بالآخر وطن عزیز کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی اور اب مطلع بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ جمہوریت نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیئے ہیں اور غیر آئینی اقدامات کے انتظار کے بجائے اگلے عام انتخابات پر اب تمام سیاسی فریقین کی نظر ہے۔
فوج کی اعلی قیادت میں تبدیلی کے بعد جمہوریت مخالف قوتوں کو شدید دھچکا لگا ہے جس کے اثرات سے نکلنا ان قوتوں کیلئے مستقبل قریب میں ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ اس منظر نامے کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ قومیں اور معاشرے جب تہیہ کر لیں کہ ان کے مسائل کا حل اور آگے بڑھنے کا راستہ جمہوریت کی کشتی پر سوار ہونے سے ہی طے ہو سکتا ہے تو پھر چاہے کتنی سازشیں کتنی ہی منظم مہمات اور جھوٹ جمہوریت کے بارے میں بولے اور چلائے جائیں عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور جب عوام جمہوریت کی بقا کیلئے ارادہ پختہ کر لیں تو جمہوری نظام کو پنپنے سے کوئی طاقت نہیں روک پاتی۔
ملکی سیاسی و سماجی تاریخ میں جس بیدردی سے حقائق کو مسخ کرکے جمہوریت اور سیاستدانوں سے نفرتوں کا زہر نسل در نسل منتقل کیا گیا اس کا تصور بھی یہاں بیاں کرنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود نواز شریف اور ان کی جماعت نہ صرف اس جمہوریت مخالف بیانیے کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے بلکہ وطن عزیز میں کامیابی سے اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیہ قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
راقم نے کچھ عرصہ قبل تحریر کیا تھا کہ نواز شریف سیاسی صنم خانے کا کوزہ گر بن چکا ہے اور اب بت بنانے کے اس کھیل میں وہ بت پاشوں کی برتری کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پانامہ لیکس سے لیکر ڈان لیکس مودی کے یار سے لیکر سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی جیسے بڑے الزامات اور مہمات سے نکل پانا کسی عام سیاستدان کے بس کی بات نہ ہو سکتی ہے اور نہ ہوگی۔
ملکی سیاست نے آج تک دو ایسے سیاستدان پیدا کیئے ہیں جو اپنے نام پر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور جن کو ان کے عہد اقتدار میں مارشل لا کا اور پھر قید و بند کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ دو نام ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف ہیں۔ 70 کی دہائی سے لیکر 1998 تک یا بھٹو کو ووٹ پڑتا تھا یا پھر بھٹو کی مخالفت میں۔
1997 کے بعد ووٹ بھٹو بمقابلہ نواز شریف میں تقسیم ہوا اور 2008 کے بعد اب ووٹ یا نواز شریف کو پڑتا ہے یا اس کی مخالفت میں۔ بھٹو ایک دانشور ایک لبرل اور اپنے خیالات و نظریات کو انتہائی بہترین انداز میں پیش کرنے والا لیڈر مانا جاتا تھا۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد بھٹو کو قید میں ڈالا گیا تو سعودی عرب سے لیکر لیبیا تک کے حکمرانوں نے ضیا پر دباؤ ڈالا کہ بھٹو کو پھانسی نہ دی جائے بلکہ جلا وطن کر دیا جائے شاید ضیا اس دباؤ کے آگے جھک جاتا لیکن بھٹو نے ضیا الحق کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور ضیا نے بھٹو کو پھانسی لگا دیا۔
بھٹو سولی چڑھا اس کی دلیری پر ملک میں مثالیں بنیں اور اس کی جماعت کئی دہائیوں تک وفاق میں اس کی قربانی کی بدولت زندہ رہی۔ بھٹو کی مانند نواز شریف کا تختہ بھی جنرل مشرف نے الٹا اور نواز شریف کو پابند سلاسل کر دیا۔ سعودیہ اور دیگر مسلمان ممالک سے مشرف پر دباؤ آیا کہ نواز شریف کو پھانسی نہ دی جائے اور اسے جلا وطن کر دیا جائے۔ نواز شریف نے چپ چاپ خاموشی سے مشرف سے سمجھوتہ کیا اور خاندان سمیت جلا وطنی اختیار کر لی۔ اس اقدام کے بعد نواز شریف کو بزدل قرار دیا گیا اس کی سیاست کے باب کو بند قرار دیا گیا اور اس کے کئی قریبی ساتھی اس کو چھوڑ کر مشرف کے دربار میں جا بیٹھے۔ لیکن 2008 میں نواز شریف وطن واپس آیا اور تب سے لیکر آج تک نواز شریف تن تنہا سیاسی میدان میں حکمرانی کر رہا ہے۔
اس مختصر سے تاریخی حوالے کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو سیاست کے میدان کے اصول اور اس کی رمز کا صیح ادراک ہونے پاتا ہے۔ بھٹو نے سیاست کے مزاج کو نہ پہچانا اور وقتی طور پر پیچھے ہٹنے کے برعکس ضد پر اڑ گیا نتیجتا سولی چڑھا اور بعد میں اس کی بیٹی کو آمروں سے ڈیل کرکے اور وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر اقتدار مل پایا لیکن وہ بھی 2007 میں پراسرار طور پر شہید کر دی گئی۔
دوسری جانب نواز شریف نے وقتی پسپائی اختیار کرتے ہوئے پہلے اپنے آپ کو بچایا اور پھر جمہوریت مخالف طاقتوں کے خلاف جدو جہد کرکے اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ راہنما کا سٹیٹس حاصل کیا۔ عدلیہ بحالی تحریک میں اگر نواز شریف حصہ نہ ڈالتا تو شاید آج بھی مشرف کے آمرانہ دور اقتدار کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا۔
نواز شریف نے اپنی کٹر بنیاد پرست اور ایسٹیبلیشمنٹ کے مہرے کے طور پر جانے والے رہنما کی چھاپ کو تبدیل کرکے مکمل جمہوری معتدل مزاج لبرل اور اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ شخصیت قائم کی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بھٹو زیادہ ذہین نکلا یا تین دفعہ منتخب ہو کر وزیر اعظم بننے والا اور چھ آرمی چیف تعینات کرنے والا نواز شریف اس کا جواب تاریخ اور قارئین کے حوالے۔ لیکن یہ تقابلی جائزہ ملکی سییاست میں طاقت کی جنگ کو سمجنے کیلئے بے حد ضروری ہے۔
بھٹو اور نواز شریف دونوں نے ایسٹیبلیشمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا اور دونوں نے بعد میں ایسٹبلیشمنٹ سے بغاوت کر دی لیکن ایک اپنے خاندان سمیت موت کی وادی کے سفر پر چلا گیا جبکہ دوسرا اپنے خاندان سمیت اقتدار کی بساط پر فتوحات سمیٹتا اسی ایسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو سیاست میں ناکام کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھٹو جو کرنا چاہتا تھا وہ درست تھا لیکن وہ وقت اور حالات کو ٹھیک سے سمجھنے نہیں پایا اور طاقت کی بساط سے بے رحمی سے نکال پھینکا گیا۔
نواز شریف نے درست موقع اور وقت کا انتظار کیا اور طاقت کی بساط کو اپنے نام کر لیا۔ اس آسان سی حقیقت کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے ہونا تو یوں چائیے تھا کہ نواز شریف مخالف سیاسی قوتیں ملکی و عالمی سیاسی حالات کو سمجھتے ہوئے ایسٹیبلیشمنٹ کا سہارا ڈھونڈنے کے بجائے نواز شریف کا مقابلہ سیاسی محاذ پر طاقت کے کھیل کے نئے اصولوں کے مطابق کرتیں لیکن جلد بازی اور اقتدار حاصل کرنے کے شارٹ کٹ کی لالچ نے ان قوتوں کو اس بساط سے تقریبا باہر نکال پھینکا۔
جنرل پاشا کا لگایا ہوا پودا عمران خان ایک سیلیبریٹی کی مانند الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے محاذ پر تو مقبولیت حاصل کر پایا لیکن سیاسی میدان میں بالکل ناکارہ کارتوس ثابت ہوا۔ نومبر نے ملکی سیاست کی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ کر دیا ہے۔ عمران خان کی لاک ڈاؤن کی ناکامی اور پانامہ و ڈان لیکس سے بچتے ہوئے ایسے آرمی چیف کی تعیناتی جو جمہوریت پر یقین رکھنے کے علاوہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی امن پسند کرتا ہے اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں نواز شریف ہی دوبارہ فاتح بن کر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کو ملکی تاریخ کا مضبوط ترین سیاسی رہنما بنانے اور اگلے انتخابات کو جیتنے کی مضبوط پوزیشن کی جانب لانے میں کلیدی کردار جناب عمران خان اور الیکٹرانک میڈیا نے انجام دیا ہے۔ صرف ایک لمحے کو فرض کیجئے کہ 2013 کے انتخابات کے بعد دھرنے اور احتجاج نہ ہوتے حکومت گرانے کی غیر جمہوری سازشیں نہ ہوتیں اور مالشییے ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر ہمہ وقت فوج کو مارشل لا کی دعوتیں نہ دیتے تو آج نواز شریف مخالف قوتیں اور عمران خان سیاسی طور پر کتنے مستحکم ہوتے کہ نواز شریف کو اپنی غلطیاں ان قوتوں کے ذمے ڈالنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
طاقت کی شطرنج پر نواز شریف نے ہر وار کو ناکام بنا کر کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے اوپر ہونے والے ہر وار کے ممکنہ نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے حریفوں کو داؤ لگانے اور وار کرنے کے مواقع دے کر کامیابی حاصل کی۔ سیاست میں کامیابی وار کرنے سے نہیں بلکہ وار سہنے سے ملتی ہے نواز شریف اس حقیقت کو سمجھ گیا اور ایسٹییبلیشمنٹ اور اس کے مہروں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔ نومبر واقعی اہم مہینہ ثابت ہوا جس میں نواز شریف ملکی سیاسی تاریخ کا محبوب ترین رہنما بن کر ابھرا اور سب سے بڑھ کر جمہوریت فاتح بن کر نکلی۔