بین الاقومی جریدے بلوم برگ میں حال ہی میں پاکستان کے بارے میں انتہائی مثبت اور مفصل تحریر شائع ہوئی؟ بلوم برگ کے تجزیہ نگار ٹیلر کوون نے پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جو کہ تیز رفتاری سے معاشی ترقی کی جانب رواں دواں ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا میں اس کے منفی امیج کی وجہ سے پاکستان کی متاثر کن ترقی کی جانب زیادہ توجہ مبذول نہیں ہونے پاتی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سٹاک ایکسینچ کی ترقی سال 2016 میں 46 فیصد رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ جبکہ چائنیز کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے رواں سال بھی سٹاک ایکسینچ کی منڈی میں ترقی کی رفتار دیکھنے کو ملے گی۔
وطن عزیز میں گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ کی شرح نمو پانچ فیصد ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 65 فیصد کمی آئی ہے۔ جبکہ غربت کی شرح میں بھی پچاس فیصد کمی آئی ہے۔ افراط زر کی شرح کم ہو کر تاریخ کی کم ترین شرح 3.66 فیصد پر آ چکی ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانیوں کا معیار زندگی بھی گزشتہ دہائیوں کی نسبت بہتر ہوا ہے اور نصف فیصد آبادی کے پاس کپڑے دھونے کیلئے واشنگ مشین کی سہولت وجود ہے جو کہ 90 کی دہائی میں صرف 13 فیصد تھی۔
آپ دنیا کے کسی بھی جریدے یا عالمی مالیاتی ادارے کی پاکستان کے بارے میں حال میں ہی شائع کی گئی رپورٹیں پڑھ کے دیکھ لیجئے آپ کو تمام رپورٹوں میں پاکستان کے بارے میں مثبت اعداد و شمار اور تجزیات ملیں گے۔ یاد رہے 2012 تک اسی پاکستان کے بارے میں دنیا بھر کے جریدے اور عالمی مالیاتی ادارے یہ تجزیات پیش کرتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا یا دہشت گردی کے ناسور کے ہاتھوں ختم ہو جائے گا۔ لیکن آج وہی ادارے اور جریدے پاکستان کی ترقی کی مثالیں اور اس کے روشن مستقبل کی قیاس آرائیاں کرتے نہیں تھکتے۔
وطن عزیز میں بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہماری نفسیات اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے زیادہ تر حوالدار اینکروں اور صحافیوں کی مہربانی کی بدولت ہم وطن عزیز کا یہ مثبت چہرہ دیکھنے سے ہی انکاری ہیں۔ بحیثیت معاشرہ ہماری سوچ کچھ یوں ہے کہ حکومت بجلی، گیس تیل اور پٹرول ہمیں مفت مہیا کرے ہمارے گھروں میں من و سلوی مہیا کرے اور ہم سے کسی بھی قسم کے کام یا محنت کی ہرگز توقع نہ کرے۔ نہ ہی ہماری آمدن کے ذرائع پوچھے یا ہمیں ٹیکس نیٹ میں آنے کا کہے۔ جب تک تمام کی تمام آسائشیں ہمیں دروازے کے آگے مہیا نہیں کی جاتیں نہ تو ہم نے مطمئن ہونا ہے اور نہ ہی ہم نے کسی بھی ممکن طریقے سے اپنے وطن کا مثبت چہرہ دنیا میں پیش کرنا ہے۔
دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے جنوبی پنجاب کے غم میں گھلتے اینکرز ہوں یا قیامتوں کی پیشن گوئیاں کرتے یا کھرے سچ کے نام پر اپنی تجوریاں بھرتے حضرات ان سب کا زور عوام کو منفیت کی جانب راغب کرنے پر مرکوز رہتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کبھی بھی کوئی اچھی خبر یا رپورٹ ان نام نہاد صحافت کے علمبردار صحافیوں کے منہ اور ٹیلیویژن چینلوں کی سکرین سے سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتی۔ سارے کا سارا زور اسٹیبلیشمنٹ کے لنگڑے گھوڑے عمران خان کو "فرشتہ" بنانے پر صرف کیا جاتا ہے۔
آپ نواز شریف کو پسند کرتے ہوں یا ناپسند کرتے ہوں لیکن اس حقیقت سے آپ میں سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک میں موٹر وے اور سڑکوں کا جال نواز شریف نے بچھایا، میٹرو اور اب اورنج ٹرین نواز شریف ہی وطن میں لایا۔ ہسپتالوں کی ایمرجینسیوں کو بہتر بنانے سے لیکر سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا چائینیز کمپنیوں کو پاکستان میں لانا سی پیک جیسے منصوبے کا آغاز بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانے، عوام کیلئے صحت کارڈ کا اجرا، طلبا اور پڑھے لکھے افراد کیلئے لیپ ٹاپ سکالر شپ کاروباری قرضے، ملک سے دہشت گردی کا صفایا اور شہر قائد کراچی سے سیاسی مافیا اور گینگ وار کا خاتمہ، غرض زندگی کے ہر شعبے میں نواز شریف اور اس کی حکومت کے کام کا ثبوت نظر بھی آتا ہے اور عوام کےووٹوں کی صورت میں گواہی بھی دیتا ہے۔
یہاں اس سے مراد یہ ہرگز بھی نہیں ہے کہ نواز شریف کے دور میں ہر جانب دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوگئی ہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ابھی بھی تعلیم صحت اور دیگر میدانوں میں بے انتہا کام کی ضرورت ہے لیکن بہرحال نواز شریف کے دور اقتدار میں وطن عزیز ترقی کی جانب گامزن ضرور ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے یا تو یہ سب اعدا و شمار اور کسوٹیاں درکار ہوتی ہیں جن کا ذکر تحریر کی ابتدا میں کیا گیا، یا پھر اس حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پچھلی حکومتوں کی کارکردگی سے کیا جاتا ہے۔
آپ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ قائد اعظم کے ادوار حکومت کی کارکردگی کو دیکھئے دونوں جماعتوں کے ادوار میں ترقی تو دور کی بات عام شہری کا اپنی جان تک کا تحفظ کرنا بھی محال تھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے کاروباری اور روزمرہ زندگی کو ٹھپ کرکے رکھا ہوا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو فری ہینڈ تھا اور خیبر پختونخواہ میں طالبان کو۔ اور یوں کراچی سے لنڈی کوتل تک خون ناحق پانی کی طرح بہایا جاتا تھا۔
چلییے ان ادوار سے تقابلہ نہیں کرتے بلکہ اسٹیبلیشمبٹ اور میڈیا کی ڈارلنگ عمران خان کی حکومت کی خیبر پختونخواہ میں کادکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیا خیبر پختونخواہ میِں عمران خان نے سڑکوں کا جال بچھایا؟ کیا وہاں سرکاری ہسپتالوں کو مثالی بنایا؟ کیا پچھلے چار برسوں میں جناب عمران خان نے بجلی بنانے کا کوئی ایک بڑا منصوبہ اس صوبے میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سوائے نعروں اور دعووں کے آپ کو پختونخواہ میں کوئی قابل ذکر کام دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ عوام نواز شریف کو بار بار ووٹوں کی قوت سے منتخب کرکے اقتدار کا مسند سونپ دیتے ہیں۔ اب کچھ لوگوں کو جمہوریت سے بغض ہے کچھ لوگوں کو کمیشن اور ٹھیکے نہ مل پانے کا دکھ ہے۔
کچھ لوگوں کو وزیر اعظم نہ بن پانےکا صدمہ ہے یہ تمام لوگ الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر نوجوان نسل کے ایک حصے، سمندر پار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اور مڈل کلاس کے اس پڑھے لکھے طبقے کو جو زیادہ تر دفتر اور کاروباری معاملات کی مایوسی سیاستدانوں پر نکالتا ہے اسے تو بیوقوف بنا لیتے ہیں لیکن عام آدمی کو بیوقوف نہیں بنا پاتے۔ کیونکہ یہ عام آدمی حقیقتوں میں بستا ہے اور اسے نہ تو پانامہ کے گڑھے مردے سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ یہ پرفریب وعدوں کی لال بتی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ یہ عام آدمی اپنا معیار زندگی بدلتے ہوئے دیکھتا ہے تو ہی ووٹ ڈالنے جاتا ہے۔ ویگنوں پر دھکے کھانے کے بجائے جب میٹرو میں باعزت طریقے سے سفر کرکے یہ عام آدمی منزل مقصود پر پہنچتا ہے تو نواز شریف کو ووٹ دینے کا پھر سے تہیہ کرتا ہے۔ یہی عام آدمی اپنا روزگار سکیم سے چند لاکھ روپے کے معمولی قرضے سے کوئی دکان ٹرانسپورٹ یا دیگر چھوٹا موٹا کاروبار چلا کر جب باعزت روزگار کماتا ہے تو پھر دوبارہ نواز شریف کو ووٹ کرتا ہے۔
سڑکوں کی تعمیر سے جب مختلف علاقوں میں آمدو رفت ہوتی ہے کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں اشیا منڈیوں تک بروقت اور سبک رفتاری سے پہنچتی ہیں تو پھر ان سے مستفید ہونے والا عام آدمی پھر سے نواز شریف کو ہی ووٹ دیتا ہے۔ یہ کلیہ بہت سادہ ہے اور عام آدمی کے بڑھتے ہوئے شعور کا ثبوت بھی۔ کوئی بھی رہنما یا سیاسی جماعت اس سادے سے کلیے کو اپنا کر قتدار میں آ سکتے ہیں۔ لیکن اس کلیے کو استعمال کرنے کیلئے عملی میدان میں کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ دوسری جانب اکثر وہ لوگ جو وطن عزیز کے حالات سے نالاں رہتے ہر برائی کا سبب نواز شریف یا کسی اور سیاستدان کو قرار دیتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ تنقید ضرور کیجئے لیکن عملی طور پر اپنی ذمہ داری بھی نبھایا کریں۔
دنیا میں کوئی بھی ریاست نہ تو من و صلوٰی مہیا کرتی ہے اور نہ ہی ٹیکس چور، ملاوٹ خور، ذخیرہ اندوز، دو نمبر اشیا، یا ملازمتوں اور کاروباروں میں کرپشن اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے معاشرے کو راتوں رات سدھار کر ایک آئیڈیل معاشرہ بنا سکتی ہے۔ جو کام حکومت کے ذمے ہے وہ کم رفتاری سے ہی سہی لیکن پایہ تکمیل کی جانب رواں دواں ہے اور جو کام ہم لوگوں کے ذمے ہے اس کا نام و نشان تک نہیں۔ اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرکے یقینا ترقی کے اس سفر کو مزید تیز رفتار بنایا جا سکتا ہے۔ اور میڈیا کے پراپییگینڈے سے باہر آ کر کچھ دیر کیلئے وطن عزیز کے مثبت پہلووں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر آپ اہنے اپنے کمپیوٹر موبائل سکرینوں یا ٹی وی سکرینوں سے اٹھ کر کچھ دیر کو وطن عزیز کی حالت کا خود جائزہ لینے کیلئے اس کے طول و عرض میں سفر کریں تو آپ کو ایک بدلتا ہوا اور ترقی کی جانب سفر کرتا ہوا پاکستان دکھائی ضرور دے گا۔