خوش فہمیاں پالنے اور خواب دیکھنے پر نہ تو پابندی عائد کی جا سکتی ہے اور نہ ہی روکا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھار انسان خوش فہمیوں اور خواب دیکھنے کی لت کا شکار ہو کر سرابوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ کیفیت دراصل حقیقتوں سے فرار کی ایک آسان راہ ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں جناب عمران خان اور انکے ہمنوا اور چند مایوس ٹی وی مالکان اور اینکرز کی بھی یہی حالت ہے۔ پانامہ کیس میں یہ تمام لوگ حقیقت کو اپنے اپنے حصے کے جھوٹ اور شوروغل سے دبانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا اور اپنے پیروکاروں کا وقت ضائع کرنے پر مصر ہیں۔ پانامہ کیس کی سنوائی کے روز اول سے راقم کا موقف تھا کہ اس کیس میں نواز شریف کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کیس کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جسے چند دنوں بعد سنایا جائے گا اس وقت بھی ذرائع کے مطابق اور کیس کی سماعت دیکھ کر اس بات کو دہرانے میں کوئی دقت نہیں ہے کہ عدالت وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار نہیں دے گی۔
عمران خان اور ہمنوا بھی یہ بات نجوبی جانتے ہیں لیکن چونکہ اہنے ووٹرز اور کارکنان کو جس حد تک وہ آگے لے کے جا چکے ہیں اس کے بعد اب محض شور مچانے کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔ عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان میڈیا کے چند حوالدار اینکرز کے ساتھ مل کر اپنے کارکنان کو ایک اور لال بتی کے پیچھے لگا کر اگلے انتخابات میں پھر سے شکست کے بعد دھاندلی کا رونا رونے کی تیاری کرتے نظر آئیں گے۔
دنیا بھر کے عالمی اداروں کے سروے اگلے عام انتخابات میں بھی نواز شریف کی جیت کی پیشن گوئیاں کر چکے ہیں۔ لیکن جناب عمران خان ساون کے اس اندھے کی مانند ہیں جسے ہر طرف ہرا ہی نظر آتا ہے۔ نواز شریف کے خلاف موجودہ دور حکومت میں ایک بھی میگا کرپشن سکینڈل کا منظر عام پر نہ آنا دراصل اپوزیشن کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ دوسری جانب خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور نواز شریف کا احسن طریقے سے اس صورتحال میں ایک اہم کھلاڑی کے روپ میں ابھر کر سامنے آنا بھی عمران خان اور ہمنواوں کے تاریک مسقبل کی جانب واضح اشارے دیتا نظر آتا ہے۔ پانامہ کا گڑا مردہ اکھاڑنے کا مقصد نواز شریف کو زرداری کی مانند بے بس اور مفلوج بنا کر ڈکٹیشن قبول کروانا تھا۔
نواز شریف نے اس چال کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ پانامہ کیس میں عوام کی دلچسپی کیا ہے یہ جاننے کیلئے آپ کو پنجاب کے دیہاتوں قصبوں اور بڑے شہروں کے گنجان آباد علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں عمران خان اور میڈیا کی منظم کمپین کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس کیس کی تفضیلات سے نابلد ہے۔ عمران خان اور انکے پسندیدہ ٹی وی چینلوں کو دیکھ اور سن کر ایمان لانے والے افراد زیادہ تر عمران خان کے فین کلب کا حصہ ہیں اور سیاست کے اسرا و رموز اور تاریخ سے نآشنا۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے طوفان بدتمیزی بپا کرنے اور حریف کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے کے علاوہ عمران خان اور ان کے کارکنان عملی میدان میں صفر دکھائی دیتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کے ہسپتالوں کی حالت زار سے لیکر سکول سڑکوں اور عام آدمی کی حالت زار اسـں ضمن میں ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ دوسری جانب وطن عزیز کے ہر بڑے میگا پراجیکٹ پر آپ کو نواز شریف کے نام کی تختی نظر آئے گی۔ اسی طرح دوسروں کی کرپشن پر بات کرنے والے عمران خان نہ تو اپنی پارٹی کے فنڈز میں خوردبرد کا حساب دیتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی شوکت خانم کو ملنے والی زکات چوری کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہیں۔ اپنے مریدوں کو جب وہ یہ بتاتے ہیں کہ خدا مجھے سب کچھ دے بیٹھا ہے اور کرکٹ سے میں نے اتنا پیسہ کمایا ہے کہ مجھے ضرورت ہی نہیں کام کرنے کی تو اس وقت نہ چاہتے ہوئے بھی قہقہے مارنے کو جی چاہتا ہے۔
سچن ٹنڈولکر ایم ایس دھونی سے زیادہ کرکٹ نہ تو عمران خان نے کھیلی اور نہ ہی ان دونوں سے زیادہ پیسہ کمایا۔ سچن اور دھونی دونوں اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کیلیے کاروبار کرتے ہیں یا کاروبار میں انوسٹمنٹ کرتے ہیں لیکن ہمارے کپتان صاحب کو ایک عیاشانہ معیار زندگی برقرار رکھنے کیلئے نہ تو کوئی کام کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی کاروبار۔ یہی وجہ ہے کہ محترم تمام کاروباری یا کام کرنے والے ایسے حضرات جو ان کی جماعت کے مخالف ہیں یا جو ان کی چندہ اور زکات وصول کرنے کی ٹھگی میں نہیں پھنستے ان سب کو چور اور ٹھگ قرار دینے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔
باقی کا کام ان کے میڈیا میں بیٹھے الیکٹرانک مسخرے پورا کر دیتے ہیں۔ جو سادہ لوح کارکنان کو جنوبی پنجاب سے لیکر قیامت تک کے دکھڑے سنا کر یہ باور کرواتے ہیں کہ نواز شریف اتنا طاقتور ہے کہ اس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کے اداروں اور حکمرانوں کو خرید رکھا ہے۔ اس سارے کھیل میں عمران خان نے سوائے سیاستدانوں اور جمہوریت کو کمزور اور بدنام کرنے کے نہ تو کچھ حاصل کیا اور نہ ہی آئیندہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال کے دوران جس بزدلانہ طریقے سے موصوف بنی گالہ کے محل میں گرفتاری کے خوف سےچھپ کر دبک گئے تھے اس اقدام نے ان کی مصنوعی اور الیکٹرانک بہادری کا پول بھی کھول دیا تھا۔ اسـوقت بھی اگر اسٹیبلیشمنٹ کے چند عناصر عمران خان کی مدد کرتے ہوئے عدالت میں اس کیس کو لے جا کر ان کی فیس سیونگ کا اہتمام نہ کرتے تو شاید عدالت اس مردہ کیس کو سننے میں وقت برباد نہ کرتی۔
اب جبکہ موجودہ فوجی قیادت نواز شریف کو الجھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تو جناب عمران خان کیلئے نہ تو "فرشتوں" کی غیبی امداد آنے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی ان کی پشت پر تھپکی دینے کیلیئے کوئی موجود ہے۔ پانامہ کیس میں زیادہ سے زیادہ فیس سیونگ صرف یہ مل سکتی ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے اور عمران خان کو اگلے انتخابات تک اس کمیشن کی کاروائی کے دم پر کھیلنے کودنے کا موقع دے دیا جائے۔ تا کہ موصوف کم سے کم پچھلے انتخابات میں جیتی گئی 30 کے لگ بھگ نشستوں کو ہی اگلے انتخابات میں محفوظ کر سکیں۔ جو کہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔
پانامہ کیس کا اصل شکار مریم نواز ہیں اور ڈان لیکس کے بعد سیکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ میں انہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کیس میں نواز شریف کو کبھی بھی کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا البتہ مریم نواز کے وزارت عظمی کی جانب بڑھتے قدموں کو کیا عدلیہ کے دم پر روکا جا سکے گا یہ سوال اہم ہے اور اگلے چند ماہ میں اس کا جواب مل جائے گا۔ البتہ کرپشن کرپشن کی دہائیاں دیتے عمران خان کا دامن اگلے عام انتخابات میں بھی خالی ہی رہے گا جس کی بنیادی وجہ خان صاحب کا اپنے صوبے میں کارکردگی نہ دکھا پانا اور عوام کی خدمت کرنے کے بجائے پانامہ جیسے گڑے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش میں وقت کو ضائع کرنا ہے۔ پانامہ کیس نواز شریف کو نااہل کرنے کی ایک سازش تھی لیکن اب معلوم یہ ہوتا ہے کہ خود پانامہ کیس عمران خان کے گوڈے گٹوں میں بیٹھ کر انہیں سیاسی اعتبار سے نااہل کروا دے گا۔