1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. کافر جوبائیڈن کیلیے ایک پیغام

کافر جوبائیڈن کیلیے ایک پیغام

جو بائیڈن امریکہ کا نائب صدر رہا۔ دنیا کے اس سب سے مضبوط اور مستحکم ملک کے نائب صدر نے عہدہ چھوڑنے سے پہلے ایک تقریب میں انکشاف کیا کہ سال 2014 میں اس کا بیٹا کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے بیٹے کے علاج کیلئے قرض لینے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا بنکوں اور قرض دینے والے اداروں کی شرائط انتہائی کڑی ہیں اور نائب صدر کی تنخواہ اس قدر بھاری نہیں کہ وہ قرض کی اقساط باآسانی ادا کر سکے۔ جو بائیڈن نے بیٹے کے علاج کی خاطر اپنا واحد اثاثہ یعنی اپنا گھر بیچنے کا ارادہ کیا۔

اتنے میں امریکی صدر باراک اوبامہ کو جو بائیڈن کے حالات کا علم ہوگیا اور اس نے جو بائیڈن کی مدد اپنے ذاتی بنک اکاؤنٹ کے ذریعے کر دی۔ جو بائیڈن کے بیٹے کا علاج شروع ہوا لیکن اس کا بیٹا صحتیاب نہ ہو سکا۔ اور 2015 میں اس مرض کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھا۔ جو بائیڈن امریکہ کا نائب صدر تھا نہ تو اس کے بیٹے کے علاج اور بیماری کو لیکر امریکی میڈیا میں کوئی ہلچل ہوئی نہ ہی جو بائیڈن نے بیٹے کے علاج کیلئے اپنے سیاسی اثرو رسوخ یا سرکاری وسائل کو استعمال کیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے بیٹے کی وفات پر نہ تو سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی تعطیلات کا اعلان کیا گیا۔

جو بائیڈن کی یہ کہانی دراصل امریکہ کی ترقی کا راز اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک کی پسماندگی کا ثبوت ہے۔ امریکی نائب صدر ہوتے ہوئے بھی اگر اس کو بیٹے کے علاج کیلئے مکان فروخت کرنے کی نوبت آ گئی تو یہ اس معاشرے میں انصاف اور اعلی معاشرتی اقدار کا ایک عملی نمونہ ہے۔ اب آتے پیں امریکہ کو افغانستان سے لیکر بغداد تک میں شکست فاش دینے والوں کا دعوی کرنے والوں کی جانب۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کابل سے لیکر بغداد اور شام سے لیکر وزیرستان کو جنگ کا میدان بنا کر ان علاقوں کو واپس پتھر کے دور میں خوشی خوشی روانہ کرتے ہیں اور نائب صدر تو دور کی بات اپنے اپنے علاقے کی جماعت کے علاقائی امیر یارہنماؤں کو خوشی خوشی سرکاری وسائل سے علاج معالجہ اور دیگر سہولیات سے لطف اندوز ہوتے دیکھتے ہیں۔ لیکن اف تک نہیں کرتے۔

افغانستان میں بیٹھا اشرف غنی ہو یا شام میں بیٹھا بشارالاسد ڈالروں کی بھیک پر پلتے ہوئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کوئی نہیں چھوڑتا۔ وطن عزیز کی ہی مثال لے لیجئے یہاں سیاستدان کو ہچکی بھی آئے تو پورے کا پورا ہسپتال بلکہ محکمہ صحت پریشان ہو جاتا ہے۔ صدر یا وزیر اعظم کیلئے ائیر ایمبولینس یا دیگر سیاستدانوں کیلئے ہیلی کاپٹرز سے لیکر ہسپتالوں کے وی آئی پی کمروں کا بل اور پھر ادوایات اور علاج معالجے کا خرچہ سرکاری خزانے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان افراد کے خونی رشتہ دار تو دور کی بات ان کے ذاتی ملازمین کا علاج بھی مفت اور سرکاری وسائل کے دم پر ہی ہوتا ہے۔

جو بائیڈن بھی عجیب بے وقوف آدمی نکلا ایک کافر ملک کا نائب صدر ہوتے ہوئے بھی نہ تو اتنا مال پانی بنا پایا کہ بیٹے کا مہنگے سے مہنگا علاج کرواتا اور نہ ہی اپنے ملک میں اتنا اثر بنا پایا کہ کسی سرکاری ہسپتال سے بیٹے کا علاج سرکاری وسائل کے سہارے ہی کروا لیتا۔ جس کافر ملک کا نائب صدر اتنا کمزور اور بے بس ہو وہ ملک بھلا ہم مسلمانوں کو کیا شکست دینے پائے گا۔ جو بائیڈن کو چائیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم دنیا کے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرے اور سیکھے کہ کس طرح ہم مسلمان اعلی ترین اقدار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے وسائل کو لوٹ کر راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں۔ بلکہ جو بائیڈن کو پاکستان آ کر خود دیکھنا چائیے کہ سیاست میں یا اقتدار میں آ کر پیسہ کس طرح بنایا جاتا ہے اور طاقت کیسے بنائی جاتی ہے۔

جو بائیڈن سے تگڑا اور امیر تو ہمارے یہاں محلے کا کونسلر ہوتا ہے جو پانی کے کنکشن سے لیکر ڈسپنسریوں اور تھانے کچہری سے لیکر سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا بے تاج بادشاہ ہوتا پے۔ بیٹا تو دور کی بات اس کونسلر کی برادری یا زات کا بھی کوئی فرد سرکاری وسائل کے بے دیغ استعمال سے کبھی بھی نہیں ہچکچاتا۔ ہمارے حکمرانوں کو دیکھ کر تو جو بائیڈن کا سر شرم سے جھک جانا چائیے جو رائے ونڈ، بنی گالہ، اور نوڈیرو کے محلات میں بستے ہیں۔ منرل واٹر پیتے ہیں۔

انگلستان دبئی اور امریکہ میں جائدادیں رکھتے ہیں۔ اور علاج معالجہ سے لیکر شاہانہ پروٹوکول کا سارا خرچہ سرکاری وسائل سے استعمال کرتے ہیں۔ جو بائیڈن کو پاکستانی بنکوں کا بھی دورہ کرنا چاھیے تا کہ اسے معلوم ہو سکے کہ بنک تو ہوتے ہی سیاستدانوں کو قرضے دینے اور معاف کروانے کیلئے ہیں۔

اس ضمن میں جو بائیڈن کو بالخصوص سابقہ مہران بنک یا پنجاب بنک اور دیگر سرکاری و نجی بنکوں کے عہدیداروں سے ملنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ اسے بھی یہ گر معلوم ہو سکے کہ کیسے سیاستدانوں کے ڈرائیوروں اور باورچیوں کے نام پر بھی اربوں روپے کے قرضے کا اجرا ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں جو بائیڈن کو جہانگیر ترین، علیم خان، عمران خان، نواز شریف، اور آصف زرداری سے بھی مل کر اس ضمن میں سبق لینے کی ضرورت ہے کہ کیونکر سیاست میں آتے ساتھ ہی ان افراد کی طرز زندگیاں بادشاہوں جیسی ہو جاتی ہیں۔

اگر یہ سب بھی جو بائیڈن کو شرمندہ نہ کر پائیں تو اس کافر شخص سے قدرت خود ہی انتقام لے گی۔ ایک تو کافر اور اوپر سے اتنا بے وقوف کہ نائب صدر ہوتے ہوئے بھی صرف ایک عدد چھوٹے سے گھر کا مالک بھلا ہمارا اور اس کافر کا کیا مقابلہ۔ جس ملک کے کونسلر سے لیکر کلرک اور جہادی تنظیموں سے لیکر دعوت دین دینے والے افراد لینڈ کروزروں اور ڈبل کیبن جیپوں میں گھومتے ہوں اس وطن کو بھلا جو بائیڈن جیسے غریب اور بے وقوف آدمی کا ملک کیا شکست دینے پائے گا۔

جو بائیڈن کو چائیے کہ ہمارے معاشرے سے اعلی ترین اقدار کا عملی نمونہ سیکھے اور پھر ان اعلی ترین اقداروں کو اپنے کافر معاشرے کے ایک ایک فرد تک پہنچائے تا کہ انہیں احساس ہو سکے کہ ہم مسلمان اور پاکستانی کس قدر مثالی اور عملی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے جیسے مثالی معاشرے کے خلاف اگر امریکہ سازش کرنے کے بجائے اپنے معاشرے کی زبوں حالی پر توجہ دیتا تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ اس کے نائب صدر کو بیٹے کے علاج کیلئے در در دھکے کھانے پڑے۔ اس لیئے جو بائیڈن اور اس کے ملک کو ہمارا یہ پیغام ہے کہ پہلے سرکاری خزانہ لوٹنا سیکھو، ریاست کے وسائل اپنے اور اپنے خاندان یا پارٹی وکرز پر لگانا سیکھو۔

ہسپتالوں سکولوں سے لیکر دفاتر تک میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کرو، اپنے بچوں کو بندوقوں سے محبت اور کتابوں سے نفرت سکھاؤ۔ معاشرے میں بسنے والے افراد کو ایک دوسرے کو چونا لگانے کے گر سکھاؤ۔ اس کے بعد ہمارے جیسے مثالی معاشرے اور ملک سے پنگا لینے کا سوچنا۔ بڑا آیا نائب صدر کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ کافر جو بائیڈن تہذیبوں کے ٹکراؤ کی یہ جنگ ہم اخلاقی طور پر اسی دن جیت گئے تھے جب تم نے اپنے بچے کے علاج کیلیے گھر بیچنے کا ارادہ کیا تھا۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔