گزشتہ ایک دہائی نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست کی ہیئت کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور ٹیکنالوجی و سائنس کی مرہون منت ایک نئی تہزیب نے سیاست اور سیاستدانوں کو اپنا روایتی انداز بدلتے ہوئے عام ورکر اور انسانوں کی توقعات کے مطابق سیاست کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیاست چاہے امریکہ میں ہو برطانیہ میں یا برصفیر میں محض بڑے نام کھڑا کرنے سے اب کامیابی کی قطعا گارنٹی نہیں ہوتی۔ امریکہ میں ہیلری کلنٹن کی انتخابات میں مات اس ضمن میں ایک تازہ مثال ہے۔ پاکستان میں بھی بتدریج عوام کی سیاسی عمل میں شرکت اور سوشل میڈیا سے لیکر ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام نے روایتی سیاستدانوں اور سیاست کے انداز کو بتدریج بدل ڈالا ہے۔ وہ سیاست دان یا سیاسی جماعتیں حو اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں آہستہ آہستہ ملکی انتخابی سیاست کے دائرہ سے خارج ہوتی چلی گئیں۔ جماعت اسلامی کی مثال اس ضمن میں نمایاں ہے جسکا ووٹ بینک بتدریج سکڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی وفاق کی جماعت کہلایا کرتی تھی اور ملک کے ہر شہر سے انتخابی سیاست میں ایک بااثر اور طاقتور ووٹ بنک رکھتی تھی اب سمٹ اور سکڑ کر صرف اندرون سندھ اور لیاری کی جماعت کے طور پر باقی رہ گئی ہے۔ وطن عزیز میں عام افراد کی سیاست میں دلچسپی اور انتخابی عمل میں شرکت کا سہرا جہاں تیزی سے بدلتے ہوئے مختلف مقامی اور بین الاقوامی عوامل کے سر ہے وہیں عمران خان نے بھی اس ضمن میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سن 2011 سے لیکر آج کے دن تک عمران خان نوجوانوں اور اپر مڈل کلاس کے افراد کو سیاست میں متحرک رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان اپنے بیانیے کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے دم پر تقویت دے کر پرانی سیاسی جماعتوں میں شگاف ڈال رہے تھے اس وقت مسلم لیگ نون جیسی قدامت پسند جماعت کو اہنا تشخص برقرار رکھنے کیلئے ایک نئی سوچ اور ویژن کی ضرورت تھی۔ اور مسلم لیگ نون کیلئے یہ کام مریم نواز نے انجام دیا۔ نہ صرف انہوں نے عمران خان اور ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کا تدارک کیا بلکہ مسلم لیگ نون کا ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا۔ مریم نواز نے مسلم لیگ نون کے پرانے لیڈروں یا حمزہ شہباز اور شہباز شریف کی روایتی سوچ اور فلسفے کے برعکس نہ صرف ایک اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیہ تشکیل دیا بلکہ قدامت پسندنظریات سے بھی اپنی جماعت کو چھٹکارا دلواتے ہوئے اسے ایک قدرے لبرل جماعت میں تبدیل کر دیا۔ اپنے والد کو انہوں نے اس بات پر آمادہ کیا کہ سمجھوتے کی سیاست کی اب وطن عزیز میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون میں موجود وہ افراد جو روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کے آگے سرنڈر کرنے کو ترجیح دیتے ییں اس وجہ سے شدید مخمصے کا شکار ہیں۔ روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کو قابل قبول جماعت مسلم لیگ نون آج کیا واقعی محض مریم نواز کی وجہ سے ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے ناقابل قبول بن چکی ہے? اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں چند سال پہلے کے حالات و وْاقعات کا بغور مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے مشرف کے مارشل لا کے بعد اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیے کی بنیاد تو رکھی تھی لیکن بی بی کے قتل کے بعد اور مشرف کو عہدہ صدارت سے باہر نکالنے کے بعد وہ کافی حد تک دوبارہ ایسٹیبلیشمنٹ کے قریب آ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میمو گیٹ کے واقعے اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلے کے وقت وہ ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑےنظر آئے۔
لیکن 2013 کے عام انتخابات سے قبل جب انہوں نے ایسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی پشت پناہی کرتے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ اب پیپلز پارٹی کے بعد ان کی باری ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم نواز نے سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالا اور عمران خان کے بیانیئے کے جواب میں ایک بیانیہ تشکیل دیا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد جب نواز شریف کی حکومت کو مفلوج کرتے ہوئے دھرنوں کے ذریعے مشرف کے فرار کے بعد خارجہ و اندرونی سیکیورٹی پالیسی کو ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنے قبضے میں لیا اس دوران مریم نواز نے سوشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے زریعے عمران خان اور ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کو بری طرح ایکسپوز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم نواز ایسٹیبلیشمنٹ کو کانٹے کی طرح کھٹکھنا شروع ہوئی۔ مریم نواز نے اپنے والد کو جہاں ایسٹیبلیشمنٹ سے مزید سمجھوتے نہ کرنے کا مشورہ دیا وہیں انہوں نے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو پارٹی سے وابستگی کیلئے راغب کیا۔ مسلم لیگ نون ہمیشہ سے بابوں اور تاجر پیشہ حضرات کی جماعت رہی ہے۔ غالبا مریم نواز کی صلاحیتوں کی وجہ سے اب یہ جماعت نوجوانوں میں بھی بیحد مقبول ہوگئی ہے۔ مریم نواز کا کارکنوں بالخصوص نوجوان کارکنوں سے رابطے نے انیں پڑھی لکھی اربن کلاس میں بھی کافی حد تک مقبولیت دلوائی۔ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد دیوار سے لگی ہوئی مسلم لیگ نون کو بھی مریم نواز نے اپنے جارحانہ انداز سے نہ صرف میدان سیاست میں واپسی دلوائی بلکہ پانامہ مخالف ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دیکر اپنے ووٹرز کو سیاسی حزیمت سے بھی بچایا۔ این اے 120 میں مسلم لیگ نون کی دھڑا بندی حمزہ شہباز کی ناراضگی اور عدم موجودگی کے باوجود انہوں نے ککثوم نواز کی انتخابی مہم کامیابی سے چلائی اور فتح حاصل کی۔ مریم نوز نے این اے 120 کا انتخاب جیتنے کے بعد جو دھواں دھار تقریر کی اس کے بعد سے اب تک ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ یاد رہے نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے سفر کروانے میں آمادہ کروانے میں بھی مریم کا کلیدی کردار تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ مریم نواز کا فیصلہ درست تھا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کی جانشین قدرتی طور پر مریم نواز بن چکی ہیں۔ ان کے مقابل حمزہ شہباز گو انتخابی سیاست کی جوڑ توڑ کے ماہر تصور کئیے جاتے ہیں لیکن ان کا انداز سیاست موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ حمزہ شہباز شاید قدامت پسند اور کم پڑھے لکھے ووٹ بینک کو تو متاثر کر سکتے ہیں لیکن پڑھے لکھے ووٹ بنک یا نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی صلاحیتوں کا ان میں فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی مثال کچھ ایسے ہی ہے جیسے شہباز شریف اپنی تمام تر اچھی کاوشوں اور محنت کے باوجود بھی آج تک ایک لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ یعنی شہباز شریف دہائیایں گزر جانے کے باوجود بھی اس پوزیشن پر نہیں آ سکے جہاں کارکن یا ووٹر انہیں بلا چون چرا نواز شریف کا جانشین سمجھ لیں۔ اس کے برعکس مریم نواز چند برسوں ہی میں ووٹرز، کارکن حتی کہ مخالفین تک کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکی ہیں کہ نواز شریف کی جانشین وہ ہیں۔ اب اس وقت لاہور اور دیہی پنجاب سے مریم نواز کی شدید مخالفت جماعت کے اندر موجود ہے لیکن ایسا کوئی فارمولا کسی کے پاس بھی نہیں ہے کہ جس کو لاگو کرکے مریم نواز کو روکاجا سکے۔ لندن ملاقات کے بعد جس طریوے سے یہ تاثر دیا گیا کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف وزارت عظمی کے امیدوار ہیں اور اگلے انتخابات میں وہ پارٹی کو لیڈ کریں گے دراصل اس تاثر میں کوئی حقیقت موجود نہیں تھی۔ نہ تو نواز شریف نے ابھی تک ہار مانی ہے اور نہ ہی ان کے الیکشن کیمپین کو لیڈ کئیے بنا مسلم لیگ نون اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ اور نواز شریف اس وقت قطعا روایتی سیاست کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ اس وقت تک مریم نواز کو جو فری ہینڈ ملا ہوا ہے وہ بھی نواز شریف کی وجہ سے ہے جس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ نواز شریف اپنے سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز کو منتخب کر چکے ہیں۔ مریم نواز اس وقت بھی ڈی فیکٹو طریقے سے پارٹی کو لیڈ کر رہی ہیں۔ ان کی سیاست کا مزاج وقتی طور پر روایتی مسلم لیگ کے طاقت کے حصول کیلئے ایسٹیبلیشمنٹ کے تلوے چاٹنے والا نہیں ہے۔ مریم نواز کی پارٹی امور پر گرفت کا شاید وقتی طور پر تو مسلم لیگ نون کو نقصان ہوگا لیکن آگے چل کر یہی انداز سیاست ان کی جماعت کی سیاسی فتح کا باعث بنے گا۔ وقتی طور پر شاید مریم اور ان کے والد کی ایسٹیبلیشمنٹ مخالف پالیسی کی وجہ سے بہت سے ایسے پارٹی ممبران اڑان بھر جائیں گے جن کی سیاست کا مقصد صرف طاقت کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن آنے والے وقتوں میں مسلم لیگ نون ایک نظریاتی اور اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ جماعت بن کر ابھرے گی۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز شاید پرسنی تنخواہ پر ہی کام کرنے کو ترجیح دیں گے لیکن مریم نواز شاید اس پر راضی نہ ہوں۔ بینظیر بھٹو کے انداز سیاست سے اختلاف کرنے والے ان کے چچا ممتاز بھٹو کا سیاسی انجام سب کے سامنے ہے۔ مریم نواز کی سیاست کا انداز بھی بینظیر کی مانند ہے اور ان کے والد بھی ذوالفقار بھٹو کی مانند اس وقت ایسٹیبلیشمنٹ کے شکنجے میں ہیں۔ کیا مریم نواز مستقبل کی بینظیر ثابت ہوں گی اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ البتہ عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ان کے انداز سیاست نے انہیں مسلم لیگ نون میں نواز شریف کا جانشین بنا دیا ہے اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اب حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔