وطن عزیز کی بنیادی اساس سے متعلق دو سوالات آج تک حل طلب ہیں۔ اول پاکستان کیا فلاحی ریاست کے طور پر قائم ہوا تھا یا دفاعی ریاست کے طور پر؟ دوئم کیا پاکستان کی بنیاد مذہب پرستی پر تھی یا آزاد اور معتدل مزاج ملک جہاں ریاست کو کسی بھی شہری کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ دونوں سوالات اور ان کے جوابات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان نوازّشریف نے ہولی کے تہوار پر جو بیان دیا وہ کم سے کم دوسرے سوال کا جواب اور ریاست کے بدلتے ہوئے بیانیے کی جانب تھا۔ نواز شریف نے ہندو برادری کے ساتھ ہولی کا تہوار مناتے ہوئے جو بیان دیا کہ ریاست مذہب کی بنیاد پر کسی شہری سے مساوی برتاو نہیں رکھے گی اس کی روشنی میں ظاہر کچھ یوں ہوتا ہے کہ بیانیہ اب رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہا ہے۔ گو ابھی اس بیانیے کو تبدیل ہونے میں مدتیں لگ جائیں گی لیکن بہر حال اس کی جانب پہلا قدم ایک اچھی پیش رفت ہے۔
شاید نفرتوں کا جو زہر مذہبی منافرتوں اور شدت پسند بیانیے سے پھیلا ہے اس کا تریاق اس کے ذریعے ممکن ہو سکے۔ سوال لیکن یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی میں یہ بیانیہ تبدیل کیا جانا ہے تو پھر پنجاب میں تدریسی اداروں میں حجاب کو ضروری کیوں قرار دیا گیا؟ کیا یہ اقدام سیاسی طور پر رائٹ ونگ کے ووٹ بنک کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اٹھایا گیا؟ یا پھر جو نواز شریف صاحب نے کہا وہ صرف ایک ایسا بیان تھا جو کہ عالمی سطح پر ان کی سیاسی ساکھ کو اجاگر کرنے کیلئے تھا۔ کیونکہ اگر تو ریاست کا واضح مقصد بیانیہ تبدیل کرنا ہے تو پھر ریاست کسی بھی صورت کسی بھی شہری کو کسی بھی مخصوص عقیدے یا روایت کے تابع نہیں کر سکتی۔ اسی طرح جو سوال اہم ترین ہے وہ یہ ہے کہ کیا دفاعی بیانیے کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔ کیونکہ جس دفاعی بیانیے کے تحت ریاست کام سرانجام دے رہی ہے اس کیلئے افرادی قوت انہی مذہبی شدت پسند جماعتوں اور گروہوں سے حاصل ہوتی ہے جو کہ معاشرے میں مذہب جہاد اور فرقہ واریت کے نام پر شدت پسندی پھیلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
جنگ و جدل کے زور پر دشمن پر غلبہ پانے کا بیانیہ شدت پسندی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اور بھی کئی ناسور پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شدت پسند جماعت محض جہاد تک محدود نہیں رہتی بلکہ معاشرے پر بھی اپنی سوچ تھوپنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سیاسی پلیٹ فارم کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور فرقہ یا مذہب کو بنیاد بنا کر انسانوں کو نفرتوں کے کاروبار کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے بطور معاشرہ نفرتوں کے کاروبار کے علاوہ آج تک کچھ اور کام نہیں کیا۔
یہ نفرت اور شدت پسندی اب ہماری طبیعت میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ہمیں اپنے سوا ہر دوسرا شخص یا معاشرہ حقیر اور کمتر نظر آتا ہے۔ خیر آنے والے دنوں میں ان بیانیوں کو تبدیل ہونا ہی ہے کہ دنیا اب بالکل مختلف بیانیوں کے دم پر چلتی ہے۔ اگر سعودی عرب جیسے ملک کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے تو پھر بات عام فہم سی ہے کہ تہذیبوں اور بیانیوں کی اس جنگ نے دنیا کی سوچ کو یکدم پلٹ دیا ہے۔۔ اور ایک نیا عالمی بیانیہ تشکیل دے دیا ہے۔ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی ریاست کو اب اس خود ساختہ بیانیے سے جان چھڑوانا ضروری ہے جو مختلف ادوار میں نظریہ ضرورت کے تحت تشکیل دیئے گئے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ریاست پاکستان بیانیوں کو تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے یا پھر حقیقت سے فرار چاہتے ہوئے صرف لفاظی سے کام چلایا جا رہا ہے۔
عملی میدان میں اس کی جھلک تب ہی نظر آ سکتی ہے جب شدت پسندی کی ہر قسم کی مکمل روک تھام کی جائے۔ عقائد اور مذاہب کو افراد کا اور َخدا کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے اور ریاست اپنے ہی شہریوں کو کافر یا توہین کا مجرم ٹھہرانے کے بجائے ان کی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ ریاست کا کام نہ تو عقائد کو پرکھنا ہوتا ہے اور نہ ہی ریاست کسی بھی شہری کے زاتی عقائد میں مداخلت کا حق رکھتی ہے۔ آفاقی معاملات کو آفاقی ہی رہنے دیا جائے تو معاملات درست رہتے ہیں البتہ جو مسائل زمینی ہیں ان کے حل اور تدارک کیلئے ریاست کو اپنی پوری کوشش کرنی چائیے۔ عقائد کی اندھی تقلید کرنے والے بند دماغوں کو پیدا کرکے اور ان کی سرپرستی کرکے ہم نے نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ ہر شخص ہر دوسرے فرقہ کو کافر یا توہین مذہب کا مرتکب سمجھتے ہوئے شدت پسندی کے درخت کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔
دوسری جانب ان مذہبی اور دفاعی بیانیوں کی مہربانی سے یہی کروڑہا افراد دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے تمام تر مسائل کی جڑ اقوام عالم کو قرار دیکر اپنی کوتاہیوں اور نالائقی سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم واقعی میں بیانیہ تبدیل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنی جماعت کی پنجاب حکومت میں سے شدت پسندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے چہروں کو باہر نکالنا ہوگا۔
عسکری قیادت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ان کے نظریات کو کس طریقے سے ختم کیا جائے۔ وہ کروڑہا افراد جو ریاست کے گزشتہ ناکام بیانیوں پر من و عن ایمان لا چکے ہیں ان کی سوچ کو کس طریقے سے درست کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اس وقت کروڑہا افراد ایسے ہیں جو ان بیانیوں کے تابع اور زیر اثر ہو کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ہر وہ اقدام جو ان کے اذہان پر تھوپے گئے نظریات اور عقائد سے مختلف ہو ان کیلئے ناقابل قبول بھی ہوتا ہے اور ناقبل فہم بھی۔
اس صورتحال میں کسی مربوط اور ٹھوس پالیسی کی عدم موجودگی میں ان بیانیوں کو تبدیل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کا سب سے آسان کام پراپیگینڈے سے کمزور دماغوں کو اپنے تابع کرنا ہوتا ہے اور دنیا کا سب سے مشکل کام ان اذہان کو سوچ کی تعمیری صلاحیت بخشنا ہوتا ہے۔ اور یہ اذہان محض بیانات کے دم پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے مالا مال نہیں کیئے جا سکتے۔
البتہ ہمارے بچے جن کی سوچ کی آبیاری ابھی ہونی ہے اگر ان کو ابتدا ہی سے اکیسویں صدی کے نئے عالمی بیانیے کے تحت پروان چڑھایا جائے تو بہت حد تک وطن عزیز میں آنے والے کل کی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اس کیلئے عملی طور پر کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں یا اٹھائیں جائیں گے ان کو دیکھ کر ہی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا کہ نواز شریف بیانیہ تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں اور کیا ریاست کا دوسرا اہم ترین ستون ان بیانیوں کی تبدیلی میں ان کے ساتھ ہے یا رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ آنے والے چند ماہ میں ہو جائے گا۔