جس زبان میں سوچیں احساسات و جذبات ترتیب دیتی ہیں انہیں اسی زبان میں تشہیر کیا جائے تو بہترین ہوتا ہے۔ قدرت نے ایسے ذہین لوگ بھی پیدا کئے جنہیں مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہوتا ہے لیکن یقین سے لکھ رہا ہوں کہ انکے سوچنے کی زبان ایک ہی ہوگی(یا وہ جس معاشرے میں رہتے ہونگے ویسی ہوگی)۔ سوچوں پر مختلف حالات و وقعات اثر انداز ہوتے ہیں یعنی قید میں بیٹھا شخص اور ایک آزاد فضاء میں سانس لینے والا شخص کبھی بھی ایک طرح سے نہیں سوچ سکتے۔ مضمون کا عنوان ہمارے ملک کی ایک انتہائی خوبصورت زبان پنجابی میں تحریر کیا گیا ہے اور یہ خوبصور ت جملہ قدرت سے حقیقی عشق رکھنے والے بندے کی صوفیانہ شاعری کا ہے۔ مختلف صوفیاء کرام کی پنجابی زبان کی شاعری اتنی سادہ اور سہل ہونے کیساتھ بہت ہی سبق آموز بھی ہے دیگر زبانیں بولنے والے بھی ان پیغامات سے مستفید ہوتے آرہے ہیں۔ اس تصوف سے لبریز شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ بہت ہی سادہ سے الفاظ میں قدرت کے گہرے رازوں پر سے پردے اٹھاتی چلی جاتی ہے۔
قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا ہے۔ اشرف المخلوقات کو کھوجیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ انسان کی قدرت نے کیا اہمیت متعین کی ہے۔ اشرف المخلوقات کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ دیگرلا تعداد تخلیقات کی رہنمائی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیا جائے کہ گھر کا وہ بڑا بنا کر رکھا ہے جوکے انتظام میں بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں تاکہ وہ کسی غلطی کے مرتکب نا ہوجائیں اور کسی قسم کا نقصان نا کربیٹھیں۔
صوفیاء کرام کی طرح اگر ہر انسان اپنی حیثیت کو سمجھ لیتا تو آج اس آگ میں جلتی دنیا کا حال کچھ اور ہی ہوتا۔ انسان نے اپنی حیثیت جانے بغیر اپنے آپ کو صرف اور صرف زراور زمین کے چکر میں الجھا لیا اور بچتے بچتے بھی الجھتا ہی چلا گیا۔ موت اور رزق کب کہاں سے ملے کسی کو کچھ نہیں پتہ ہر فرد اس کے حصول کی تگ و دو میں مصروف عمل ہے، قدرت کی بہترین تخلیق دیگر تخلیقات میں محو ہوگئی اور یہ بھولتی ہی چلی گئی کہ دراصل کائنات کی اہم ترین تخلیق خودحضرتِ انسان ہی ہے۔ انفرادی انسان کواپنی تخلیق میں نقص محسوس ہوئے، اسے دوسرے انسان اچھے لگنے لگے لیکن حقیقت شناسی سے بے خبر رہا اور غور کرنا بھولتا چلا گیا۔ انسان کو ہی معلوم نہیں کہ اسکی تخلیق کا مقصد کیا تھا، کیا مقصد تھا کہ قدرت نے اپنی فرشتوں کی خلقت کو اس بشر کو سجدہ کرنے کا حکم دے دیا۔ یہاں سے تکبر کا عنصر انسان میں اسکی پیدائش سے پیدا ہوگیا۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب اٹھا لیجئے انسان کی دنیا میں آمد اور رخصت قدرت کے ہاتھ میں ہے اسی لئے ان میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ بھوک اپنا وجود لئے ہوئے تھی تبھی تو ابلیس کو موقع ملا کہ وہ آدم کو جنت سے بے دخل کروانے میں کامیاب ہوا۔ اس بات کا تو تعین ہوگیا کہ انسان کا سب سے بڑا مسلۂ بھوک ہے وہ اس بھوک کو مٹانے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتا۔
جرم جہاں معاشرے کے عدم توازن کی وجہ سے پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے تو ان میں بھوک بھی ایک وجہ ہے جو مجرم بناتی ہے۔ انسان کی ابتدائی محنت بھوک کو مٹانے کی کوشش ہوگی جس کیلئے اس نے بھاگ دوڑ بھی کی ہوگی اور پھر قدرت کے سکھائے ہوئے طریقے کیمطابق زمین کو جوتا ہوگا جس میں سے اجناس کے ساتھ ساتھ پھل پھول اور بوٹے بھی نکلنا شروع ہوگیا تھا۔ تجسس بھی بڑا، تحقیق بھی بڑی، آسانیاں بھی ہوتی چلی گئیں اور چھوٹے چھوٹے معاشرے ترتیب پانے لگے دنیا آباد ہوتے ہوتے آج کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے، اس عمل میں انسانوں کی کتنی بھیڑ کام میں آچکی کوئی تخمینہ لگا ہی نہیں سکتا۔ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی بھوک تمام تر آسائشوں اور آسانیوں کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جا رہی ہے۔
انسان اس بھوک سے نجات پانے کیلئے روز صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور سارا دن محنت مشقت کر کے اپنے گھروالوں کیلئے بھوک مٹانے کا بندوبست کرتا ہے، اس بندوبست سے نجات مل جائے تو انسان آسائشوں کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا ہے اور یہ ایک ایسی دوڑ ہے کہ جو اس گھڑے پر پہنچا کر ختم ہوتی ہے جہاں سارے اپنے پرائے مل کر انسان کو چھوڑ کر آتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں انسان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا، آخر وہ کیا وجہ تھی کے اللہ رب العزت نے اپنی سب سے اہم تخلیق سے ایک نئی تخلیق کو سجدہ کروایا تھا۔ اس طویل بحث میں دل پر نمی سی رہی اس صوفی شاعر ؒ کے دل کا کیا عالم ہوگا کہ وہ جانتے تھے کہ انسان کا وجود کس مقصد کیلئے تخلیق پایا اور یہ انسان اس بھوک کو مٹانے میں لگ گیا جس کو مٹانے کا اللہ نے خود واعدہ کر رکھا ہے۔
یہ بحث اور بھی طویل ہوسکتی ہے اس حوالے پر بہت سی دلیلیں دی جاسکتی ہیں لیکن عنوان میں لکھے مصرعے میں کی جانے والی بات پھر سے نہیں کی جاسکتی، اللہ اپنے دوستوں (ولیوں) سے وہ کہلوادیتا ہے جو وہ ہم کم عقلوں کو سمجھانا چاہتا ہے لیکن ہم تو خود کو عقل کل سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں، ہمارا رب ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ ہمیں بھوکا چھوڑ ہی نہیں سکتا لیکن ہم ہیں کہ سمجھ کر ہی نہیں دیتے دنیا کی اس دلدل میں اترتے جاتے ہیں ایک روٹی کی تلاش میں اتنا دوڑتے ہیں کہ ہماری سانس بند ہونے کو پہنچ جاتی ہے۔ اس مصرعے کو سمجھیں تو شائد کچھ زندگی آسان ہوجائے کہ روٹی بندہ کھا جاندی اے!