وطن عزیز میں جاری اقتدار کے توازن کی جنگ نے سب کو کچھ اس طرح سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ اس دوران بہت سے اہم موضوعات اوع بین الاقوامی واقعات نظروں ں سے اوجھل ہو چکے ہیں یا پس پشت چلے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک موضوع وزیر خارجہ خواجہ آصف کا امریکی دورہ ہے۔ خواجہ آصف نے ٹرمپ انتظامیہ اور پینٹاگون کو جس قدر سیدھا اور زبرست جواب دیا وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔
خواجہ آصف نے دلائل اور منطق کی بنیاد پر نہ صرف امریکہ کو یہ باور کروایا کہ طالبان بنانے میں امریکہ کا بھی ہاتھ تھابلکہ افغانستان میں امریکی اسلحے تک دہشت گردوں کی رسائی کو بھی ایک سوالیہ نشان قرار دیا۔ شاید ہی وطن عزیز میں پچھلی چند دہائیوں میں کوئی ایسا وزیر خارجہ گزرا ہے جس نے خواجہ آصف کی مانند نہ صرف تمام چبھتے ہوئے سوالات کا خندہ پیشانی سے جواب دیا ہو بلکہ واشنگٹن انتظامیہ سے الٹا سوالات طلب کیئے ہوں۔ اس اہم دورے کو چند مخصوص میڈیا گروپوں کی جانب سے نظر انداز کیا جانا انتہائی تشویش دہ اور تکلیف دہ امر ہے۔
وطن عزیز میں جاری اداروں کی آپسی جنگ ایک طرف لیکن جب آپ دیار غیر میں وطن کی نمائندگی کر رہے ہوں تو پھر وطن عزیز میں موجود تمام ریاستی ستونوں اور اداروں کو آپ کی پشت پناہی کرنی چائیے۔ خواجہ آصف کا یہ دورہ امریکہ ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا نہ صرف انہوں نے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اور اسلام آباد میں بڑھتی کشیدگی کو کم کرنا تھا بلکہ ساتھ میں ہی اس تاثر کو بھی زائل کرنا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کی کسی بھی محاذ پر معاونت کرتا ہے۔
خواجہ آصف نے سابقہ وزرائے خارجہ کی مانند حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجاے اس کا سامنا کیا اور ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں اور کردار کو بھی اجاگر کیا۔ اب آپ خواجہ آصف کا موازنہ سابقہ آمر اور مفرور جرنیل پرویز مشرف سے کیجئے۔
مفرور جرنیل پرویز مشرف کو اس کے دور اقتدار اور بام عروج میں واشنگٹن سے صرف ایک دھمکی آمیز فون کال آئی اور وہ بزدل آمر اس کال پر ہی ڈھیر ہوگیا اور امریکہ کی جنگ کو اپنے اوپر مسلط کروا بیٹھا۔ اسی طرح ضیاالحق ڈالرز کے عوض وطن عزیز کو روس اور امریکہ کی پراکسی جنگ کا میدان بنا بیٹھا۔ دوسری جانب شملہ معائدے کے تحت نوے ہزار فوجیوں کی رہائی ہو یا یمن میں سعودی عرب کے اصرار پر افواج نہ بھیجنے کا تلخ فیصلہ، یا پھر واشنگٹن کو جواب دینا کہ آپ بھی اہنی پالیسیوں پر نگاہ ڈالئے یہ تمام اقدام جمہوری ادوار اور منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہونے پائے۔
جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمہوریت بھلے ہی جتنی بھی کمزور ہو لیکن عوام کے ووٹوں کی طاقت اور پارلیمان کی پشت پناہی سے بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کر لیتی ہے جبکہ آمریت کتنی ہی مضبوط اور طاقتور ہی کیوں نہ ہو عوامی تائید کی محرومی کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹے بحران کا مقابلہ بھی نہیں کر پاتی۔ پرویز مشرف آمریت کا تاج اوڑھے واشنگٹن اور دہلی میں سر پر جام رکھ کر رقص کرتے ہوئے ان کےی انتظامیہ کو خوش کرنے اور اہنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کو مان لیا کرتا تھا جبکہ جمہوری نمائندے آج بھی خواجہ آصف کی مانند دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا موقف پیش کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ا
س دورے سےجہاں پاکستان کا دلیل پر مبنی موقف دنیا کے سامنے آیا ہے وہیں یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی ہے کہ فارن پالیسی بنانا اور چلانا عوام کے منتخب نمائندوں کا بنیادی حق ہے کیونکہ عوام کی تائید کی بدولت نہ صرف وہ ایک ٹھوس موقف اپنا سکتے ہیں بلکہ سیاسی کیمیاگری کو استعمال کرتے ہوئے بڑے سے بڑے بین الاقوامی دباو کو ٹال سکتے ہیں یا بحرانوں کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں جاری اداروں کی اقتدار پر گرفت کی جنگ کو ختم کیا جائے اور بھرپور یکسوئی کے ساتھ مل کر اندرونی و بیرونی محاذوں پر درپیش چیلنجز کا سامنا کیا جائے۔
خود نواز شریف کو بھی اس امر کا ادراک ہو جانا چائیے کہ وزارت خارجہ کے منصب پر انہیں خواجہ آصف جیسا بہترین اور قابل وزیر پہلے ہی تعینات کر دینا چائے تھا۔ جمہوریت میں اختیارات بانٹے جاتے ہیں ان پر قابض نہیں ہوا جاتا۔ امید ہے کہ نواز شریف نے بھی اس دورہ امریکہ سے یہ سبق ضرور سیکھا ہوگا۔ ان کی ٹیم میں مشاہد الہ خان، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق جیسے بے شمار قابل اور دلیر کوگ موجود ہیں جن کی صلاحیتوں کو مناسب پلیٹ فارمز پر استعمال کرکے جمہوریت اور وطن عزیز کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال پاکستان کا مقدمہ بھرپور انداز میں واشنگٹن میں ہیش کرنے اور اپنا موقف بھرہور انداز سے امریکہ کے آگے پیش کرنے پر۔