حرکت زندگی کی علامت ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ حرکتیں کر کر کے برکتیں اتنی جمع کرلیں کہ انہیں سنبھالنے کیلئے سرزمین پاکستان کم پڑ گئی، اس کے بعد اگر ان برکتوں کو ملک سے باہر نا منتقل کرتے تو کیا کرتے؟ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی کچھ کرنا چاہے تو اسے کرنے نہیں دیا جاتا اور کوئی کچھ نا کرے تو اس کے نہ کرنے پر واویلا مچایا جاتا ہے۔ اب اس حرکت اور برکت کے چکر میں انفرادی اور اجتماعی کا فرق کہیں گم ہوگیا اور گم ہوا تو اجتماعیت کا تصور۔ پورے ملک کے معاملات اس طرح سے چلائے جاتے رہے جیسے خاندانی مسائل ہوں۔ یہ انفرادیت کا نشہ ایسا سر چڑھا کہ سب کچھ بھلا دیا۔ بچوں کی لڑائی کا جواز اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اس نے ایسا کیا تھا تو میں نے بھی ایسا کردیا یعنی غلط اور صحیح کا کوئی پیمانہ نہیں ہے پیمانہ ہے تو مفاد کا، سامنے والے کی جو ضرورت تھی دراصل میری ضرورت بھی وہی تھی جب میں نے دیکھا کہ وہ کس طرح سے اپنی ضرورت پوری کر رہا ہے تو میں نے بھی موقع ملتے اپنی ضرورت بھی پوری کر ڈالی۔ یعنی انفرادی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آگیا کیوں کہ کسی نے پوچھا نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو تو اپنے کرنے کو تقویت ملی اور پھر بتدریج ویسا کرنا اپنا حق سمجھ لیا۔ اقتدار کے ایوانوں سے ایسے چمٹے رہے کہ کوئی کچھ پوچھنے کی جرات نہیں کرسکا۔
بدعنوانی نے بہت سارے روپ دھارے اور ہر ادارے کے ساتھ دیمک کی شکل اختیار کر کے لگ گئی۔ دنیا میں پاکستان کی پہچان بنانے والے ادارے اس بدعنوانی کی دیمک کے نظر ہوگئے اور آج یہی ادارے دنیا بھر میں پاکستان کی تضحیک کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان بدعنوانی کی دلدل جیسا دیکھائی دے رہا ہے، جہاں پیر رکھیں دھنستے ہی جا رہے ہیں، اب اس دلدل سے اس ارض پاک کو نکالنے کیلئے کچھ انتہائی اور سنگین اقدامات نا کئے گئے تو یہ سارے کا سارا ملک اس دلدل کی نظر ہوجائے گا۔ اب اگر کوئی صحیح کام کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسکا ہاتھ سختی سے پکڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ہر صاحب حیثیت اور صاحب اقتدار اپنے آپ میں ایک بہت ہی اہم چیز سمجھا جاتا ہے جس کیلئے کوئی لائن نہیں ہوتی۔
موجودہ حکومت جس نے پچھلی حکومت اور اس سے پچھلی حکومت میں باقاعدہ حزب اختلاف کا کردارتو نہیں ادا کیا تھا لیکن ان کا موقف دونوں حکومتوں سے یہی تھا کا بدعنوانی کی تحقیقات کروائی جائیں اور یہ تحقیقات ہر ممکن شفاف طریقے سے کروائی جائیں۔ جس کو بظاہر بر سر اقتدار جماعتوں نے کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی اور نام نہاد عملی اقدامات کرنے کی سفارشات پیش کرتے رہے اور اقتدار کا وقت پورا کرتے رہے۔ شائد ملک کے سیاسی محققین کا خیال تھا کہ یہ بدعنوانی کیخلاف آواز اٹھانے والے کبھی اقتدار تک رسائی حاصل ہی نہیں کرسکیں گے اور انکی سوچوں کی بنیاد پر جدی پشتی سیاسی خانوادے اپنی انا کی جنگ لڑتے رہے اور اپنی بدعنوانیوں کی فہرست کو طول دیتے چلے گئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حق رہنے کیلئے ہے اور باطل مٹنے کیلئے ہے۔ بظاہر تو معلوم نہیں اس احتساب کے عمل کو کیا کچھ کہا جا رہا ہے لیکن یہ بھی ایک معرکہ ہے حق اور باطل کے درمیان، اور سب سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا بنیادی نکتہ یا منشور ہی بدعنوانی کیخلاف جنگ تھا۔ ایک عام تاثر یہ تھا کہ چھوٹے موٹے آلائے کار پکڑ لئے جائینگے اور دیکھا دیا جائے گا کہ بدعنوانی کیخلاف کام جاری ہے، حکومت وقت نے اس عمومی تاثر کو یکسر غلط ثابت کردیا اور بڑوں بڑوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں ہیں۔ ملک میں کاروباری افراد کیلئے عدم اطمینان کی فضا قائم کی جارہی ہے جبکہ اسکے برعکس انتہائی صاف و شفاف آلودگی سے پاک آب و ہوا کاروبار کو فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اس کوشش کی خوبصورتی یہ ہے کہ فوج، عدلیہ اور حکومت تینوں ایک ہی سمت میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور تینوں کا مقصد بھی واضح دیکھائی دے رہا ہے۔
ہر پاکستانی بخوبی اس امر سے واقف ہے کہ بدعنوانی کینسر بن کر پاکستان کو کمزور سے کمزور کرتی چلی جا رہی ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہر پاکستانی پاکستان کو جو کہ اسکا ہمارا گھر ہے کمزور کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا چلا جا ر ہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے پاکستان کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ کینسر کا ہسپتال دیا، یہ ہسپتال کیوں بنا اور کیسے بنا پاکستانی توجانتے ہی ہیں مگر بین الاقوامی سطح پر بھی لوگوں کو اس ہسپتال سے شناسائی ہے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال وہ بنیادی نقطہ ہے جو پاکستان کے بدعنوانی کے کینسر سے لڑنے اور اسے ختم کرنے میں موجودہ حکومت کے کام آنے والا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کینسر سے لڑنے بلکہ اسے شکست دینا چاہتے ہیں لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک ہر ایک پاکستانی انہیں اپنی حمایت کا مکمل یقین اور بھروسہ نا دے دے۔ ہر فرد کو صرف اس بات کی سمجھ آجانی چاہئے کہ کس کے کیا مفادات ہیں آج ہم جدید ترین تکنیکی محارت کے دور سے گزر رہے ہیں، کسی بات کو چھپانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے سب کچھ تو سب کو معلوم ہوچکا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ پھر بھی ایسی حکمت عملیوں کا ساتھ دینے کیلئے کیوں کھڑے ہیں جن سے پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا، پاکستان انفرادی ملکیت سے آزادی چاہتا ہے، پاکستان کو ایک بار پھر ۱۹۴۷ والی قوم کی ضرورت ہے پاکستان کو ایک بار پھر سے آزاد کرانا ہے۔
پاکستانیو نظر اور نظریہ کی وسعت کو سمجھو، بصیرت کو دیکھو اور حکومت وقت کو تھوڑا سا وقت تو دیں، پچھلے ستر سالوں میں تو کبھی کسی نے کسی سے حساب نہیں مانگا اور نا ہی ایسے کام کرنے کا سوچا پھر یہ لوگ کیوں چند دنوں کا حساب مانگنے کھڑے ہوئے ہیں۔ شائد ان کو نظر آرہا ہے کہ اگر سکون سے موجودہ حکومت کو کام کرنے دیا تو پھر ہماری دال روٹی چکی پیسنے سے مشروط ہوجائے گی اور ہماری سالوں کی شاہ خرچیوں کا کیا ہوگا یہ وہ لوگ ہیں جو رہتے تو زمین پر ہیں لیکن انکے ذہنوں میں فرعون کی رعونت بسی ہوئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا طویل راتیں شروع ہوچکی ہیں اب انتظار قوم کے تصور سے قوم کی آگاہی کا ہے۔ کوئی کہتا ہے جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن بہترین طرز حکومت مدینے کی حکومت سے بہتر ہو ہی نہیں سکتی۔ آج تک کسی نے ایسی ریاست بنانے کی بات کی؟ اسلام کے نام پر پاکستان حاصل تو کیا لیکن کبھی کسی نے (یہاں تک کہ علمائے کرام نے بھی) مدینہ جیسی ریاست بنانے کی بات نہیں کی۔ اب احتساب ہورہا ہے تو ہونے دیں ہار ہوگی یا جیت سب کچھ سب کے سامنے تو آجائے گا، اس احتساب کو انتقام کی شکل نا دیا جائے تو پاکستان کو دیرینہ فائدہ ہوجائے گا۔