پاکستان سپر لیگ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستانی قوم کو خوشیاں بانٹنے والا ایک شاندار ایونٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کرکٹ کی اس لیگ نے پاکستانی قوم کو فروری کے پورے مہینے میں تمام تر اختلافات اور رنجشوں کو بھلاتے ہوئے اپنی اپنی ٹیموں کو داد دیتے اور مسکراتے ہوئے رکھا۔ ویوین رچرڈ ہوں یا ڈین جانز جیسے لیجنڈ پاکستان کے نئے ٹیلنٹ کو داد دیتے اور ان کی راہنمائی کرتے نظر آئے۔ اس سپر لیگ نے دنیا بھر میں ثابت کیا کہ پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود کھیلوں میں اور بالخصوص کرکٹ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
کرکٹ پاکستان میں رکوا کر پاکستانی شائقین نہیں بلکہ دنیا بھر میں کرکٹ سے لگاو رکھنے والے افراد کو ایک طرح سے اس ملک کی جاندار اور سنسنی خیز کرکٹ اور ٹیلنٹ دیکھنے سے محروم کیا جاتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ نے پاکستان کے سوفٹ امیج کو دنیا بھر میں نہ صرف اجاگر کیا بلکہ بہت سے سرمایہ کاروں کو ایڈورٹائزنگ اور براڈ کاسٹنگ کے حوالے سے بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ نجم سیٹھی اس شاندار لیگ کے انعقاد پر یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو اس امر کا ادراک ہے کہ دنیا میں ٹی ٹوینٹی لیگ کروانے کا خیال پاکستان ہی نے روشناس کروایا تھا لیکن کچھ کرکٹ بورڈ کے سابقہ عملے کی غفلت اور کچھ ہمارے ملک کے داخلی امن و امان کے مسائل اور بالخصوص لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ ایک طرح سے پاکستان میں ناپید ہوگئی پاکستان سپر لیگ غالبا دنیا کی واحد ٹی ٹوینٹی لیگ ہے جس کے میزبان ملک کو یہ لیگ اپنے ملک میں منعقد کروانے کا موقع نہیں مل سکا ہے۔
اس کرکٹ لیگ کا ایک اور رخ پاکستانی قوم کا سنسنی اور جزبات کا چورن بیچتے زرد صحافت پر مبنی نیوز بلیٹن اور ٹاک شوز کے بجائے میچ دیکھنا اور اس پر مبنی پروگرامز دیکھنا تھا۔ اس کا مجموعی اثر پورے معاشرے پر پڑتا دکھائی دیا اور نتیجتا ہم نے فروری کے ماہ میں معاشرے میں ایک خوشگوار موڈ دیکھا۔ دہشت گردی کے عفریت کے ستائے معاشرے نے ایک بار پھر زندگی کی حلاوتوں اور رنگینیوں کو خوش آمدید کہا اور دنیا بھر کو پیغام دیا کہ ہم پاکستانی بھی زندگی کی رونقوں اور ہنگاموں سے پیار کرنے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں۔
یہ پیغام دینے کی ہمیں اشد ضرورت تھی کہ دنیا بھر میں اب اس پیغام کے بعد یہ بات تو طے ہوگئی کہ پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ ہوتے ہوئے اور لاتعداد مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود بلند حوصلہ اور پر عزم ہیں اور نفرت کے اندھیروں کو چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں رد کرتے ہیں۔ اس کرکٹ لیگ کا مثبت اثر ہمیں اپنی کرکٹ پر بھی واضح دکھائی دے رہا ہے۔ ڈومیسٹیک کرکٹ کے کھلاڑیوں کا بین الاقوامی ستاروں کے ساتھ کھیلنا یقینا ان کی کرکٹ کی صلاحیتوں اور استعداد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اور سر ویوین رچرڈز مکی آرتھر اور ڈین جانز جیسے کوچز کی ہماری علاقائی ٹیموں کے ساتھ کوچنگ ہمارے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں میں ایک نکھار لانے کا باعث بنے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اس لیگ کو پاکستان میں منعقد کرنے کے لیئے بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں فائنل میچ لاہور میں منعقد کروانے کا حکومتی فیصلہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ایک انتہائی دلیرانہ اقدام بھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردوں نے غیر ملکی قوتوں کی ایما پر پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور پاکستان میں پھر سے خوف و دہشت کے سائے پھیلنا شروع ہو گئے تھے اس وقت میں یہ فائنل میچ لاہور میں کروانے کا اعلان کرکے ریاست نے دہشت گردوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ بزدلانہ حملوں سے نہ تو ریاست پاکستان دہشت گردوں کے آگے جھکے گی اور نہ ہی پاکستانی۔
دہشت گردوں کا مقصد خوف و ہراس کی ایسی فضا قائم کرنا ہے جس کی موجودگی میں پاکستان میں نہ تو کھیل کے میدان آباد ہو سکیں اور نہ ہی بین الاقوامی انویسٹرز پاکستان کا رخ کرکے کاروبار کرنے کا سوچیں۔ اس مزموم مقصد کے حصول سے دہشت گردوں کو روکنے کا واحد طریقہ ریاست پاکستان کے پاس یہی بچتا تھا کہ تمام تر اندیشوں اور خطروں کے باوجود پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں منعقد کروائے۔
بہت سے ناقدین کے نزدیک یہ فائنل پاکستان میں منعقد کروانا مناسب نہیں اور یو ٹرن کے ماہر جناب عمران خان کے نزدیک یہ فائنل پاکستان میں کروانا پاگل پن ہے۔ یاد رہے یہ وہی ناقدین اور وہی عمران خان ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے دارلحکومت کو 126 دن یرغمال بنا کر رکھا تھا ملک کے شہروں کو بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نہ تو اس وقت انہیں لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کا کچھ خیال آیا اور نہ ہی یہ خیال آیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں کیسا جائے گا۔ شاید اپنی مایوسی اور ناکامی کے غم میں عمران خان اور ان کے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھی پاکستان کے بارے میں کچھ بھی اچھا دیکھنے بولنے اور سوچنے کی نعمت سے ہی محروم ہوچکے ہیں۔ لاہور میں اس کرکٹ لیگ کا کے فائنل کو منعقد کروانے کی ایک علامتی حیثیت ہے اور یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
لاہور میں فائنل منعقد ہوگا قزافی سٹیڈیم لاہور میں ہزاروں شائقین جب ہلہ گلہ کرتے کھلاڑیوں کو داد دیتے ہوئے لطف اندوز ہوں گے تو یہ پاکستانی عوام اور ریاست کا دہشت گردوں اور دشمنوں کو ایک پیغام ہوگا کہ ہم زندہ قوم ہیں اور حوصلہ مند ہیں۔ زخم دیتے ہیں لیکن مسکرانا نہیں بھولتے۔ تکلیف سہتے ہیں لیکن آگے بڑھتے ہیں اور دہشت کے اندھیروں کو زندگی کی روشنیوں کے سہارے مسترد کرتے ہیں۔ جنگوں میں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلے کام آتے ہیں اور پی ایس ایل کے فائنل میں پاکستانی قوم کا حوصلہ دشمنوں سمیت پوری دنیا کو دیکھنے کو ملے گا۔
دوسری جانب قذافی سٹیڈیم لاہور میں پرجوش تماشائیوں کے سامنے ایک دفعہ کھیلنے کے بعد خود بین الاقوامی کرکٹر بھی پاکستانیوں کے جزبے ولولے کی داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ویران کرکٹ گراونڈ پھر سے آباد ہو جائیں گے۔ نئی نسل کو پھر سے نئے ہیروز بھی میسر آئیں گے اور تفریح کے مواقع بھی، جو کہ معاشرے پر چھائے جمود کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فی الحال تو پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے کامیاب اور پر امن انعقاد کیلیے ڈھیروں دعائیں۔ اور حکومت پاکستان کو مبارکباد۔