ہم اپنے ہر مسلئے کو عالمی سازش قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ اس بیانیے کی بدولت سب کی جان چھوٹ جاتی ہے اور معمولات زندگی اپنی ڈھب پر چلنے لگتے ہیں۔ کمزور دل لوگوں کا اب پاکستان میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ہر روز ہی کوئی نا کوئی دل کودھچکا لگانے والی خبر میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہے یا پھر ہمارے معاشرے میں کہیں کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے کہ ہمارا میڈیا اس خبر کے آخری سرے تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ایک کام ہے جو کسی زمانے میں صرف خفیہ ادارے کیا کرتے تھے مگر اب تو ہر کام میں میڈیا کی مداخلت ضروری سمجھی جانے لگی ہے۔ جو شائد کسی حد ٹھیک بھی ہے۔
گزشتہ کل (بروز پیر) حبیب اللہ نامی ایک گیارہ سالہ بچے نے اسکول کی چھت سے چھلانگ لگائی بجلی کی تاروں سے الجھتا جھلستا ہوا معصوم زمین پر گرا اور ہسپتال میں کچھ گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔ معلومات کیمطابق جو کہ آپ لوگوں کے علم میں بھی آچکا ہوگا کہ متوفی حبیب اللہ شوگر کا مریض تھا اوراسے دورے وغیرہ بھی پڑتے تھے۔ خودکشی کو حتمی فیصلہ قرار دیا جاچکا ہے، جب حتمی فیصلہ کردیا گیا ہے کہ خود کشی کی گئی ہے تو پھر لفظ پر اسرار کیوں استعمال کیا جارہاہے؟ لیکن معلوم نہیں کیوں دل و دماغ اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ گیارہ سالہ حبیب اللہ نے خود کشی کی ہے۔ اس سانحہ کو تسلیم نا کرپانے کی سب سے بڑی وجہ حبیب اللہ کا کم عمرہونا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے معاشی حالات اس خود کشی کے پیچھے کار فرما ہوں والدین حبیب اللہ کی خواہشات پوری نہیں کر پاتے ہوں۔
جس دور سے ہم گزر رہے ہیں کسی بھی قسم کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری پولیس کے پاس کرنے کیلئے اور بہت سارے کام ہیں اسلئے وہ شائدایسے کسی مسلئے میں الجھ کر وقت برباد نہیں کرنا چاہتی یا پھر مک مکا والا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔
ان امکانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس خودکشی یا موت کا سبب ہوسکتے ہیں سب سے پہلے گھریلو حالات اور ماحول زیر بحث آتے ہیں، کیا والدین اپنے بچے کی بیماری سے پریشان تھے اور اس پریشانی کا اظہار بچے کے سامنے کرتے تھے یا پھر مالی حالات اس بیماری سے لڑنے کی وجہ تھے (گوکہ یہ بیماری کوئی ایسی بھی نہیں کہ مالی حالات کا بہت مضبوط ہونا ضروری ہو)۔ کہیں حبیب اللہ کو موبائل تو نہیں چاہئے تھا جو کہ اسکے والدین اسے نہیں دینا چاہتے ہوں یا پھر اس سے کوئی ملتی جلتی خواہش بھی اس سنگین حادثے کا سبب ہوسکتی ہے۔ معاشرے میں جنسی جن بھی گھوم رہے ہیں کہیں ایسے کسی غلط فعل کا مرتکب ہوجانا بھی اس جانب دھکیل سکتا ہے۔ اسکے دوستوں کے معمولات زندگی کا بھی جائزہ لینا ہوگا جن میں کوئی تو ایسا ہوگا جو حبیب اللہ کو قریب سے جانتا ہوگا اور اس حادثے تک پہنچنے کا سبب جانتا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے حبیب اللہ اسکول نا آنا چاہتا ہو والدین نے زبردستی بھیج دیا ہو۔ حبیب اللہ مذہبی جنونیت کا بھی نشانہ بن سکتا ہے۔ پچھلے دنوں چلنے والے بلیو وہیل گیم کی نظر بھی تو ہوسکتا ہے۔ ابھی ان تمام پہلوؤں پر غور کرنا باقی ہے۔ اکیسویں صدی میں ایٹمی طاقت مملکت پاکستان میں ایک گیارہ سالہ بچہ خود کشی کر لیتا ہے اور اسکے ادارے قلیل وقت میں خود کشی کو ہی حتمی قرار دے دیتے ہیں، خدارا ایسا نا کریں۔
اب آتے ہیں معاشرے کی جانب جو مجھ سے اور آپ سے مل کر بنا ہے، معلوم نہیں کتنے حبیب اللہ ابھی اور اس معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ ہم سب کو مل بیٹھ کر سد باب کرنا پڑے گاان عوامل کو سامنے لانا پڑے گا جن کی وجہ سے کوئی گیارہ سالہ بچہ زندگی جیسی قیمتی چیز تیاگ دیتا ہے، اسکول جانے والے حبیب اللہ کی کھیلنے کودنے کی عمر تھی دوستیاں کرنے کی عمر تھی اور کوئی بڑا نام بنانے کا سوچنے کی عمر تھی اسے خودکشی جیسی بلا نے کہاں سے آگھیرا ہے۔
ہم سب کو اپنے اپنے گھروں میں، محلوں، اسکولوں میں اور پارکوں میں رہنے والے حبیب اللہ کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں کوئی بھی عمل سماجی میڈیا کے توسط سے عام ہوجاتا ہے۔ آج تقریباً حبیب اللہ کی عمر کے بچے سماجی میڈیا پرفعال ہیں۔ ایک نا ایک حبیب اللہ تو ہم سب کے ساتھ ہے۔ ایسے مسائل کے دائمی حل کیلئے بہت ضروری ہے کہ والدین اپنے اور بچوں کے درمیان حائل دیوار کو گرادیں، بچوں کو ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سامنے کہنے اور سننے کی اجازت دیں بلکہ بڑوں کے درمیان رہتے ہوئے کس طرح سے سیکھنا اور سمجھنا ہے یہ بھی بتائیں۔ بے وجہ بچوں پر زور زبردستی سے پرہیز کریں اپنی بات منوانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ انکی بات کو سنیں، سمجھیں اور مانیں۔ خصوصی طور پر بڑھتے ہوئے بچوں پر دھیان ایسے رکھیں کہ انہیں اس بات کا احساس نا ہونے دیں کہ ان پر خصوصی نظر رکھی جا رہی ہے یا انکے معاملات والدین کے علم میں ہیں۔ وہ کہاں تک جاتے ہیں آپ انہیں باتوں باتوں میں سمجھادیں، کوشش کریں انکی نفسیات کا مطالعہ کریں اور پھر وہی بات کہ یہ مطالعہ اس طرح کریں کہ انہیں احساس نا ہوکہ انکی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے، بچوں کو اپنے ساتھ گھر کے کاموں میں لگا کر رکھنے کی کوشش کریں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزار سکیں اور وہ تمام باتیں جو انہیں کہیں باہر کرنی ہیں ہم سے ہی کر لیں اور ان کا دل باہر جانے کو ہی نا چاہے۔ بچوں کی پرورش قدرت کی جانب سے والدین کی آزمائش ہے اور اس آزمائش میں کامیابی والدین کا تحمل اور برداشت ہی دلا سکتا ہے ورنہ بچوں کی پرورش تو ہوہی جائے گی، بہت اچھی تعلیم بھی حاصل کرلینگے لیکن ایک نا ختم ہونے والی خلیج والدین اور بچوں کے درمیان ہمیشہ کیلئے حمائل ہوجائے گی جسے پاٹنے کی بچوں میں سکت نہیں ہوگی اور والدین ہمت نہیں کرینگے۔ کسی پر الزام تراشی سے کہیں بہتر ہے کہ برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ان عوامل سے معاشرے کو پاک کریں جن کی وجہ سے حبیب اللہ نے اپنی جان دے دی۔ آئیں ہم سب مل کر اب کسی حبیب اللہ کو خود کشی کا سوچنے بھی نہیں دینگے۔