ایسا کیوں ہے کہ ہر بات کو ہر مسئلے کو سیاسی رنگ دیا جائے اور اس بات کو سمجھنے سے سوا ہوکر اس بات سے مختلف تنازعات کو جنم دیا جائے اور پھر اس پر لکھنے والے اپنا ذہن اوراپنی لکھنے کی توانائی خرچ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ مسئلہ گھمبیر ہوکر رہے جائے اور پھر اسکی جزیات میں جانے کی کوئی کوشش بھی نا کرے۔ پتہ نہیں کیوں ہم چھوٹی چھوٹی باتیں ہوں یا بیماریاں دھیان ہی نہیں دیتے پھر جب یہ باتیں یہ بیماریاں کینسر بن جاتی ہیں تو سینہ کوبی کرتے بھاگتے پھرتے ہیں۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ان بنیادی اہم ضروریات پر جن کی بدولت ہم اور ہمارے معاشرتی مزاج متزلزل ہوتے چلے جا رہے ہیں کس طرح سے دھیان دیں اور کیا سد باب کریں۔ آج اس بات پر تو خوب شور مچایا جارہا ہے، یہاں تک کہ اہم ترین خبر بن کر نشر ہورہی ہے کہ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ڈالر آسمان کو چھونے کیلئے چھلانگیں مار رہا ہے روپے کی قدر گرتی ہی چلی جا رہی ہے، حصص کی لین دین کا مرکز (اسٹاک ایکسچینج)میں مندی کا رجحان جیسے کوئی دل کا مریض مصنوعی تنفس (وینٹیلٹر) کے آلے پر منتقل ہونے جا رہا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسائل بہت بڑے ہوچکے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ان مسائل سے نبردآزما ہونے کہ کیا سد باب کئے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو کسی بھی قسم کے مسئلے کے رونما ہوتے ہی اسے حل کرنے کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے چاہے اسکے لئے ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں ہی کیوں نا ایک اضافی باب بڑھانا پڑے۔
پانی کی طرح قدرت کی جانب سے فراہم کردہ کسی بھی نعمت کا بے رحم طریقے سے استعمال جسے نعمت کی ناقدری سمجھا جانا چاہئے، قدرت کی فراہم کردہ نعمتوں پر انسان کو شکر گزار ہونا چاہئے اور ان نعمتوں کی قدر کرنی چاہئے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا نا ہی شکر گزاری ہے اور نا ہی نعمتوں کی قدر کی جارہی ہے۔ آخر قدرت اپنی چیزوں کی ناقدری کہاں تک برداشت کرسکتی ہے، اس لئے نعمتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ایسی نعمت کا قدرت کی طرف سے سلسلہ بند کردیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر پانی کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے انتہائی ناقدری کی جاتی رہی ہے اور حالات کے ڈرانے کے باوجود کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ ہم نے دیگر مسائل کی طرح پانی کے مسئلے کو بھی چل چلاؤ والے مزاج کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر حکام بالا پانی کے حوالے سے کوئی قابل تعریف اقدامات کرتے بھی ہیں تو ہم پانی کے اسراف سے باز نہیں آتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے ہر مسئلے کوچل چلاؤ مزاج کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ بے یقینی نے ایسا جکڑا ہے کہ اب یہ چل چلاؤ ہمارے معاشرے کا اہم ترین جز بن چکا ہے۔ کام کی نوعیت ذاتی ہو یا پھر کاروباری اس چل چلاؤ کو بہترین سہارا سمجھا جاتا ہے۔
ہم اپنے لوگوں سے محبت و عقید ت نہیں رکھتے ہمیں درآمد شدہ چیزوں سے محبت اور عقیدت دونوں ہی ہیں۔ ہمیں اپنوں سے محبت انکے جانے کے بعد ہوتی ہے یا تو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوجائیں یا پھر وہ پاکستان چھوڑ کر دنیا کے کسی اور کونے میں گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔ ہم بہت یاد کرتے ہیں۔ ابھی اخبار میں ایک خبرپر نظر پڑی کہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز معیشت جانتے تھے، مطلب آپکی سمجھ آگیا ہوگا۔ یعنی جب وہ بر سرِاقتدار رہے توسوائے انکی مخالفت کے اور دوسراکوئی کام نہیں کیا گیا۔
بہت سارے ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل ہمارے آس پاس جنم لے رہے ہوتے ہیں جنہیں ہم نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں جنہیں فوری طور پر حل کر لیا جائے تو یہ مسائل وقت گزرنے کیساتھ ہمارے سامنے آژدھا بن کر نمودار نا ہوں اور پھر ہمیں منہ چھپانے کیلئے ادھر ادھر بھاگنا نا پڑے۔ جس چیز کی کوشش سب سے زیادہ کی جانی چاہئے وہ یہ کہ ہمارے روئیے اپنے مسائل کے حل کیلئے مخلص ہوجائیں، ہمیں سمجھ آجانی چاہئے کہ کون ہمارے مسائل حل کرنے کیلئے سیاست کررہا ہے یا پھر کون مسائل پر سیاست کر رہا ہے۔ ہم ان لوگوں کا ساتھ دیں جو ہمارے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ وقت اور حالات کا تقاضا نہیں ہے کہ اہل محلہ و علاقہ مل کر چھوٹے چھوٹے کام باہمی تعاون سے کرلیں، محلے میں صاحبِ حیثیت لوگ جو کچھ تھوڑا بہت خرچہ کر کہ دیرینہ مسئلے سے جان چھوڑانے میں مدد کرسکتے ہیں آگے بڑھیں اور ان مسائل سے ناصرف نجات حاصل کریں بلکہ اہل محلہ کو بھی بچائیں، آخر کب تک حکومتوں اور اداروں پر بیٹھ کر نقظہ چینی کرتے رہینگے اور انہی کی راہ دیکھتے رہینگے۔ کچھ وقت کیلئے پاکستان کے ہر فرد کوکسی نا کسی طرح اپنا عملی کردار اور مالی حصہ ملک کی ترقی میں ڈالنا ہوگا(حسب توفیق)۔ کچھ وقت کیلئے بیجا تنقید بند کرنا پڑے گی۔ معاشرے کو تہذیب یافتہ بنانے میں، میں اور آپ آگے بڑھینگے تو ہماری آنے والی نسلیں ترقی یافتہ ہونے کا احساس کر سکیں گی۔ کوئی بھی مسئلہ کسی فردِ واحد کا نہیں ہے یہ مسئلہ صرف عمران خان یا آصف علی زرداری یا اعلی عدلیہ یا نواز شریف کا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پاکستانی قوم کا ہے قوم ایک ہوگی تو مسائل سے بھرپور طریقے سے نمبرد آزما ہوسکیں گے۔
مسجدِ نبوی کی تعمیر میں ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لگائی تھیں اور یہ مثال قائم کی کہ جہاں تک ممکن ہو نا صرف اپنا کام اپنے ہاتھ سے کیا جائے بلکہ اجتماعی کاموں میں بھی اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈالا جائے، کیونکہ فرد ہی معاشرے کی اکائی ہے۔ ہم نے مسجدوں کو صرف عبادگاہ کی حد تک محدود کردیا ہے جب کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہمارے نبی ﷺ نے دین و دنیا کے مسائل حل کئے بلکہ ریاست مدینہ کہ امور بھی چلائے، ایک ہم ہیں کہ جلد سے جلد نماز ختم کر کے اپنے دنیاوی کام کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں، آج کل تو ایک ہی محلے میں رہنے والے ایک دوسرے کو جانتے نہیں ہیں، مساجد میں بھی ایسے دیکھائی دیتے ہیں جیسے کسی دوسرے شہر سے بطور مہمان علاقے میں آئے ہوئے ہوں۔ علاقے کے مکینوں کو چاہئے کہ وہ مختلف امور کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیں جیسے صفائی ستھرائی کے حوالے سے، پانی کی تقسیم کے حوالے سے، سڑک، پارک اور لائبریریوں کے حوالے سے، یہ کمیٹیاں اپنے مخصوص کام کو تندہی سے سرانجام دیں کوئی شک نہیں آہستہ آہستہ ہر علاقہ جنت نظیر بن جائے گا، صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ سب اپنی اپنی معاشرتی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے نبھائیں۔ ہمیں اس غیر یقینی کی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم نے اگر خود سے ہاتھ پیر نہیں مارے تو اس غیر یقینی کی دلدل میں دھنستے چلے جائینگے اور تاریخ کی تاریکی میں ہمیشہ کی طرح گم ہوجائینگے جیسے کہ ہم سے پہلے بھی انگنت انسان ہوچکے ہیں۔ روشنی ہمارا انتظار کر رہی ہے ہمیں اندھیروں سے خود ہی نکلنا ہوگا۔