کہتے ہیں زندگی سفر ہے لیکن یہ ایسا سفر ہے جو ہمسفر کے ٹہرجانے سے بھی نہیں ٹہرتا اسکا کام چلتے رہنا ہے، یہ عاری اور سفاک بھی ہے اسکو بس گزرنے سے غرض ہے آپ چلیں یا رکیں یہ گھسیٹنا شروع کردیتا ہے، زندگی اگر سفر ہے تو یہ آسان نہیں ہے۔ زندگی دوطرح سے پروان چڑھتی ہے ایک زندگی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتی ہے اور ایک زندگی تجربوں کی بنیاد پر ترتیب پاتی ہے، تجربے پہلے دن سے ہی روندنا شروع کردیتے ہیں(یہ تحریر لفظوں میں ہولناک محسوس ہورہی ہوگی لیکن حقیقت میں تو اس سے کہیں زیادہ درد ناک ہوتی ہے)۔ دونوں طرز پر اپنی مرضی نہیں چلتی، دونوں ہی محتاجی کا شکار ہوتی ہیں اب اسے قسمت کے گلے باندھ دیں۔ کسی کو پکڑنے کیلئے انگلی مل گئی اور کون تجربوں کے گرم کڑہاوے میں ڈال دیا گیا۔ سوچنے کی بات ہے فیصلے وقت نے کرنے تھے تو پھر جدوجہد اور کوشش کی کیا ضرورت تھی ؟ انسان اگر ٹہرا رہتا اور وقت کا انتظار کرتا رہتا توانسان اکیسویں صدی میں تو پہنچ جاتا لیکن کیا چاند پر پہنچ سکتا تھا۔ بات پھر معجزوں تک چلی جاتی ہے کہ ہاں چاند پر پہنچ جاتا لیکن قدرت کے اشرف المخلوقات بنانے کی بھی تو کچھ وجوہات رکھی ہونگی، عقل شریف دینے کا بھی تو کوئی عذر ہوگا، بینائی اور طاقت کی بھی تو کوئی وجہ ہوگی۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے کم اور تجربوں کی بھینٹ چڑھنے والے زیادہ کیوں ہیں، دائمی ذمہ داری تجربوں والے کے ذمہ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کے قدرت نے سب کچھ مسلط کردیا ہے کہیں کہیں قدرت نے انتخاب کاحق بھی دیا ہے، اس حق کو استعمال کرنے کیلئے بینائی کی ضرورت ہوتی ہے، صرف ہر چمکتی چیز کوسوناسمجھنے والی بینائی کی نہیں کیونکہ بینائی بصارت اور بصیرت پر مبنی ہوتی ہے، انگلی پکڑ کر چلنے والا بصارت سے کام لیتا ہے جبکہ تجربے کی گود میں پلنے والا بصیرت قائل ہوجاتا ہے۔ سوائے اللہ رب العزت کے کسی کو بھی حتمی بات کا اختیار نہیں دیا گیا۔
زندگی ہمیشہ کسی نا کسی سگنل (اشارے) پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ اشارہ ملے تو آگے بڑھے۔ جبکہ کچھ لوگ ایک اشارہ بند ہونے پردوسرے کھلے ہوئے اشارے سے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں شائد انہیں نئے راستوں کو کھوجنے کی چاہ ہوتی ہے یا پھر وہ یہ جانتے ہیں کہ اس اشارے کا بند ملنا اس بات کا عندیہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستہ بدل لو، راستہ بدلنے میں عافیت بھی مل سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثریت اس بات پر بہت دھیان دیتی ہے کہ کیادرمیانی عمر کے اس حصے میں ایسا کرنا ٹھیک ہے یعنی بدلاؤ کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوسکینگے تو جسم خود بخود تبدیلی کی جانب پیش قدمی شروع کردے گا۔
یہ الفاظ لکھتے ہوئے ہمیشہ دل دکھتا ہے کہ پاکستان اپنے وجود میں آنے سے لیکر اب تک مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان مشکلا ت کی ایک بڑی وجہ ہمارا پڑوسی ملک جو کہ اب تک ہر ممکن مشکلات پیدا کئے جا رہا ہے، بدقسمتی سے دوسرے پڑوسی بھی اسکے ساتھ مل کر ہماری مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ عوامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو مستحکم کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے گھر میں رہتے ہوئے گھر کو نقصان پہنچا رہے ہیں جن کا بنیادی مقصدپاک سر زمین سے زیادہ ذاتی مفادات ہیں جن کی خاطر وہ اپنے وطن عزیزکے بارے میں سوچنے اور سمجھنے سے آج تک قاصر ہیں اور ایک مسلسل ناسور بن کر ملک سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ملک کے تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کا بدعنوان ثابت ہونے اور نااہل قرار پانا غیر ملکی سطح پر بھی باعث تہذیق بنا ہوا ہے لیکن مجال ہے کہ لوگ قدر ت کی عطاء کردہ عقل استعمال کر کے کوئی حق اور ناحق میں تفریق کرسکیں۔
پاکستان انتہائی تکلیف سے دوچار ہے اور مسلسل اسے ایسے ہی حالات کی زد میں رکھا گیا ہے اور رکھنے والے بھی اپنے ہی لوگ رہے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران مستحکم حکمت عملی مرتب دیں اور اس پر عمل درآمد کیلئے اوپر سے نیچے تک کے عملے کو لگا دیں اور ان پر بھرپور نظر رکھی جائے تو کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان دنیا کی نا صرف ترقی یافتہ بلکہ تہذیب یافتہ مملکت بھی بن کر دنیا کے نقشے پر دوبارہ سے ابھرے گی اور ایسی ابھرے گی کے آس پاس والوں کی زبانیں گنگ ہو کر رہ جائینگی۔ لیکن یہ ایک مسلسل جدوجہد کا کام ہے یہ ایکتا کا کام ہے بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ، پاکستان کو آپکے اس ووٹ کی ضرورت ہے جو ایک عاقل و بالغ ہونے کیساتھ ساتھ ملک سے مخلص اور وطن میں رہنے والے، جن کے علاج معالجے پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتے ہوں، جن کے بچے سرکاری نا صحیح پاکستان کے اسکولوں میں پڑھتے ہوں، جن کے اثاثے ہر پاکستانی جانتاہو، تمام اثاثے پاکستان میں ہی ہوں اور سوائے پاکستان کے کسی اور ملک کے شہری نا ہوں۔
پاکستان کے پاکستانیوں پر بہت سارے احسانات ہیں لیکن پاکستان آج ہم سب سے ایک ایسے ا حسان کا تکازہ کر رہا ہے جس کا تعلق بھی ہم سے جڑا ہوا ہے، جوکہ ہمارا قیمتی ووٹ ہے۔ ووٹ دینا آپ پر فرض ہے بلکل کسی گواہی کی طرح لیکن اس فرض کو نبہاتے وقت ان باتوں کو یاد رکھنا اور جانچنا آپ کے لئے یہ ثابت کرے گا کہ آپ بینا ہو یا کہ نابینا۔ پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات کو جمہوریت کے تسلسل کو روکنے کیلئے ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی فضاء چل پڑی ہے دشمن پھر کسی اپنے کے عزائم کی تکمیل کیلئے متحرک ہوتا دیکھائی دے رہا ہے لیکن ہماری پاک افواج عزم، حوصلے اور بہادری کی وہ مثالیں قائم کرتے آرہے ہیں کہ دشمن کو اپنے کسی بھی طرح کے ناپاک عزائم میں کامیابی نہیں مل سکے گی۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ مسلسل جدوجہد اور نا ترک کرنے کی وجہ سے پاکستان بہت حد تک بیدار ہوچکا ہے تو آئیں اور اپنے بیدار ہونے کا عملی ثبوت دیں۔ سوچ اور سمجھ لیں کہ صحیح فیصلہ ہم ہی کریں تو اچھا ہوگا۔