ہم کتنے ہی پیشہ ور ہوجائیں، عملی زندگی سے جذبات کو الگ نہیں کر سکتے۔ یہ جذبات نا ہوں تو معاملات اتنے نا بگڑیں جتنے کے بگڑتے جا رہے ہیں۔ ہم جرم کرنے والے پر جذباتی ہوکر سر عام تشدد کی حد کردیتے ہیں اور ان ہی جذبات کی رو میں بہہ کر ایک سفاک مجرم کو سزا وار ٹھرائے جانے پر اداس ہوجاتے ہیں۔ ہم دانستہ طور پر عقل پر جذبات کو غالب آنے دیتے ہیں، سب جانتے بوجھتے پردہ پوشی کرتے چلے جاتے ہیں۔
دراصل ہم سب ہی مراعات کے طلبگار ہیں، ہم سب ہی قطاروں سے گھبراتے ہیں، ہم سب ہی چاہتے ہیں کہ کوئی ہم سے پوچھے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں، ہم سب ہی اپنی مرضی کی چیز اپنی مرضی کی قیمتوں میں خریدنا چاہتے ہیں، ہم سب ہی چاہتے ہیں صرف ہمارے خاندان والے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ہماری مرضی کی محتاج ہو۔ کچھ لوگ تو بلکل ایسا ہی چاہتے ہیں اور اپنے اختیارات کی زد میں آنے والوں پر اسکا بھرپور اطلاق کرتے ہیں، انکی یہ خام خیالی ہوتی ہے کہ اللہ نے صرف انہیں ہی اپنا نائب بنایا ہے اور صرف وہ ہی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہیں۔ یہ لوگ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں جب انسان غاروں میں رہتا تھا اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی جاگیر کا تعین کرتا تھا، اس جاگیر میں رہنے کیلئے پناہ لینے کیلئے اسکی اجازت درکار تھی یا یوں کہیں کہ اطاعت درکار تھی۔ وقت نے تیزی سے گزرنا شروع کیا حالات نے تیزی سے بدلنا شروع کیا اتنی تیزی دیکھائی کے سارا منظر گرد آلود ہوتا چلا گیا اور سب کچھ چھپتا چلا گیا۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں جنگیں بھی ہوئیں، قحط سالی بھی ہوئی، سمندری طوفان بھی آئے اور طرح طرح کی آفات کا سامنا دنیا کو رہا اور ابھی بھی ہے دوسری طرف انسان نے پہیہ دریافت کیا، پہیہ گھومتا چلا گیا چلتے چلتے چاند تک جا پہنچا۔ بھاگ دوڑ میں کھونے پانے کا سلسلہ تو چلتا رہتا ہے۔ لفظ کھونے میں اداسی پنہا ہے اور پانے میں مسرت کا احساس چھپا ہے۔
تقسیم ہوتی دنیا سمٹتی گئی، سرحدوں کا تعین کرلیا گیا، حدود کی پاسداری کی بیعت لے لی گئی۔ وہ جو صدیوں کی گرد تھی چھٹنا شروع ہوگئی ملکوں نے اپنے وسائل پر انحصار کرنا شروع کیا اور ترقی کی شاہرہ پر گامزن ہوگئے۔ پاکستان تحریکِ آزادی سے تشکیل میں آنے کے عمل تک نامعلوم قیمتی جانوں کی تعداد اور جانے کیا کیا کھو چکا تھا۔ ۱۹۴۷ میں پاکستان کی سرحدوں کا تعین ہوا۔ دشمن کی سازشوں سے پاکستان اپنے ساتھ بے تحاشہ مسائل کی آماجگاہ بن گیا، ابھی ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ ساتھ آئی ہوئی سازشوں بے اپنا کمال دکھایا اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ پاکستان اور پاکستانی عوام دونوں ہی پہلے دن سے محصور رہے ہیں ایک ایسی مخلوق کے جسے خلائی بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ تو دیکھائی نہیں دیتی لیکن پاکستان کو محصور رکھنے والی مخلوق میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے یا پھر کالے شیشوں والی گاڑیوں سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی عوام اپنی آنکھوں سے آج تک وہی دھول نہیں ہٹا سکی تھی کہ پھر بھاگ دوڑ کی زد میں آگئی کبھی اقدار کی لڑائیاں ہوتی رہیں تو کبھی فرقہ واریت، تو کبھی لسانیت کی جنگ چھڑ گئی اور اب تو پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کی جنگ میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ اس سارے ماحول کا فائدہ کالی شیشوں کی گاڑیوں والوں نے خوب اٹھایا اور بدعنوانی کی داستانیں رقم کرڈالیں، یہ وہ لوگ تھے جن کو دشمن نے براہ راست تو پاکستان کیخلاف استعمال نہیں کیا لیکن ان کے لئے ایسے حالات بنائے رکھے کہ یہ لوگ ملک کی معیشت و سالمیت کو غیر مستحکم کرتے رہیں اور یہ بے ضمیر لوگ ایسا کرتے چلے گئے۔ آج بچے بھوک سے مر رہے ہیں، لوگ علاج کی سہولیات میسر نا ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں، پانی ختم ہونے والا ہے غر ض یہ کہ ان لوگوں کے دلوں میں ابھی بھی رحم کا بیج نہیں پھوٹ رہا۔
اب پاکستان کی عوام نے اپنے حکمران بدلے ہیں۔ آنکھوں میں دھول جھونکنا ان بدعنوانوں کی پرانی عادت رہی ہے جو تبدیل ہو ہی نہیں سکتی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ حکمران، فوج اور عدالیہ ہم آواز ہوکر بدعنوانوں کے پیچھے پل پڑے ہیں۔ اب انکی دال گلتی نہیں دیکھائی دے رہی لیکن پاکستانی عوام کو جذبات سے ہٹ کر ملک کے مفادات کی خاطر ہر برے انسان سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں بھی اب گرد کے چھٹ جانے کا وقت آن پہنچاہے۔ آہستہ آہستہ دکھنا شروع ہوا ہے جب کہ گرد چھٹ جائے گی چور ڈاکو پکڑے جائینگے اور کیفرکردار کو پہنچے گے تب کہیں جا کر پاکستان ترقی کی جانب جانے والی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔ بے جا کا شور مچانے والوں کو تھوڑا سا صبر سے کام لینا چاہئے کہ ذرا گرد چھٹ جانے دیں سب کچھ صاف صاف نظر آجائے گا۔ پاکستان بھی اپنی سرحدوں کے اندر ترقی کی نئی راہیں بنانے کیلئے تیار ہے بس پاکستان کی عوام کا ساتھ درکار ہے۔