پاکستان مسلسل مسائل در مسائل میں ڈول رہا ہے اور کوئی بھی مسئلہ دوسرے مسئلے سے وزن میں کم نہیں ہے، یہ کہہ کر بھی جان چھڑائی جاتی رہی ہے کہ بھلا ہمارا کیا لینا دینا، یہ وہ جملہ ہے جس کی مرہون منت ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک خداداد پاکستان دیوالیہ ہونے کے درپے ہے۔ شائد پاکستان پہلے کتنی ہی دفعہ دیوالیہ ہوتا رہا ہوگا لیکن پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کی وجہ سے باقاعدہ ایسا نہیں ہو سکا۔
بدقسمتی سے ہم نے کبھی بھی سبق نہیں سیکھا ہم وہی کرتے گئے جو ہمارے آباؤ اجداد کرتے آ رہے تھے یعنی بھلا ہمارا ان سب باتوں سے کیا لینا دینا۔ اللہ نے پاکستان کی لاج رکھی ہوئی ہے جس کی گواہی یہ ہے کہ پاکستان اتنے بدترین رہنماؤں کے ہوتے ہوئے بھی آج ایٹمی طاقت بنا ہوا ہے اور کسی بیرونی طاقت کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ قدرت نے عوام کو کئی بار مواقع فراہم کئے کہ وہ اس بدبو دار نظام کو بدل لے۔
اب نظام کو بدلنے کیلئے سب سے پہلے علم کی فراوانی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ہمارے نوجوان ان ملکی رہنماؤں کی تقلید سے آزادی حاصل کریں اور ایک ایسے نظام کی عملداری کیلئے جدوجہد کریں جس کی بدولت انصاف کا بول بالا ہو سکے اور نبی پاک ﷺ کے آخری خطبے کو بطور اقتدار کا منشور بنایا جائے۔ یہاں یہ بات لکھنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں گو کہ اس سے پیشتر بھی کئی مضامین میں یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کا آخری خطبہ ہر مسلمان پر واجب قرار پائے کہ وہ نہ صرف اسے یاد کرے بلکہ اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور جو کوئی اس سے بھٹکے اسے ریاست قرار واقع سزا دے۔
ایک بہت ہی خوش آئند عمل، آج ہمارے تعلیمی اداروں میں قران پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے ساتھ ہی ہمارے پیارے نبی ﷺ کے آخری خطبے کو بھی باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہم مسلمان اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے والے رہمناؤں کی تربیت کریں نہ کہ بھیڑ چال چلنے والے انسان کہ جنہیں دنیا کی آسائشوں کے حصول کیلئے علم سے رغبت پیدا کی جاتی رہی ہے۔
ایک طرف تو عام انتخابات کرانے پر زور دیا جا رہا جو کہ تاحال کارگر ثابت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اس کے برعکس گزشتہ دنوں جو تازہ پیشرفت ہوئی ہے پنجاب اسمبلی کا تحلیل ہونا اور بہت ممکن ہے آج بلوچستان اسمبلی بھی تحلیل ہو جائے جسکے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجودہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے جا رہی ہے۔
بہت ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کا سفر یہیں پر تمام ہو جائے اسکے بعد ایک بار پھر تحریک انصاف اقتدار میں آ جاتی ہے تو کیا عمران خان صاحب اسمبلی تحلیل کریں گے یا اقتدار میں رہتے ہوئے صدارتی نظام نافذ کرینگے اور پاکستان کے پہلے بااختیار صدارتی نظام کے صدر تعینات ہو جائینگے؟ گو کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے لیکن عمران خان صاحب کی آئینی ٹیم یقیناََ اس پر بھرپور کام سرانجام دے رہی ہوگی۔
سندھ پر وفاق کی توجہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ انکے اتحادیوں کی حکومت اس صوبے میں ہے اور یہاں بھی حالات سنگین ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے فیصلے تاریخی ہونگے کہ وہ کس طرف اور کس نظرئیے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی ناگیزیر ہو چکی ہے کیونکہ موجودہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اب اس نظام میں چلنے والوں کو بھی اس میں سے تعفن اٹھتا دیکھائی دے رہا ہے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات التواء کی ایک طویل انتظار کے بعد اچانک سے ہو گئے، صبح دی گئی انتخابات کی تاریخ تھی اور شہر کراچی میں بلکہ سندھ بھر میں گمان کیا جا رہا تھا کہ یہ انتخابات بھی رات کے کسی پہر میں ملتوی کر دئے جائیں گے۔ شائد اسی گمان کو لے کر متحدہ قومی مومنٹ اور اسکے اتحادیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا یہ بالکل ویسا ہی ہوا جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی تھی۔
متحدہ قومی مومنٹ کو باقاعدہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت بند گلی میں لایا گیا اور شہر کراچی کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعت کو دودھ میں سے مکھی کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا گو کہ بظاہر دیکھائی دے رہا تھا کہ اس مرتبہ کراچی والے کوئی نیا تجربہ کرنے کا ٹھان چکے ہیں۔ یہاں متحدہ کی سیاسی حکمت عملی ابھی واضح ہونا باقی ہے بہت ممکن ہے کہ بڑے میدان کیلئے چھوٹے میدان کی قربانی دی گئی ہو لیکن سیاست میں سارے میدان ہی بڑے ہوتے ہیں۔
یہاں ایک قابل ذکر بات اور بھی ہے کہ کراچی کی عوام نے حسب سابق سے ہٹ کر ووٹ ڈالنے میں انتہائی کنجوسی کا مظاہرہ کیا اور بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلے جس کی ایک وجہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے انتخابات کے بائیکات کو دے رہے ہیں۔ متحدہ کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے یقیناََ یہ سوچ لیا ہوگا کہ اب کراچی انہیں مل جائے گا اور وہ اپنا مئیر لائینگے انکے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب جماعتِ اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے مل کر کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے کا فیصلہ کر لیا۔
بظاہر یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن کیا جماعتِ اسلامی کے مئیر صاحب جو کہ یقیناََ نعیم الرحمٰن صاحب ہونگے یہ کہتے نہیں سنائی دینگے کہ ہمیں فنڈز نہیں دئیے جا رہے ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا کیونکہ اپنی بلدیاتی مہم میں حافظ نعیم الرحمٰن صاحب، سابقہ مئیر کراچی وسیم اختر صاحب کے یہ الفاظ دہراتے رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات پہلے بھی سامنے تھیں اب اور زیادہ کھل کر سامنے آ رہی ہیں اس لئے ہم نے انہیں کراچی کے بلدیاتی نہیں بدنیتی انتخابات کا نام دینا زیادہ مناسب سمجھا ہے۔
کراچی اپنے نئے مئیر کو خوش آمدید کہنے کیلئے بے تاب ہے۔ ساری رنجیشیں اور سیاسی مباحثے بالائے طاق رکھتے ہوئے کراچی شہر کی تعمیرِ نو کا کام شروع ہونا چاہئے اور اس عمل میں سب کو مدعو کیا جائے کہ آئیں کراچی کو واپس روشنیوں کا شہر عروس البلاد کراچی بنائیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کو ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد، بہت سارے دوسرے پاکستانیوں کی طرح ہمیں بھی آپ کی شخصیت اور کاردگی پر بھرپور اعتماد ہے۔
کہ آپ تمام اہلیانِ کراچی کے دلوں کی آواز سنیں گے اور کراچی کے کونے کونے سے ہر قسم کی گندگی کا صفایا کرینگے، کراچی میں ہونے والی چھوٹی بڑی قانون کی دھجیاں اڑاتی وارداتوں پر قابو پانے کی اصلاحات لے کر آئینگے آپ ایک انتہائی مضبوط اور منظم شخصیت کے مالک ہیں اللہ نے آپ کے کاندھوں پر وہ ذمہ داری ڈال دی ہے جس سے لوگ بھاگتے ہوئے دیکھائی دیئے گئے ہیں۔ کراچی والے اور شہر کراچی آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے کو تیار ہے۔