نواز شریف کی اپنی جماعت کی صدارت سے نااہلی کا عدالتی فیصلہ ہرگز بھی ناقابل توقع نہیں تھا۔ جس انداز سے عدلیہ نے طاقت کی اس بساط میں ایک فریق کا کردار نبھاتے ہوئے پس پشت قوتوں کی ایما پر فیصلے جاری کئیے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے باآسانی یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل کرنے کا فیصلہ آئے گا۔ مسقتبل قریب میں شاید نواز شریف کی تقاریر پر بھی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ پس پشت قوتوں اور عدلیہ کے اس گٹھ جوڑ کی حقیت اور ان کے پرانے اور آزمودہ حربوں سے ہر باخبر شخص واقف ہے۔ سیاہ عدالتی فیصلوں کے بوجھ سے دبی ہوئی کمزور جمہوریت پر دوبارہ عدالتی تلوار سے شب خون مارنے والی قوتیں شاید تاریخ کے سبق سے کچھ بھی نہ سیکھنے کی قسم کھائے بیٹھی ہیں۔ موجودہ عدالتی فیصلہ جس قدر مضحکہ خیز ہے اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جلد ہی مسلم لیگ نواز کو ووٹ ڈالنے والے ووٹرز کو بھی 62 اور 63 کی شق کے تحت انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے کیلئے بھی نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ اگر مقصد صرف نواز شریف اور اس کی جماعت کو مائنس کر کے اقتدار کی مسند پر اپنی کٹھ پتلی عمران خان کو بٹھانا مقصود ہے توآئین اور دستور کا سر عام مذاق اڑوانے اور عدلیہ کو ربر اسٹمپ بنا کر اس کی تحقیر کروانے کی قیمت شاید اس عمل کیلئے بہت زیادہ ہے۔
عوامی مینڈیٹ کو بندوقوں اور عدالتی فیصلوں سے کچلنے کا یہ فعل وطن عزیز کوایک ایسی سمت میں لے کر جا رہا ہے جہاں خود وفاق کی اکائی کو بقا کے خطرات لاحق ہونے کے اندیشے جنم لیتے جا رہے ہیں۔ شاید وقتی طور پر یہ طریقہ اپنا کر نواز شریف اور اس کی جماعت کو دبایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ووٹ بنک کو نہ تو توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی پنجاب سے اس کی جماعت کا صفایا ممکن ہے۔ موجودہ عدالتی فیصلوں اور حالات کے تناظر میں انتخابات کے منعقد ہونے کی جانب بھی سوالیہ نشانات اٹھنے لگ گئے ہیں۔ آخر جن قوتوں نے عدلیہ کے دم ہر نواز شریف کو شکار کیا ہے ان کو زمینی حالات کا ادراک و فہم تو ضرور ہو گا اور وہ اس امر سے باخبر ہوں گی کہ ہر متنازعہ عدالتی فیصلہ نہ صرف نواز شریف کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے بلکہ انتخابی محاذ پر اسے مزید مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ اس صورت میں مائنس نواز شریف کے فارمولے کی خالق قوتیں کس طرح ممکن ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہونے دیں گی کیونکہ بہر حال انتخابات کو جتنا بھی مینیج کرنے کی کوششیں کر لی جائیں ایک 27 نشستوں والی جماعت کو کسی بھی طور سادہ اکثریت کے نہ تو اہل بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے سادہ اکثریت دلوائ جا سکتی ہے۔ عدالتوں سے پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون کو رد کئیے جانے کا فیصلہ وطن عزیز کے دستوری اور آئینی ڈھانچے پر بھی بنیادی سوالات کھڑے کرتا ہے اور ایک بنیادی سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آمروں کے ادوار میں عدلیہ کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے اور کیا کسی آمر کے اقدامات کو آج تک کسی بھی عدالت نے رد کرنے کی کوشش کی؟
پارلیمان اگر قانون سازی کرنے کیلئے عدلیہ کی توثیق کی محتاج ہے تو پھر پارلیمان کے وجود کی کیا افادیت باقی رہ جاتی ہے؟ ضیا الحق کے متعارف کردہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو جواز بنا کر پہلے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے عدلیہ سے ایک منتخب وزیر اعظم کو نااہل کروایا گیا اور پھر پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون کو بھی انہی کے دم پر معطل قرار دیا گیا، اگر ان کی تشریحات پر من و عن عمل کیا جائے تو معزز عدلیہ سمیت وطن عزیز میں کسی بھی ادارے یا شعبے میں ایک بھی ایسا فرد نہیں مل سکتا جو ان دفعات کی تشریح پر پورا اترتا ہو۔ فیصلے جب انتقام کی بنیاد یا پس پشت قوتوں سے ڈکٹیشن لے کر دیے جائیں تو تاریخ کے اوراق میں انہیں سیاہ فیصلوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے 2014 کے دھرنوں کی سازش کی ہانڈیا جب بیچ چوراہے میں پھوڑی تھی تو اس نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ عمران خان کہتا ہے کہ اگلے جو جج حضرات آئیں گے وہ نواز شریف کو چلتا کر دیں گے اور جوڈیشیل مارشل لا کے بعد صدارتی نظام یا ٹیکنو کریٹ نظام لا کر عمران خان کو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا انعام دے دیا جائے گا۔ جاوید ہاشمی آج بھی اپنے اس دعوے پر قائم ہے وہ آج بھی جوڈیشیل مارشل لا کی باتیں بابنگ دہل کرتا ہے اور عدلیہ کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کو عدالت میں بلا کر اسے جھوٹا ثابت کر کے دکھایا جائے۔ جاوید ہاشمی کی تمام باتیں اب تک کے حالات و واقعات کے مطابق سو فیصد درست اور سچی ثابت ہوئیں ہیں۔ ہو سکتا ہے جلد ہی اسے بھی توہین عدالت کا نوٹس تھما کر پابند سلاسل کر دیا جائے لیکن بہرحال حقائق کو توہین کی آڑ میں نہ تو مسخ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سچ کو دبایا جا سکتا ہے۔
آج کی تاریخ کا سچ یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کو کچل کر احتساب کے نام پر ایک سیاسی رہنما اور جماعت کو عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے ختم کرنے کی کاوشیں زور و شور سے جاری ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں اگر مسلم لیگ کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے انتخابی عمل میں حصہ لینا پڑا یا پھر سینیٹ کے انتخابات التوا کا شکار ہوئے تو پھر پس پشت قوروں کی بنائ ہوئ ساری سازش پوری طرح سے عیاں ہو جائے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز اور نواز شریف کیلئے شاید یہ وقتی دھچکا تو ضرور ہے لیکن مستقبل میں یہ متنازعہ عدالتی فیصلہ نواز شریف اور اس کی جماعت کو مزید مستحکم کر دے گا۔ تادم تحریر حکمران جماعت کے کلیدی رہنماوں کی جانب سے جو معلومات میسر آئیں ہیں ان کے مطابق سردار یعقوب ناصر کو وقتی طور پر مسلم لیگ نون کی صدارت سونپی جائے گی۔ اگر یہ معلومات درست ہیں اور شہباز شریف کے بجائے سردار یعقوب ناصر کو صدر بنایا جاتا ہے تو پھر یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ نواز کی صدارت مستقل طور پر کلثوم نواز کو ان کی وطن واپسی کے بعد سونپ دی جائے گی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کلثوم نواز کی وطن واپسی کا جلد امکان ہے۔ کلثوم نواز کو صدارت سونپ کر نہ صرف پس پش قوتوں کو ایک واضح جواب دے دیا جائے گا بلکہ مسلم لیگ نواز کے ایسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ مخالف بیانیے اور سیاست میں مزید تیزی آ جائے گی۔ معزز عدلیہ چونکہ اب طاقت کی اس بساط میں ایک فریق بن چکی ہے اس لئیے شاید توہین یا نااہلی کے ہتھیار اب کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔ اور آنے والا ہر دن عدلیہ کے ادارے اور ججز کو متنازعہ بناتا جائے گا۔ پس پشت قوتوں اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے ماضی میں جمہوریت پر شب خون بھی مارا گیا اور عوامی نمائندوں کو پھانسیاں اور سزائیں بھی سنائ گئیں۔ ماضی کے اس بوجھ کے ساتھ اور مشکوک و متنازعہ فیصلوں کی حالیہ فہرست کی موجودگی میں اس ادارے کا اب خود اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا انتہائی دشوار دکھائی دیتا ہے۔
جب عدالتیں آمروں، پس پشت قوتوں اور ان کے مہروں کیلئے ڈرائی کلینگ فیکٹری کا کام سر انجام دینے لگ جائیں تو پھر ان کے فیصلوں کا تقدس برقرار نہیں رہنے پاتا۔ اور شاید یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وکلا تحریک کے بعد بحال ہونے والی عدلیہ نے جو تھوڑی بہت ساکھ اور عزت کمائی تھی اس کو بھی طاقت کی جنگ میں داو پر لگا دیا گیا۔ اب تک تو مسلم لیگ نواز اور نواز شریف نے پس پشت قوتوں کی چالوں کا جواب تحمل سے اور عوام میں اپنے بیانیئے کو مضبوط کر کے دیا ہے۔ لیکن اگر نواز شریف اور ان کی جماعت نے اپنے خلاف انتقامی کاروائی کے جواب میں عوامی مظاہروں یا احتجاجی تحریک کا سلسلہ شروع کر دیا تو شاید صورتحال کسی کے بھی قابو میں نہیں رہے گی۔ ہم مینڈیٹ کو کچلنے اور ایک مقبول لیڈر کو حق حکمرانی سے محروم رکھنے کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ اگر حالات اسی ڈگر پر رہے اور عوامی مینڈیٹ اور عوامی رہنماوں کو کچلنے کا سلسلہ نہ رکا تو شاید ہم ایک اور ایسے سانحے کو رونما ہونے سے روک نہیں پائیں گے۔ پس پشت قوتوں کو تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کو ہائی جیک کرنے کا عمل بند کرنا چائیے اور معزز عدلیہ کو بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ سے سبق سیکھنا چائیے جہاں عدالتی مارشل لا کی ناکامی کے بعد ججوں کو وطن بدر کر دیا گیا تھا۔ پارلیمان کے دائرہ کار میں مداخلت اور حکومت کے انتظامی کاموں کو اپنے ذمے لینا اور عوامی نمائمدوں کو آئین کی آڑ میں پس پشت قوتوں کی ایما پر نااہل کرتے ہوئے مہروں کو کلین چٹ دینا ایک طرح سے جوڈیشل مارشل لا کے زمرے میں آتا ہے۔ جوڈیشل مارشل لا ایک قسم کا پوشیدہ مارشل لا کہلاتا ہے اور ایک مہذب معاشرے میں کسی بھی قسم کے پوشیدہ مارشل لا کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ پس پشت قوتیں اور عدلیہ ماضی کی تاریخ اور معروضی حقائق سے سبق سیکھتے ہوئے عوامی نمائندوں کو پلس مائنس کرنے کے اس کھیل سے پیچھے ہٹ جانا چائیے۔ وگرنہ خدانخواستہ مورخ مستقبل میں تاریخ کا فیصلہ تحریر کرتے ہوئے یہ نہ لکھے کہ ریاست کو کمزور کرنے میں سیاہ ترین عدالتی فیصلوں، عمران خان اور ایسٹیبلیشمنٹ کے گٹھ جوڑ کا کلیدی کردار تھا۔