1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. زینب ایمان اور ہماری کھوکھلی سماجی اقدار‎

زینب ایمان اور ہماری کھوکھلی سماجی اقدار‎

زینب ایمان اپنے نام کی طرح خوبصورت ننھی سی تتلی تھی۔ آٹھ سالہ اس بچی کو قصور میں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے سڑک پر پھینک دیا گیا۔ وہ عمر جو تتلیوں اور جگنووں سے کھیلنے کی ہوتی ہے اور اس عمر میں ارد گرد بستے تمام افراد بچوں کو اپنے باپ اپنے بھائی جیسے لگتے ہیں۔ زینب گھر سے ٹیوشن سینٹر جانے کیلئے نکلی اور پھر اس کی لاش ہی گھر واپس آئی۔ قصور میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ پچھلے ایک سال میں زینب سمیت 12 کم سن بچیاں حیوانیت کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو چکی ہیں۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ نہ تو پنجاب حکومت کے کان پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ کسی این جی او کو توفیق ہوتی ہے کہ وہ زینب اور اس جیسی کئ بچیاں جو قصور کی دھرتی پر حیوانیت اور بربریت کی بدترین مثال کا نمونہ بن چکی ہہں ان کے حق میں کوئی آواز ہی اٹھائی جائے۔

زینب محض آٹھ برس کی بچی تھی۔ اس عمر میں زندگی تتلی کے رنگوں کی مانند حسین معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہ زندگی کاحسین ترین دور ہوتا ہے اس لیئے اسے بچپن کہتے ہیں۔ ضد کرو اور بات منوا لو چاہو تو اڑتے گگن کو چھو لو۔ زینب بھی شاید باقی بچوں کی مانند ایسا ہی سوچتی اور چاہتی ہو گی۔ لیکن پھر اس کا سامنا ہماری دنیا سے ہوا، اور اس چھ برس کی معصوم بچی کو معلوم ہوا کہ ہماری دنیا میں نہ تو رنگ ہیں نہ ہی خواب۔ یہ تو فقط منافقت کا لبادہ اوڑھے ایسی دنیا ہے جہاں آج بھی انسانوں اور انسانیت کے روپ میں چھپے بھیڑیے ہر آن شکار کو دپوچنے کی خاطر تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور جہاں آج بھی حیوانوں کا ہی فرمان چلتا ہے۔ زینب جیسی کئی بچیاں اکثر و بیشتر نہ جانے کتنے حیوانوں کی جنسی تسکین کے سامان کا باعث بنتی ہیں کتنے ہی تنازعات میں زندہ جلا دی جاتی ہیں۔ لیکن اس نام نہاد انسانی معاشرے پر نہ تو اس کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس طرح کی خبریں ہمیشہ کی طرح چند لمحات کیلئے ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز کی زینت بنتی ہیں۔ چند اخبارات کی سرخیوں کے طور پر کام آتی ہیں، اور پھر سب کچھ بھول بھال کے ٹرمپ کے متنازعہ بیانات اور ظالمانہ پالیسیوں کے متعلق شور و غل شروع ہو جاتا ہے۔ ٹرمپ متعصب ہے، ٹرمپ مسلمانوں سے خائف ہے، ٹرمپ پاکستان سے برا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ مغربی دنیا ہمارے معاشرے میں بے حیائی اور انتشار پھیلانا چاہتی ہے اور یہ شوروغل مچا کر اپنی معاشرتی کھوکھلی اور حیوانی اقداروں سے انتہائی آسانی سے چشم پوشی اختیار کر لی جاتی ہے۔

آپ کو اوریا مقبول جان جیسے شدت پسند بھی کڑوڑوں کی تعداد میں معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو جنسی زیادتی کا شکار خواتین کو اکثر و بیشتر ہمدردی کے بجائے مجرم ٹھہراتے ہوئے ان کے لباس یا اطوار کو اس زیادتی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اکثر و بیشتر عورت کو کہا جاتا ہے کہ اپنا آپ ڈھانپ کر رکھو تا کہ مردوں کو شہوانی لذت حاصل کرنے کی تحریک نہ پیدا ہو۔ جب معاشرے میں جنسی آسودگی کے خیالات جو کہ انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ایک ہیں ان کو بھی دبایا جاتا ہے تو نتیجتا جبلت تو نہیں مرتی لیکن چھپ چھپا کر جنسی تسکین حاصل کرنے کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے نفسیاتی مریض بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو کہیں بھی موقع نہ ملنے کے باعث کم سن بچوں اور بچیوں کو بھی اپنی جنسی تسکین کا سامان بنا ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی ہم پردوں اور برقعوں میں ڈھانپ دیں اور جنسی مریضوں کو کھلے عام دندنانے کی اجازت دے دیں؟ خدارا ثواب و جزا کے چکر سے نکل کر انسان کی بنیادی جبلتوں کو سمجھیئے اور اپنے بچوں اور بچیوں کو ان پر آگاہی دینے کے علاوہ اپنے معاشرے میں اس کے متعلق ایک صحت مند مکالمے کا آغاز کیجئے۔

شاید آئینہ دیکھ کر اپنے معاشرتی رویوں اور اقداروں کا مکروہ چہرہ دیکھنا بےحد مشکل کام ہے اسی لیئے کبھی بے حیائی، عریانی اور کبھی امریکہ اور دیگر مغربی معاشروں کی خامیوں پر آہ و بکار مچا کر ایک شور پیدا کیا جاتا ہے۔ جس میں زینب اور اس جیسی دیگر بچیوں کی آوازیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور شاید اسی لئیے بچیوں اور بچوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کی آگاہی کی مربوط اور منظم مہم چلانے کے بجائے کوئی ارباب اختیار ان واقعات کا شوبازی والا نوٹس لے لیتا ہے، تو کوئی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کرتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کے مترداف محض باتوں اور دعوؤں تک محدود رہتا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل ہماری ان منافقانہ اقدار اور سوچ کی پیداوار ہے جو بچوں بچیوں یا خواتین سے جنسی زیادتی کو کہیں نہ کہیں آج بھی قبولیت کی سند عطا کرتی ہیں دراصل یہ ایک ایسی گھٹیا اور فرسودہ سوچ ہے جو محض اپنی انا اپنی برتری اور اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کیلئے وطن عزیز کے طول و عرض میں پنپ رہی ہے۔ اس سوچ کی آبیاری سکول کالج مدارس مساجد حتی کہ گھروں تک میں ہوتی ہے۔ جہاں عورت کو کمزور ثابت کرتے ہوئے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ عورت چولہا جلانے بچے پالنے اور مرد کی ہم بستری کے علاوہ زندگی میں کچھ اور ارمان نہیں رکھ سکتی وگرنہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور خاندان یا برادری کی غیرت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

حال ہی میں پیش آنے والا یہ واقعہ دراصل سماجی رویوں کے حیوانی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک ایسا حیوانی رویہ جو کسی بھی بچی یا عورت کو قہقہہ لگاتا دیکھے خوش دیکھے تو فورا اس بچی کو آوارہ بد چلن کہتے ہوئے غیرت کے نام پر ایک خطرہ قرار دے دیتا ہے جہاں کوئی بھی معصوم بچہ اگر نیکر پہنے باہر کھیلنے کو نکلے تو وہ بھی غیرت مندوں کی شہوانی لذت بھڑکانے کا مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ ۔ یہ شدت پسندانہ رویہ اور سوچ دراصل "کمزوری" کا شکار معاشرے کی پہچان ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں مرد آج تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غیرت یا مردانگی کا تولق محض عضو تناسل یا شہوانی لذتوں کی تسکین کا نام نہیں ہے اور نہ ہی مردانگی غصہ دکھانے کا نام ہے۔ وہ تمام عوامل جو بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال کا باعث بنتے ہیں ان کے متعلق نہ صرف صحت مندانہ مباحثوں اور بحث کی ضرورت ہے بلکہ ملک میں موجود قوانین کو بھی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس طرح کے گھناؤنے فعل کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔

بصورت دیگر جو معاشرہ زینب جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کم سے کم بچوں کو ہماری اس سفاک دنیا جو کہ ایک جنگل کی مانند ہے اس کے متعلق آگاہی ضرور فراہم کرنی چائیے اور زینب جیسی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی یہ بتا دینا چائیے کہ ہماری بنائی ہوئی اس خود ساختہ دنیا اور معاشرے سے زیادہ محفوظ جنگل ہوتا ہے۔ زینب جیسی ننھی پریوں کو جنسی تسکین کا سامان بنانے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس گھٹیا اور فرسودہ سوچ سے بھی جان چھڑوانا بے حد ضروری ہے جو بچہ بازی اور بچیوں کی عصمت دری کو محض حادثہ یا انفرادی جرم قرار دیتی ہے۔ کارپٹ کے نیچے گند چھپانے کے مصداق ان واقعات سے نگاہیں چرانے کے بجائے ان کے عوامل اور ان کے تدارک پر ایک مثبت بحث کا آغاز ہونا چائیے۔ ننھی زینب کے خواب تو اس کی زندگی کے ساتھ کہیں دفن ہو گئے لیکن اپنے معاشرے میں موجودخوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والی کڑوڑوں بچیوں اور بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کیلئے اب معاشرے میں غیرت کے تصور کو تبدیل کرتے ہوئے بنیادی معاملات اور جبلتوں کے متعلق صیح مقام اور وقت پر بحث و آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ پورن سرچ میں اول نمبر، مرغی اور اندھی وہیل مچلی سے جنسی تسکین حاصل کرنے جیسے واقعات، بچہ بازی میں اقوام عالم میں سرفہرست قوم اور اب ننھی بچیوں کو بھی جنسی تسکین کا نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ہمارے معاشرے میں اجتماعی طور پر نفسیاتی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔


عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔