ہم انتہاپسندی کی حدوں کو چھوتا ہوا ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں کچھ بھی خالص نہیں۔ بچوں کے دودھ سے لیکر کھانے پینے کی اشیا ہوں یا پھر جمہوریت سے لیکر آمریت، یا لبرل سیکیولر حضرات سے لے کر مذہب و قومیت کا چورن بیچتے افراد۔ ہر کوئی محض نمائش یا اپنی اپنی انا کی تسکین اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بس انتہا پسندی کا زہر گھولے ہی جا رہا ہے۔ لبرل حضرات آزادی اظہار کے نام پر کسی کے بھی فرقے مذہب یا قومیت کی تضحیک کرنے سے باز نہیں آتے اور مذہبی چورن بیچنے والے ایک حبس سے بھرپور اور تعفن زدہ فضا برقرار رکھنے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔
آمریت کے نام پر اپنے اپنے مفادات کا حصول اور جمہوریت کے نام پر بادشاہت کی خواہش روز اول سے اس وطن میں جاری دکھائی دیتی ہے۔ آزادی اظہار کو لے کر ایک ایسا تماشہ لگایا جاتا ہے جہاں کسی بھی شخص نظریے یا عقائد کی ہر ممکن طریقے سے تضحیک کی جاتی ہے دوسری جانب مذہبی نرگسیت پسندی کے سہارے اپنا اپنا کاروبار چمکایا جاتا ہے۔ کبھی اپنی اپنی فرسٹریشن سیاستدانوں یا ریاستی اداروں کی تضحیک کرکے نکالی جاتی ہے اور کبھی انسانی حقوق یا مذہبی حقوق کے تحفظ کا سہارا لے کر وقتی گلیمر شہرت یا مالی فایده حاصل کرنے کیلئے مختلف لبادے اوڑھ لیئے جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بلاگرز اور آزاد خیال سماجی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر موجود کئی پیجز اور انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس کو غیر فعال کر دیا گیا۔ اکثر بلاگرز اور آن لائن ویب سائٹ چلانے والے حضرات یا تو دھر لیئے گئے یا پھر وہ خود زیر زمین چلے گئے۔ جن ویب سائٹس یا پیجز کو پی ٹی اے یا دیگر اداروں کی جانب سے بلاک کیا گیا یقینا ان پیجز اور سائٹس میں قابل اعتراض اور ایسا مواد موجود تھا جو مذہب سے لیکر ریاستی اداروں کی تضحیک کا باعث بنتا تھا۔ اسی طرح جن افراد کو غائب کیا گیا یا ایجنسیوں نے اٹھایا ان میں سے زیادہ تر افراد آزادی اظہار کے نام پر حساس معاملات اور موضوعات پر تضحیک شدہ اور یک طرفہ مواد چھاپتے تھے یا سیمینارز منعقد کرتے تھے۔
ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اگر ان افراد کو سزا دینا ہی مقصود تھا تو انہیں تحویل میں لیئے جانے کے بعد ناقابل ضمانت دفعات لگا کر کسی بھی عدالت میں پیش کر دیا جاتا۔ لیکن خوامخواہ میں اس طریقہ کار کو اپنا کر نہ صرف دنیا بھر میں جگ ہنسائی کروائی گئی بلکہ لبرل انتہا پسندوں کو مظلوم بننے کا ایک موقع بھی فراہم کر دیا گیا۔ اب یہ لاپتہ حضرات تو جانے کب ملیں لیکن انسانی و سماجی حقوق کے نام نہاد عملبرداروں کو امن کی بازیابی کے بہانے نہ صرف چندہ و خیرات اکٹھا کرنے کا موقع مل گیا بلکہ بین الاقوامی ڈونرز سے بھی لمبی چوڑی رقمیں ہتھیانے کا جواز مل گیا۔
ان لاپتہ افراد کو لے کر اب نام نہاد سماجی کارکن اور تنظیمیں فائیو سٹار ہوٹلوں کے گرم ہالوں میں بیٹھ کر سیمینارز منعقد کرکے ان کی گمشدگی کا خوب سوگ منائیں گے۔ پریس کلبوں کے آگے موم بتیاں جلا کر اور چند سیلفیاں لے کر دنیا بھر سے اپنی اپنی این جی او یا پھر اپنی جعلی خدمات کی بھرپور داد تحائف سمیت سمیٹی جائے گی۔ اور پھر کسی اگلے فرد کے لاپتہ ہونے کا انتظار کیا جائے گا تا کہ یہ دھندہ جاری و ساری رہے۔ اسی طرح مذہبی نرگسیت پسند یا حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد جو ابھی ان افراد کے لاپتہ ہونے پر مسرور نظر آتے ہیں بغلیں بجا کر اپنی فتح کا اعلان کریں گے اور یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کریں گے کہ مشرف دور میں خود ان کے مذہبی نرگسیت پسند ساتھیوں یا سیاسی کارکنوں کو کیسے لاپتہ کر دیا جاتا تھا۔
نہ جانے اپنے اپنے نظریات کو سچا ثابت کرنے یا اپنی انا کی تسکین کرتے وقت ہم سارے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ لاپتہ فرد کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، آخر کو ہوتا تو کسی کا بیٹا باپ بھائی ہے۔ دوسری جانب پالیسی سازوں کو اس امر کے ادراک کی ضرورت ہے کہ سائبر سپیس اس وقت پوری دنیا میں نظریاتی جنگیں جیتنے کیلئے سب سے اہم میدان جنگ ہے۔ یہاں پراپیگینڈے کا سہارا لے کر اذہان کو کسی بھی جانب مائل کرنا بے حد آسان ہے اس کا عملی نمونہ امریکہ جیسے مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں بھی پچھلے دنوں میں نظر آیا جب صدارتی انتخابات کے دوران ووٹرز کو جھوٹے پراپیگینڈے کے تابع کرکے نتائج حاصل کیئے گئے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو چائیے کہ بلاگرز یا سماجی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر پراپیگینڈہ اور نظریاتی جنگ کے بارے میں عام شہریوں کو آگاهی دینے کی مہم چلائیں۔ جو پیجز یا ویب سائٹس بلاک ہوں گی وہ پھر سے نئے ناموں سے میدان میں آ جائیں گی تو کیوں نہ ایک موثر انداز میں منظم مہم کے زریعے عوام کو پراپیگینڈہ اور سچ میں تمیز کرنا سکھایا جائے۔ کیوں نہ عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کیئے جائیں لائبریریاں اور سپورٹس کے گراونڈ زیادہ سے زیادہ تعداد میں بنائے جائیں تا کہ سوشل میڈیا پر اپنی فرسٹریشن نکالنے کے بجائے نوجوان صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔
کیوں نہ مین سٹریم میڈیا میں ایسے تمام موضوعات پر ایک صحت مندانہ مکالمے کا آغاز کیا جائے جو ہر حساس موضوع کا احاطہ کر سکے۔ آج کے دور میں پابندی لگانا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا ہے اس لیئے سوال اٹھانے کی نہ صرف مکمل آزادی ہونے چائیے بلکہ ان کے جوابات اور ان پر مباحث کیلئے آزادانہ ماحول اور تعمیری پلیٹ فارم بھی مہیا کرنا چائیے۔
قومیں اور معاشرے سوال اٹھانے والوں اور روایات کو چیلنج کرنے والوں کے دم پر ترقی کرتے ہیں نا کہ لکیر کے فقیر افراد کے دم پر۔ ان تخلیقی اذہان کو تعمیری پلیٹ فارم دیکر انہیں سوشل میڈیا یا مصنوعی لبرل چورن فروشوں کے چنگل میں پھنس کر نہ صرف تضحیک آمیز الفاظ تحریر کرنے یا بولنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مذہبی اور قومییت یا جنگی جنون کے خبط میں مبتلا انتہا پسندوں کو بھی یہ سمجھانا ضروری ہے کہ بندوق کے دم پر نہ تو نظریات کسی پر زبردستی تھونپے جا سکتے ہیں اور نہ ہی نظریات کو دبایا جا سکتا ہے۔
لاپتہ افراد چاہے وہ لبرل چورن فروش ہیں یا پھر مذہبی چورن فروش، ان سب کو عدالتوں میں پیش کرکے قانون کے تحت مقدمات چلانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ نہ صرف ان کا جرم یا بیگناہی کھل کر سامنے آئے بلکہ انصاف ہوتا بھی نظر آئے۔ بصورت دیگر نواز شریف اور مشرف میں کوئی خاص فرق باقی نہیں بچے گا کہ دونوں کےادوار میں کبھی مذہبی شدت پسند اور کبھی لبرل شدت پسند لاپتہ ہوتے ہی رہے ہیں۔ رویوں کی انتہا پسندی کو ختم کرنے کیلئے ریاست کو ماں کے جیسا کردار ادا کرنا ہوتا ہے نا کہ تھانیدار جیسا۔