انسان زندگی میں بعض اوقات حرص لالچ اور خود غرضی میں اتنا گر جاتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے جو اسے حقیقتوں سے قطعی روشناس نہیں ہونے دیتی۔ پاکستان سپر لیگ کی کامیابی سے جل بھن کر عمران خان نے جو بازاری زبان بین الاقوامی کھلاڑیوں دوارے استعمال کی نہ صرف وہ قابل مزمت ہے بلکہ بطور پاکستانی ہم تمام پاکستانیوں کیلئے باعث ندامت بھی ہے۔
ایک سپورٹس کے ایونٹ کو جس بھونڈے طریقے سے عمران خان نے سیاسی جنگ کا رخ دیا اسّکو دیکھ کر نجوبی اندازہ ہوا کہ پے در پے ناکامیوں اور کوکین کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے شاید عمران خان کو اس پستی کی جانب دھکیل دیا ہے جہاں انسان سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم پاکستان سپر لیگ کے فائنل کو انجوائے کر رہی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت اور سوفٹ امیج اجاگر ہو رہا تھا اس وقت خان صاحب اپنی ڈیڈھ انچ کی مسجد میں بیٹھے بھرپور طریقے سے پاکستان دوارے منفی پیغام اقوام عالم کو دینے میں مصروف تھے۔
فائنل میچ کے دوران تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہدایت تھی کہ گو نواز گو کے بھرپور نعرے لگائے جائیں۔ اور کارکنوں نے ذہنی بانجھ پن کا طوق پہنے خوشی خوشی یہ نعرے بلند کیئے۔ شاید تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو قوی امید تھی کہ جواب میں مسلم لیگ نون کے کارکنان بھی نعرے لگائیں گے اور یوں سٹیڈیم میں تصادم کروا کر اپنا مزموم ایجنڈا پورا کر لیا جائے گا۔ لیکن نہ تو مسلم لیگ نون نے ان نعروں پر کان دھرے اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو مشتعل ہونے دیا۔
جب اپنی آخری حد تک گرنے کے بعد بھی عمران خان اپنا مقصد نہ حاصل کر سکے تو بغض اور کینے میں ساری فرسٹریشن ان بین الاقوامی کھلاڑیوں پر نکال دی جو لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے اور دیکھنے آئے۔ ان کھلاڑیوں کو کہتے ہوئے عمران خان یہ بھول گئے کہ ڈیرن سیمی نے دو مرتبہ اہنے ملک کیلئے ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ جیتا ہے اور یہ اعزاز دنیا کے کسی اور کپتان کے پاس نہیں ہے۔
ایک اور کھلاڑی مارول سیمیویل صرف ویسٹ انڈیز کے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ٹی ٹونٹی کی کھیلے جانے والی لیگز کے معروف اور مستند کھلاڑی ہیں۔ کوئٹہ کی کوچنگ کے فرائض سر انجام دینے والے سر ویوین رچرڈز دنیائے کرکٹ کے لیجینڈز میں سے ایک ہیں۔ ڈین جونز آسڑیلیا کے سابق کپتان اور ایک عالمی پائے کے مستند بیٹسمین رہ چکے ہیں۔ جتنی کرکٹ ان کھلاڑیوں نے کھیلی اور جتنی کامیابیاں اور اعزازات ان کھلاڑیوں نے اپنے نام کیئے شاید عمران خان اسـکا عشر عشیر بھی کرکٹ میں نہ حاصل کر پائے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ پتہ نہیں افریقہ سے کن کھلاّڑیوں کو پکڑ لائے یعنی سیاہ فام باشندوں پر ایک طنز اور ان کی رنگت اور قومیت کی تضحیک۔ اس بیان کے بعد تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان کے مقابلے میں کم متعصب اور کم بیوقوف دکھائی دیتا ہے۔
یقین کیجئے پچھلے چار برسوں میں جس قدر گھٹیا بیانات اور سیاست کا انداز عمران خان کی جانب سے اپنایا گیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں۔ اور یہ سب کچھ محض ایک بونے کو اس کی اوقات سے زیادہ پذیرائی ملنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ایک ایسا بونا جو کرکٹ کا ایک ورلڈ کپ جیت کر مسلسل پچیس برس سے اس قوم پر احسان جتاتا جا رہا ہے۔ اربوں کھربوں روپے کی زکوۃ میں غبن کرکے ایک ہسپتال بنا کر یوں احسان جتا رہا ہے جیسے دنیا فتح کر لی ہو۔
حقیقت میں حال یہ ہے کہ قریب دو دہائیاں سیاست میں ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی قومی اسمبلی میں صرف پچیس نشستیں حاصل کر پایا۔ اب فیصلہ خود کیجئے کہ سیاست میں پھٹیچر کون ہے اور فرشتوں نے سیاست میں ریلو کٹا کس کو بنایا ہے۔ اس شخص کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ خود طالبان کے خلاف ایک لفظ تک زبان سے نہیں نکالتا اور نہ ہی شدت پسندوں کی مذمت کرتا ہے۔ اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر مار پٹواتا ہے اور خود بنی گالہ میں چھپ کر بیٹھتا ہے۔ حوالے حضرت محمد اور حضرت عمر کے دیتا ہے لیکن اپنی ناجائز بیٹی کو قبول نہیں کرتا۔ عمر حج پر جانے کی اور پوتے کھلانے کی ہے لیکن باتیں نئی شادی کی کرتا پھرتا ہے۔
محض وزیراعظم نہ بن پانے کی جلن اور حسد کی وجہ سے یہ شخص دوسروں کی تضحیک کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اور نفرتوں کا بیوپار کرکے خوش ہوتا ہے۔ آپ ایک جانب ڈیرن سیمی کا والہانہ جوش و جزبہ اور پشاور زلمی کی جیت کے بعد اس کا جشن دیکھئے یا کوئٹہ کی شکست کے بعد سر ویوین رچرڈز کی آنکھ میں آئے آنسو اور دوسری جانب اسّ شخص کے بیانات اور اعلانات دیکھیئے آپـکو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ شخص کس قدر خود غرض اور اقتدار کا بھوکا ہے۔ شاید یہ تحریر آپـکو بے حد کڑوی اور تلخ لگے جس کیلئے معذرت قبول فرمائیے گا۔ لیکن جس قدر نیچ اور گھٹیا زبان اس شخص نے کھلاڑیوں کے بارے میں استعمال کی اور جس طریقے سے اس نے پاکستان کا منفی امیج دنیا بھر میں پیش کرنے کی مزموم کوششیں کی شاید یہ تحریر اس کا اعادہ بھی نہ کرنے پائے۔
سیاست کے اس پھٹیچر اور ریلو کٹے شخص عمران خان کو شاید سیاسی مخالفین نے بھی اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تا کہ اس کا اصل چہرہ وقتا فوقتا بے نقاب ہوتا رہے۔ اور شاید قدرت کی بھی سب سے بڑی سزا یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو حسد کی آگ میں مبتلا کرکے اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے ہی مفلوج کر دیتی ہے۔