ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ رات کتنی ہی طویل کیوں نا ہو اسکا انجام طلوع سحرپر ہی ہوتا ہے قدرت نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی ؑ پیدا کیا۔ جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ پاکستان کو کسی تاریک رات کا سامنا ہے یا پھر یہاں کوئی فرعون بر سر اقتدار ہیں۔ یہ دونوں مثالیں بطور اصطلاح استعمال کی جاتی ہیں، یعنی ان مثالوں سے مشابہہ یا قریب ترین حالات و واقعات یہ کہنے پر اکساتے ہیں اور زبانوں پر یہ کہاوتیں عام ہوتی ہیں۔ ادھر ادھر گھومتے پھرتے لوگوں کی زبانوں سے گزشتہ دوروز سے ایسے ہی کلمات سماع خراشی کررہے ہیں۔
مورخین کا لکھا ایک طرف، جس کا دل چاہے مان لے جس کا نا چاہے نا مانے لیکن مسلمانوں کیلئے ایک ایسی مستند ماضی، حال اورمستقبل پر مبنی کتاب موجود ہے جس کا ایک ایک حروف قابل احترام ہونے کیساتھ ساتھ تاریخ کے حوالے سے بھی مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ اللہ تعالی نے کائناتوں کی تخلیق کی ہے وہ جانتا ہے کہ دنیا میں فتنہ پھیلانے والے دوسری کتابوں میں ترمیم کرنے والے اس مقدس ترین نسخہ کیمیاء پر بھی اپنا زور چلانے کی کوشش کرینگے، شائد ایک یہ وجہ بھی رہی ہوگی کہ قران پاک کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ رکھی ہے۔ اللہ کی ذمہ داری پر یقین کی مثال ہمارے پیار ے نبی ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب نے کیا خوب واضح کی جب ابرہا نامی بادشاہ ہاتھیوں کا لشکرلے کرخانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے نکلا تو حضرت عبدالمطلب جو کہ خانہ کعبہ کے متولی تھے یہ کہتے ہوئے وہاں سے اپنا سامان سمیٹتے ہوئے نکل گئے کہ جس کا گھر ہے وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا اور اللہ رب العزت کیا خوب حفاظت کرنے والے ہیں اور اس حفاظت کا قصہ سورۃ فیل کی صورت میں قران کریم کا حصہ بنادیا۔ ملک پاکستان کا حصول بھی ایک ایسے ہی خواب پر یقین کی صورت میں ممکن ہوا تھا۔ حضرت علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور محمد علی جناح نے اس خواب کی تعمیر کی اوران گرانقدر لوگوں پر یقین رکھنے والوں نے اس تعمیر کیلئے اپنا خون تک دینے سے گریز نہیں کیا۔ یقین بھی قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔
پاکستانی کرکٹ کے جنون کی حد تک دیوانے ہیں یہ ایک ایسا کھیل ہے جس پر پوری قوم متفق ہوکر جیت کا جشن مناتی اور ہارنے پر ایک زبان ہوکر تنقید بھی کرتی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنی کارگردگی کے جوہر دیکھا رہی ہے اور پاکستانی قوم انکی کارگردگی سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ پاکستان نے ۱۹۹۲ میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا جوکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد ہوا تھا۔ ایک مختصر سا واقع جوعالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے ایک اہم کھلاڑی نے سنایا (یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سب نے سن رکھا ہو)، پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا پہنچی اور عالمی مقابلوں کے میچز شروع ہوئے تو شروعات سے لیکر آخیر سے کچھ پہلے تک پاکستان کی ٹیم کوئی حوصلہ افزاء کارگردگی دیکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی اور ایک بہت ہی معمولی ٹیم کی مانند کھیل پیش کرر ہی تھی، لیکن بتانے والے کھلاڑی (رمیز راجہ) نے بتایا کہ ہم جب ہار کر یا بری کارگردگی دیکھا کر ڈریسنگ روم میں واپس آتے تو ہماراکپتان جوکہ عمران خان تھے کہتے کہ کوئی بات نہیں یہ عالمی کپ ہم ہی جیتینگے (یعنی ہم نے جیتنا ہے)جس پر ڈریسنگ روم کے حقیقت پسند کھلاڑی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے اور آپسی سرگوشیوں میں اس بات کا تذکرہ کرتے کہ ہار اور خراب کارگردگی نے کپتان عمران خان کے دماغ پر اثر ڈالاہے۔ جیسے تیسے سیمی فائنل میں پہنچے تو میچ سے قبل انضمام الحق کی طبعیت ناساز تھی لیکن کپتان نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے کہا کہ کل کا میچ (سیمی فائنل) انضمام الحق جتائے گا (بقول انضمام کے وہ بھول گیا کہ وہ بیمار ہے)اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ پاکستان نے ایک ناقابل شکست ٹیم کو ناصرف شکست سے دوچار کیا بلکہ انضمام الحق نے اس جیت کا سہرا اپنے سر سجایااور پاکستان کی وہ ٹیم جو کپتان کی ذہنی کیفیت پر شک کر رہی تھی عالمی کپ جیت چکی تھی۔ یہ کیسا یقین تھاکہ پاکستان عالمی کپ جیت چکا تھا۔
عمران خان نے پاکستان میں جدید سہولیات سے آراستہ ایک کینسر ہسپتال بنانے کاتہیہ کیا اور اس کی تعمیر کا اعلان کیا (جسکی کی وجہ اب تو دنیا جانتی ہے)ایک انتھک بھاگ دوڑ ملک و بیرون ملک چندہ جمع کرنا، عمران خان نے کرکٹ کا میدان تو چھوڑ دیا تھا لیکن وہ لگن اور آخری گیند تک لڑنے اور لڑانے کی صلاحیت نہیں چھوڑی تھی۔ ہسپتال کا خواب سن کر بھی عمران خان کے کچھ دوستوں نے وہی کہا تھا جو رمیز راجہ نے بتایا کہ کپتان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ کینسر ہسپتال تعمیر ہوچکا ہے اور پاکستان میں کینسر کے مریضوں کیلئے اپنی نوعیت کا واحد ہسپتال ہے۔ اب اس ہسپتال کی شاخیں دوسرے صوبوں میں بھی کھولنے کیلئے کام جاری ہے۔ یقین کی ایک اور اعلی مثال قائم کی گئی۔ اب عمران خان کو اپنے یقین پر جو کہ اللہ پر ہے بہت مان ہوچکا تھا انہوں نے سیاسی بساط میں چھلانگ لگادی۔
پاکستان کی سیاست میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور ان سے وابسطہ بڑے بڑے نام اور ناموں سے میڈیا ہاؤسز گونجتے رہتے تھے اور کبھی نا کئے گئے کارنامے سناتے رہتے تھے۔ عمران خان نے ملک میں انصاف کی بحالی کیلئے، عوام کی قسمت بدلنے کیلئے، برابرکی عزت دلانے کیلئے، وی آئی پی کلچر اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کیلئے ایک سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی اور ایک دفعہ پھر عمران خان کی ذہنی کیفیت پر شک کیا جانے لگا (لوگ ابھی تک اس یقین تک نہیں پہنچ پائے )۔ اس خراب ذہنی کیفیت والے شخص نے سیاسی برج ہلائے نہیں گرا دئے جو سب کے سب بدعنوانی اور عوام کا خون چوس چوس کر بنائے گئے تھے۔ آج دنیا گواہ ہے کہ پاکستان میں ایک خاموش انقلاب آچکا ہے۔ انصاف بلاتفریق ہونا شروع ہوچکا ہے احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے چھوٹے بڑے جتنے بھی بدعنوان ہیں جو اس با ت پر ہنسا کرتے تھے کہ ہمیں کون پکڑ سکتا ہے اب چھپتے پھر رہے ہیں لوگوں کی ضمانتیں ضبط کی جارہی ہیں۔ دراصل عوام ایسا چاہتی تھی انہیں ایک قیادت کی ضرورت تھی جوکہ چوراور بدعنوان نا ہوجس کے ذاتی کاروباری مفادات نا ہوں۔ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حقیقی معنوں سے واقف ہو جو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہواور دنیا میں بولی جانے والی زبانوں سے زیادہ اپنی قومی زبان کو اہمیت دینے کا عزم رکھتا ہو۔ یہ طے ہے کہ قدرت نے جب کسی سے کوئی کام لینا ہوتا ہے اور اسے عظیم بنانا ہوتا ہے تو وہ چن لیتی ہے اور اس شخص کو عام سے خاص بنادیتی ہے جس کا پتا بعد میں چلتا ہے کہ اسکا وہ کام بھی جو کوئی اور کر رہا تھا تو وہ خراب ہو رہا تھا لیکن جب اس چنے ہوئے بندے نے کئے تو وہی کام ناصرف ٹھیک ٹھیرایا گیا بلکہ پذیرائی بھی ملنا شروع ہوگئی۔
کیا یہ ممکن تھا کہ نواز شریف کا احتساب ہوگا یا اس احتساب کا نتیجہ بھی نکلے گا، کیا آپ اب یہ نہیں سوچ رہے کہ سندھ میں کی گئیں بدعنوانیوں سے بھی بہت جلد پردہ اٹھنے والا ہے۔ کیا قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا یقین کیساتھ مثبت استعمال ناممکن کو ممکن بنانے کیلئے بہت ضروری ہے مگر اس سے پیشتر اس بات کو سمجھ لینا کہ یقین میں کھوٹ نہیں آنا چاہئے اور جو یہ بات سمجھ جائے گا وہ پھر پلٹ کر واپس نہیں آئے گا۔ آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے کیاعمران خان کی تگ و دو کے بغیر یہ ممکن ہوسکتا تھا۔ یہ وہی ادارے ہیں جو ہمیشہ سے موجود تھے لیکن انہوں نے کام اب کرنا شروع کیا ہے ان اداروں کے پرزوں میں بدعنوانی کے نوٹ پھنسے ہوئے تھے اب وہ نوٹ نکل رہے ہیں تو یہ ادارے آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ میں یہ جملہ جذباتی طور پر رقم نہیں کر رہا ہوں بلکہ ایک سرسری سا عبوری تجزیہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا ہے کہ عمران خان ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور جدوجہد بھی ہو جو صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیوں کی ترقی سے وابسطہ ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جو شروع ہوجائے تو نا ممکن کو ممکن بنا کر اگلی جدوجہد کیلئے کمر کس لیتی ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کیا ایسا ممکن تھا کہ تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کو سزا سنائی گئی ہو اور وہ دیار غیر میں بھی سکون سے نا ہوں۔ جن لوگوں کے کارنامے ڈھکے چھپے تھے ان پر سے پردے ہٹائے جا رہے ہیں اور اب وہ لوگ ان ہی پردوں میں اپنے منہ چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اب کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ پاکستان پر سے آسیب ذدہ تاریکی کے سائے چھٹتے دیکھائی دے رہے ہیں پرنور سورج کی کرنے محسوس کی جارہی ہیں، فرعونیت کے دعویدار ان اندھیروں کے ساتھ مٹتے جا رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ یہ قدرت کا عمل ہے کہ جو جیسا کرتا ہے اسے ایک دن اسکا جواب دینا پڑتا ہے آج سب کے سامنے آرہا ہے کہ کس نے کیا کیاتھا اور کون کیا کررہا ہے۔ آنے والے انتخابات میں بھی اگر عوام نے اپنی عقل و شعور کا ساتھ دیا تو پاکستان میں ووٹ سے انقلاب آجائے گا۔ انشاء اللہ۔