ہم کس قدر بے رحمانہ اور منافقانہ سماج میں بس رہے ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں پیش آنے والے دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ پہلا واقعہ لاہور میں پیش آیا جہاں ایف آئی اے کے دفتر کی چوتھی منزل سے چھلانگ لگانے والے مسیحی نوجوان کی خبر کچھ دیر اخبارات کی خبروں کی اور ٹیلیویژن چینل کے ٹکرز کی زینت بنی اور غائب ہو گئی۔ ساجد مسیح کو ہسپتال لے جایا گیا اور معجزاتی طور پر زندہ بچ جانے کے بعد اس نے جو وڈیو بیان دیا اس کو دیکھ اور سن کر ندامت سے سر جھک گیا۔ ساجد مسیح کے کزن سلامت مسیح کو لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے توہین مذہب کے قانون کی دفعہ 295 C کے تحت حراست میں لیا تھا۔ سلامت مسیح پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک کے ایک گروہ پر گستاخانہ تصاویر شائع کی تھیں۔ شاہدرہ کے علاقے میں رہنے والے اس نوجوان نے توہین کا ارتکاب کیا یا نہیں اس کا فیصلہ قانون کرے گا۔ لیکن قانون کے رکھوالے جب بذات خود قانون کو ہاتھوں میں لیں تو ایک غریب انسان کیلئے انصاف کا حصول تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے۔
سلامت مسیح کے کزن ساجد کو ایف آئی نے تفتیش کے بہانے اپنے دفتر بلایا اس پر تشدد کیا اور پھر ساجد سے کہا گیا کہ وہ اپنے کزن سلامت مسیح کے ساتھ جنسی بدفعلی کا ارتکاب کرے۔ ساجد مسیح کے بیان کے مطابق اس نے ایف آئی اے کے اہلکاروں کی منتیں کی کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ یہ قبیح فعل انجام نہیں دے سکتا لیکن اس کی ایک بھی نہ سنی گئی اور پھر مجبورا اس نوجوان نے موقع پا کر چوتھی منزل سے چھلانگ لگا دی۔ دوسرا واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا جہاں پشتون لانگ مارچ کے فعال رکن اور نقیب الہ محسود کے دوست آفتاب محسود کو نامعلوم افراد نے تشدد کرنے کے بعد قتل کر دیا۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کا ابھی ماتم بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور بچہ اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھا۔ ہمیشہ کی طرح ایک ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہو گئی اورایک اور بے گناہ بچہ ان گنت تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ گو آفتاب محسود کے نامعلوم قاتلوں کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے لیکن انگلیاں انہی اداروں کی جانب اٹھ رہی ہیں جو اکثر و بیشتر شہریوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ساجد مسیح اور آفتاب محسود دو الگ شہروں اور دو الگ عقیدوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان دونوں کے ساتھ روا ہونے والا ظلم دراصل ریاستی اور سماجی ڈھانچے کے تاریک پہلووں کا غماز و عکاس ہے۔
ایک اقلیتی برادری کے نوجوان کو جس تذلیل کا سامنا پڑا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا سماج مجموعی طور پر شدت پسندی اور حیوانیت کو پسند کرتا ہے جبکہ آفتاب محسود کا قتل راو انوار کی پشت پر موجود مقتدر قوتوں کا ریاستی طاقت کو ایک جبر کی علامت کے طور پر استعمال کئیے جانے کی جانب اشارہ دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات کے بعد اگر اب بھی دنیا ہمیں شدت پسند اور دہشت گرد معاشرہ قرار نہیں دیتی تو یہ بیرونی دنیا کی وسیع القلبی ہے۔ وگرنہ ہم نے بطور معاشرہ اور بطور ریاست اپنے رویوں اور کرتوتوں سے اس بات کو تسلیم کروانے کیلئے کوئی کثر نہیں چھوڑی کہ ہم مزاجا پتھر کے دور کا بچ جانے والا وہ معاشرہ ہیں جہاں بقول جون ایلیا اکیسویں صدی آئی نہیں بلکہ زبردستی لائی گئی ہے۔ ایک جانب معاشرے میں اقلیتوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور دوسری جانب ریاستی طاقتیں تاک تاک کر ایسی آوازوں کو ہمیشہ کیلئے چپ کروا دیتی ہیں جو گونگوں کی بستی میں اذن گویائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ توہین مذہب کا نعرہ لگا کر اقلیتوں اور بے گناہوں کو درندگی اور بربریت کی بھینٹ چڑھانے والے اندھے جنونی یہ نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی سمجھ پاتے ہیں کہ مذہب یا مقدس ہستیوں کو خطرہ کبھی بھی نہ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی مذہب کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے کسی انسان کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
آفاقی معاملات کو چلانے والا اپنے پیغام اور اپنے محبوب کی حفاظت کرنا بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کے نام کو استعمال کر کے توہین مذہب توہین مقدس ہستیوں کی آڑ میں اپنی جنونیت کو انسانی لہو سے تسکین دینا کسی درندے کا کام ہو سکتا ہے انسان کا نہیں۔ ایسے تمام افراد جو اس ملک میں توہین مذہب کے نام پر قتل ہونے والے افراد کو مجرم اور انہیں قتل کرنے والے درندہ صفت انسانوں کو ہیرو سمجھتے ہیں دراصل وہ تمام لوگ ساجد مسیح اور مشعال خان جیسے واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ جب آپ کسی بھی جذباتی اور ذہنی طور پر اپاہج شخص کو صرف اس لیئے ہیرو بنا ڈالیں کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی بھی عدالتی فیصلے کی عدم موجودگی میں کسی بھی شخص کو توہین مذہب کے نام پر قتل کر ڈالا یا کسی بھی ایسے ماورائے عدالت اقدام کو درست سمجھے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خود معاملات میں فریق بن جائیں تو دراصل آپ اس ملک میں بسنے والے ایسے لاکھوں کڑوڑوں برین واشڈ انسانوں کو ایک طرح سے پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ عزت دولت اور شہرت کمانی ہے تو کسی بھی شخص جس پر توہین مذہب کا الزام لگا ہے اسے قتل کر ڈالو اور راتوں رات ہیرو بن جاؤ۔ ساجد مسیح کے ساتھ ہونے والے واقعے کا کارن دراصل وہ سوچ ہے جو اس وطن کے ہر دوسرے گھر میں پل رہی ہے اور جو دلیل اور مکالمے کی قوت کو رد کرتے ہوئے قانون اور ہتھیاروں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بات کرتی ہے۔ مقدس ہستیوں سے محبت کا ثبوت دوسرے انسانوں کو قتل کرنا یا ان کے ساتھ جنسی بدفعلی کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی دی گئی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے۔
دوسری جانب آفتاب محسود جیسے بچوں کا قتل اور لاتعداد ریاستی باشندوں کی جبری گمشدگیوں کو غداری کا شاخسانہ قرار دینے والی سوچ دراصل پس پشت قوتوں کو ایسے بے رحمانہ اقدامات کے جواز فراہم کرتے ہوئے انہیں مقدس گائے کا درجہ دلواتی ہے۔ ایسی مقدس گائے جس کو سو خون بھی معاف ہیں اور جو ریاست کو یرغمال بنائے اپنی تشریح کے مطابق غداری یا حب الوطنی کی اسناد تقسیم کرتے ہوئے باآسانی ریاست کے معاشی وسائل اور فکری استعداد پر اپنا تسلط بلا شرکت غیرے قائم رکھتی ہے۔ آفتاب محسود جیسے لاتعداد بچے تاریک راہوں میں بنا کسی جرم کے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اگر جبر کی بنا پر اور اپنے ہی شہریوں کو ماورائے عدالت قتل یا لاپتہ کرنے سے ریاست کی قوت اسے محفوظ مستقبل کی ضمانت سمجھتی ہے تو یہ غلطی پر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جبر کے دم پر کسی بھی صورت ریاست کو یکجا نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی زور زبردستی سے کسی ادارے سے محبت کروائی جا سکتی ہے۔ محب وطنی کا مطلب محض مقدس گائے نما اداروں سے پیار کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی مٹی سے محبت کرتے ہوئے ہر اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہوتا ہے جو وطن کے آنے والے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوں۔ سماج اور ریاست حاکم یا محکوم کے رشتے پر نہ تو پنپ پاتے ہیں اور نہ ہی قائم رہ پاتے ہیں۔ ساجد مسیح اور آفتاب محسود اس وقت سماجی و ریاستی ڈھانچے کی کمزور ہوتی بنیادوں کی جانب واضح اشارہ دے رہے ہیں اور اگر اب بھی ان اشاروں کو نہ سمجھا گیاتو پھر مستقبل میں ہم سب تاسف سے ہاتھ ملنے اور ٹھنڈی آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔