر آ سکے اس دور میں بھی اس حلقے سے نواز شریف کی جماعت کو نہ ہرایا جا سکا۔
پس پشت قوتوں کا جماعت الدعوہ کو سیاسی میدان میں اتارنے کیلئے اس حلقے کا سہارا لینا واضح اشارہ ہے کہ اس وقت تمام زور اس بات پر لگایا جا رہا ہے کہ کسی بھی طرح اس حلقے میں ایک کانٹے دار مقابلہ کروایا جائے۔ جماعت الدعوہ مسلم لیگ ملی کے نام سے انتخاب لڑ کر شاید 5 سے دس ہزار ووٹ تو توڑ دے گی لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر پائے گی۔ سٹریٹیجک اثاثوں کو سیاسی محاذ پر استعمال کرکے پس پشت قوتوں نے یہ بات بھی عیاں کر دی ہے کہ چاہے پوری دنیا ہمارے دفاعی بیانیے جو کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے گرد گھومتا ہے اسے غلط قرار دے اور چاہے اس بیانیے کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ دہشت گردی اور کڑوڑوں افراد شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ جائیں لیکن یہ بیانیہ تبدیل نہیں ہوگا۔ اور اس بیانیے کو چیلنج کرنے والا چاہے بھٹو ہو یا نواز شریف دونوں کو ہی نشان عبرت بھی بنا دیا جائے گا۔
اس گلے سڑے بیانیے کو بنیاد بنا کر پس پشت قوتیں پراپرٹی کے کاروبار سے لیکر کھاد بنانے اور دلیہ بیچنے سے لیکر سٹاک ایکسچینج تک سے اربوں کھربوں روپے کا منافع کماتی ہیں اور کمال مہارت سے اسی بیانیے کے دم پر کسی بھی قسم کے آڈٹ یا احتساب سے بالاتر رہتی ہیں۔ ہم میں سے ہر زی شعور شخص یہ جانتا ہے کہ وطن عزیز میں اصل حکمرانی کن طاقتوں کی ہے اور کونسی طاقتیں ملکی وسائل کا زیادہ حصہ ہڑپ کر جاتی ہیں لیکن ڈر یا خوف کی بنا پر اس بات کو زیادہ تر افراد اگنور کرنا ہی پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز آج بھی جدید دنیا سے صدیوں پیچھے کھڑا تلوار اور بندوق کے دم پر دنیا فتح کرنے والے ناکارہ اور شدت پسند اذہان کی افزائش کیئے ہی جا رہا ہے۔
دوسری جانب ایک بیانیہ پراگریسو اور لبرل ہے جو کہ دور جدید سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ بیانیہ علم تحقیق امن اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ نواز شریف نے 2007 سے لیکر آج کے دن تک رفتہ رفتہ اور بتدریج اس بیانیے کو اپنایا اور آج اس بیانیے کو اپنانے اور پس پشت طاقتوں کے گلے سڑے بیانیے کو چیلنج کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد انتقامی کاروائیاں بھگت رہا ہے۔ حلقہ NA120 کو جیتنے سے بیانیے اور سول بالاستی کی یہ جنگ جیتی تو نہ جائے گی لیکن بہرحال اس کا نتیجہ آئندہ آنے والے عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کی نشاندہی ضرور کر دے گا۔
لاہور جو ہمیشہ سے ایسٹیبلشمنٹ کا حامی رہا ہے اب NA120 کے انتخابی نتائج کو نواز شریف کی جماعت کے حق میں کرنےکے کی صورت میں شاید تاریخ میں پہلی بار بابنگ دہل ایک ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے کی بنیاد رکھے گا۔ مریم نواز اس بیانیے کو لیکر کیسے آگے کا سفر طے کرتی ہیں یہ دیکھنا باقی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ مسلم لیگ نون کو ایک پراگریسو اور قدرے لبرل جماعت بنانے اور اس کو اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہم اور کلیدی رہا ہے۔ اس انتخابی معرکے میں دراصل دو مختلف بیانیے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
ایک بیانیہ وطن عزیز کو اسلحہ اور سٹریٹیجک اثاثوں (من پسند شدت پسند گروہوں) کے دم پر آگے لے جانا چاہتا ہے جبکہ دوسرا بیانیہ امن جمہوریت اور مضبوط معیثت کے دم پر وطن عزیز کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ پہلے بیانیے جو کہ اسلحہ اور نان اسٹریٹجک اثاثوں پر مبنی ہے اس کا علم جناب عمران خان نے تھاما ہوا ہے جبکہ دوسرا بیانیہ جو کہ مضبوط معیشت امن اور جمہوریت کی بالادستی کا خواہاں ہے اس کا علم نواز شریف نے تھاما ہوا ہے۔
اس انتخابی معرکے میں دراصل مینوفیکچرڈ رائے عامہ اور نظریاتی رائے عامہ کا مقابلہ ہونا ہے۔ گو تاریخ پہلے بیانیے کا ساتھ دیتی دکھائی دیتی ہے لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اب کی بار جمہوری بیانیہ واضح طور پر کم سے کم اس ضمنی انتخاب اور اگلے منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بقول فیض گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا۔۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا۔۔