غیرت کے نام پر قتل، غیرت کے نام پر نفرت، غیرت کے نام پر درندگی و بربریت یہ شاید ہمارا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ یا شاید ہم اپنے وجود سے اپنے بے غیرت ہونے کے احساس جرم کو اس لفظ غیرت اور پھر اس کے نام پر مظلوموں اور کمزوروں کا استحصال کرکے نکال باہر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لفظ غیرت کا تازہ ترین شکار ایک بچی حنا شاہنواز ہوئی جس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان والوں کیلئے باعزت روزگار کمانے گھر سے نکلی اور پھر ان کی کفالت کیلئے جائداد میں سے اپنا قانونی حق بھی مانگ بیٹھی۔
بھائی اور باپ کی وفات اور بہن کے بیوہ ہونے کے بعد حنا نے ان کے بچوں کی کفالت کیلئے نوکری کرنے کا سنگین جرم کیا۔ بجائے کسی کی رکھیل بننے یا کسی کوٹھے پر بیٹھنے کے حنا شاہنواز نے اپنی قابلیت کے دم پر ایک این جی او میں اچھی نوکری ڈھونڈ کر اپنے خاندان کی کفالت کرنے کا جو گناہ سرزد کیا اس کی سزا اس کے ایک کزن نے اس کو قتل کرکے دے دی۔ آخر کو اس بچی کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے سسک سسک کر خود مرنے اور بھائی بہن کے بچوں کو بھوک سے مرتا دیکھنے کے بجائے نوکری کرنے نکل پڑی۔
اس غیرت مند معاشرے میں حنا شاہنواز جیسی بچیوں کیلئے نہ تو پہلے کوئی گنجائش تھی اور نہ ہی آج ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں نوکری کرنے یا خود روزگار کمانے والی بچیوں کو آوارہ بدچلن اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والی ریسپیشنسٹ سے لیکر مارکیٹنگ کرنے والی بچیوں کو نگاہوں، رویوں، باتوں اور حرکتوں سے روزانہ نہ جانے کتنی بار قتل کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ پے کہ ہم اس قدر غیرت مند ہیں کہ ہمیں یہ قبول ہی نہیں کہ خواتین چولہا اور بستر گرم کرنے کے علاوہ کچھ بھی اور کرنے کا سوچیں۔
آخر کو خواتین کو محض ہماری جنسی تسکین کیلئے ہی تو آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اور ہمارا یہ پیدائشی حق ہے کہ ہم زندگی میں عورت کے حوالے سے جنسی تسکین، مباشرت یا بچے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی نہ سوچیں۔ حنا شاہنواز کا جرم ایک تو نوکری کرنا تھا اور اوپر سے کفاروں کے فنڈ پر چلنے والی این جی او سے اسے تنخواہ ملتی تھی۔ ایک تو بے حیا اور اوپر سے کفاروں کی وظیفہ خور۔ ایسی بچی کا ہمارے جیسے غیرت مند معاشرے میں بھلا کیا کام۔ این جی اوز تو ہوتی ہی بیرونی طاقتوں کی آلہ کار ہیں۔
ہم ڈالرز پاؤنڈز کی بھیک تو لے سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت ان کفاروں کو اپنی بچیوں کی یا بچوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے ایک روپیہ تک خرچنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم اتنے غیرت مند ہیں کہ بسوں پر کام کرنے والی ہوسٹس ہوں یا کالجوں سکولوں میں تعلیم کی غرض سے جاتی بچیاں جب تک ان کے جسم کے ایک ایک حصے کا ایکسرے کرکے آپس میں ان پر بحث نہ کر لیں ہماری مردانگی کو تسکین نہیں ملنے پاتی۔ بچیوں کو جائدادوں میں حصہ نہ دے کر ہماری مونچھوں اونچی ہو جاتی ہیں۔ گدھ کی طرح بچیوں کے جسم کو کبھی ونی کبھی سوارا کبھی وٹے سٹے جیسی رسموں کے بعد جب تک ہم نوچ نوچ کر کھائیں نہ، تو ہمیں سکون نہیں ملتا۔
گو ہم عورت کو صرف اپنا بستر گرم کرتے اور بے لباس یعنی عریاں حالت میں ہی دیکھنا اول و آخر مقصد حیات جانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عورت کو ہمہ وقت پردے اور حجاب کی تلقین کرتے ہیں۔ آخر کو ہمارے جیسے اور بھی کڑوڑوں مرد معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اس لیئے اپنی عورتوں کو ان خونخوار بھیڑیوں سے بچانے کیلئے پردہ اور حجاب کروانا بے حد لازم ہے اور اس کیلئے مذہب اور روایات کے سہارے سے بڑھ کر مضبوط سہارا اور کیا ہو سکتا ہے۔
گو حقیقت میں جب ہمیں خود کسی بھی قسم کی اخلاقیات یا مذہب کسی عورت کو مارنے اس کا حق کھانے یااسے باندی سمجھ کر جنسی تسکین کے سامان کے علاوہ کچھ اور بھی نہ سمجنھے سے نہیں روک سکتے تو بھلا اپنے ہی جیسے اس معاشرے میں بستے دوسرے غیرت مند مردوں کو کیسے روکیں گے۔ خیر ہم غیرت مند لوگ ہیں اس لیئے سوچنے جیسا گناہ کبیرہ تو ہم سرزد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم بچیوں پر تیزاب پھینکیں۔ انہیں جبری زیادتی کا نشانہ بنائیں انہیں غیرت کے نام پر کبھی آوارہ کبھی بدچلن قرار دے کر قتل کریں ان کا میریٹل ریپ کریں یا ان سے جبری مشقت کروائیں۔
یہ سب کرنے سے نہ صرف ہم پوری دنیا میں اپنے آپ کو مرد ثابت کرتے ہیں بلکہ دنیا کو یہ عملی پیغام بھی دیتے ہیں کہ آو اور ہم سے غیرت مندی کا سبق سیکھو۔ آو اور دیکھو یہ ہوتی ہیں ایک اعلی اقدار کے حامل غیرت مند معاشرے کی خصوصیات۔ دنیا پوری بے غیرت ہے جو خواتین کو بھی برابر سمجھ کر انہیں سوچنے سمجھنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع مہیا کرتی ہے۔ اور اس بے غیرت دنیا کی تولید میں اگر کوئی بچی حنا شاہنواز کی طرح خود کو انسان سمجھنے کی غلطی کرتے ہوئے زندگی میں اپنے وجود کو تسلیم کروا کر کامیابیاں سمیٹے گی تو اس کا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔
حنا شاہنواز جیسی بچیوں کا یہ انجام حقیقتا میرے اور آپکے عہد کا وہ کرب ناک اور گہرا زخم ہے جس کے درد اور تکلیف کی شدت جسم کی پور پور سے ہوتی ہوئی روح کے پاتال میں ہر آن اترتی ہے۔ اس بچی نے اپنے ارمان اپنے خواب مار کر دوسروں کیلئے زندگی بسر کی۔ اسے تو شاید ہماری بچیوں کیلیے ایک مثال ہونا چائیے تھا۔ وہ طوبی جو شاید چھ برس کی تھی اس کو تو ابھی بچپن گزارنا تھا باغوں میں تتلیاں پکڑنی تھیں۔
رنگوں سے کھیلنا تھا لیکن اسے جنسی زیادتی کا شکار بنا کر مار کر گٹر میں پھینک دیا گیا۔ طیبہ جسے اپنی ہمجولیوِں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنی تھیں ان کے ساتھ سکول جانا رھا اس کا بچپن چھین کر اسے ایک جج کے گھر میں نوکرانی بنا کر جبری مشقت پر لگا دیا گیا۔ کیا عجیب تماشہ اور ستم ہے لکھ لکھ کر ہاتھ تھک گئے بول بول کر چیخ چیخ کر حلق خشق ہوگیا۔ لیکن اس بے غیرت معاشرے پر مجال ہے کہ زرا سا بھی اثر ہوا ہو۔ الٹا آئینہ دکھانے والوں کو ہی کبھی کافر کبھی غدار اور کبھی کفاروں کا ایجنٹ قرار دے کر یہ بے غیرت معاشرہ مذہب اور روایات کے نام پر اپنی بچیوں کا استحصال جاری رکھتا ہے۔
حنا شاہنواز، طوبی، عنبرین، یا ان جیسی ہزارہا مرنے والی اور طیبہ جیسی کڑوڑوں جیتے جی مرنے والی بچیوں سے معذرت کہ ہم کیا کریں ہم اصل میں بے غیرت ہیں۔ ہم زمانہ جاہلیت اور پتھر کے دور کی بچ جانے والی آخری نشانی کے طور پر زندہ بچ جانے والا وہ معاشرہ ہیں جو اپنی ہی بچیوں کو زندہ گاڑ کر شکست خوردہ اناووں کی تسکین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔