بڑے مزے کی بات ہے کہ ایک لفظ جب انگریزی میں پڑھا جاتا ہے تو بہت وزنی سنائی دیتا ہے اور سامعین مرعوب ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔ جب یہی لفظ اپنی قومی زبان اردو میں گوش گزار کیا جاتا ہے تو ذہن میں چلنے والے خیالات توقف کئے بغیر چلتے رہتے ہیں، اس کیفیت کو ہم مستقل ذہنی کیفت (مائنڈ سیٹ)کہتے ہیں۔ مذکورہ لفظ یا اصطلاح دراصل سمندر کو کوزے میں قید کئے ہوئے ہے۔ آجکل اس لفظ کا تذکرہ سیاسی و سماجی حلقوں میں اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر زور شور سے سنا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گردان انگریزی میں ہو رہی ہے۔ ایک انتہائی موئدبانہ درخواست اپنے ٹیلی میڈیا پر بیٹھے ماہرین و مبصرین سے ہے کہ اردو کی ترویج میں اپنا وہ حصہ ڈالیں جو ایک قومی زبان کا حق ہوسکتا ہے۔ انگریزی کیسی بھی بولی جارہی ہو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی لیکن اگر اردو بولیں تو معلوم نہیں کیوں شرمندگی کا طوق گلے میں اٹکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مطالعہ کی عادت ڈالی جائے اگر تھوڑی بہت کتابوں کی ورق گردانی کرلی جائے جس سے اردو کے الفاظ زبان پر چڑھ جائیں اورلفظوں کا ذخیرہ بھی میسر آجائے پھر دنیا کو مستقل ذہنی کیفیت کا ترجمہ ڈھونڈنے کی سعی کرنی پڑے۔ آخر دنیا کوکب پتہ چلے گا کہ پاکستان کی بھی کوئی قومی زبان ہے جس کو سمجھنے کیلئے ہمیں سہارے کی ضرورت ہے۔ ذرا مضمون سے ہٹ کر کہ ابھی ہم انگریزی کی مترجم کتابیں بغل میں دبائے اور اپنے موبائل میں لئے گھومتے تھے کہ ایک نئے دوست سے آقا کی صورت اختیار کرتی چینی زبان بھی ہم پر مسلط ہونے کے پر تول رہی ہے۔
انگریزی زبان کی اصطلاحات اب اردو زبان میں کاری ضربیں لگاتی محسوس ہورہی ہے، انگنت انگریزی کے الفاظ اردو زبان میں گھس بیٹھئے بنے ہوئے ہیں۔ اس بات کوبطور منفی پہلو سمجھا ہی نہیں جا رہا کیوں اسکا مثبت اثر یہی ہے کہ کم از کم انگریزی کے کچھ الفاظ ہی صحیح ہم ادا تو کرلیتے ہیں بھلے سمجھ نا آئے۔ زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ایک اچھے بھلے اردودان سمجھے جانے والے بھی اپنی گفتگو میں لا محالہ انگریزی کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قارئین راقم الحروف کی ذہنی کیفیت پر شک کررہے ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو امتحانوں میں نقل سے باز رہنے کی تنبیہ کرتے ہیں کیونکہ ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نقل سے پاس تو ہوا جاسکتا ہے اگلی جماعت میں بھی جایا جاسکتا ہے، مصنوعی خوشی بھی حاصل ہوجائے گی لیکن حاصل جمع کچھ نہیں نکلنے والا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ ترقی کسی کی نقل کرنے سے کبھی نہیں آسکتی۔ ترقی اپنی اقدار کو زندہ رکھنے میں پوشیدہ ہے، اپنی ثقافت پر فخر کرنے سے آتی ہے، اپنی قومی زبان کو فروغ دینے سے آتی ہے۔ کیا وجہ ہوئی کہ مضمون کیلئے یہ لفظ یا یہ اصطلاح منتخب کی؟
ہم جس گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں وہاں کہ رہن سہن بول چال میل ملاپ ہمارے لئے بنیادی ذہن سازی کا ذریعہ بنتا ہے، اس بنیادی ذہن سازی میں کسی اور گھرانے کا مختلف نظام معاشرت ذہن میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہیں ہونے دیتا، کیوں کہ شدیدماحول، شدید ماحول کو تبدیل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ گھرانوں اور خاندانوں کی باتیں ہیں جب علاقائی، خطے اور طرح طرح کی تفریقات ہماری ذہنی کیفیت ترتیب دیتی ہیں۔ جیسے پہاڑی علاقوں کے رہنے والے مخصوص طرز کی زندگی گزارتے ہیں اس کے برعکس میدانی علاقے والوں کا رہن سہن بلکل مختلف ہوتا ہے۔
ہم نے جیسا سوچ لیا ہے اب ویسا ہی ویسا ہوتا چلا جائے اسے کہتے ہیں مائنڈ سیٹ یا مستقل ذہنی کیفیت۔ ایک اندازے اور حالات کے مطابق لوگوں کی اکثریت اسی طرح کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اگر اس صورتحال کو دور تک پھیلا کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تباہی میں دنیا میں بسنے والی اشرف المخلوقات کی مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ)میں پھنسے رہنا بھی ایک ہے۔ مائنڈ سیٹ کی پیمائش کا معیار دنیا میں بسنے والے انسان کس طرح طے کر سکتے ہیں؟ دنیا میں موجود مذاہب اپنے پیروکاروں کو ماننے والوں کیلئے حتمی معیار کے درجے پر فائز ہونا چاہئے۔ یقیناًانبیاء کرام علیہ السلام اور مذہبی پیشوا کا عظیم مقصد بھی یہی تھا۔
بااختیار، بے اختیار پر قابض ہے جو بااختیار سوچتا ہے لازم ہے کہ بے اختیار اس کے دائرہ کار میں ہی اپنی سوچ کا تانہ بانہ بنے۔ قدرت کی دی گئی صلاحیتوں کا انسان نے غلط استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہم نے اپنی کھال کی طرح اپنے اوپر چڑھا لی ہے، افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے نبی ﷺ کی زندگی کو اپنے اوپر طاری نہیں کیا۔ جب کہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ترقی یافتہ ممالک نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو بطور عملی نمونہ اپنایا اور دنیا میں وہ مقام حاصل کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہم نے ان قدروں میں طبع آزمائی جاری رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے معاشرے تباہ حال ہوئے تھے۔ قرآن، احادیث مبارکہ اور سنت نبوی ﷺ وہ مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ ) ہے جس کو بنیاد بنا لیں تو ہمیں دنیا بھی مل جائے اور ہمارے ایمان کیمطابق مرنے کیبعد حقیقی زندگی بھی فلاح پا جائے۔
بنیا د سے نا سمجھ معاشروں میں کوئی مذہبی جنونیت میں الجھ کر رہے گیا ہے، کہیں قومی جنونیت سر پر چڑہی ہوئی ہے، کوئی بے راہ روی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھا ہے، انگنت ایسے معاملات معاشرے میں سرائیت کر چکے ہیں اور تباہی کی طرف گھسیٹ کر لے جارہے ہیں۔ یقیناًان ساری سوچوں کی بنیاد مفادات کا تعین ہے، جن کے حصول کیلئے انسان اپنے گرد حصار بنا لیتا ہے۔ ایسے انسان کی نسلیں بھی اسی حصار میں پرورش پاتی ہیں اور اپنا معیار زندگی اس حصار کیمطابق ترتیب دیتی ہے۔ عمر بن ہشام (المعروف ابو جہل) کا یہ کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں میرا بھتیجا (حضرت محمد ﷺ) حق پر ہے لیکن میں کس طرح سے اپنے آباؤ اجداد کے اقدار و رسومات کو ترک کردوں، یہ بھی مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ ) کا قیدی تھااور مفادات کی ایک مضبوط دیوار کھڑی رکھی تھی۔
ایسے حصاروں کا کوئی معیار نہیں ہے ہر وقت بغاوت کی تلوار اس دائرے پر لٹکتی رہتی ہے۔ ایساقطی نہیں ہے کہ یہ فقط ان پڑھ اور جاہلوں کا وصف ہے، اس میں علم کا عمل دخل برابر ہے کیوں کہ یہ کیفیت ہے تو علم اس کیفیت کو کم یا زیادہ تو کرتا ہے لیکن لازمی جز نہیں بنتا۔ ہماری ایک مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ ) یہ بھی ہے کہ اپنی ذاتی رائے اہم بنانے کیلئے کسی کی حیثیت اور اہمیت کو بھی خاطر میں نہیں رکھتے۔ جہاں کوئی ٹھیک نہیں کرسکتا وہیں کوئی ٹھیک ہونے کی کوشش بھی نہیں کرتا، ایک دوسرے کے حال پر چھوڑ رکھا ہے جسکی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب یہ بگاڑ تباہی کی صورت اختیار کرنے کو تیار ہو رہا ہے۔
ہم پاکستانیوں نے اپنے آپ کوسیاسی طور پر تو مفلوج کر لیا ہے، اس معذوری کی وجہ مختلف قسم کے قدغن ہیں جو جانے انجانے ہم نے اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں جیسے تعصب کی مختلف شکلیں بنا رکھی ہیں۔ ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ ہر کام پیسے یا اثر و رسوخ کی وجہ سے ہوجاتا ہے دوسری طرف اداروں میں کام کرنے والے اس پیسے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اثر ورسوخ کو خود بھی استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ آج پاکستان میں معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کوئی اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیارنہیں ہے، بلکہ جزوقتی کام کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر ہم نے کام کیا تو ہم سے جواب دہی شروع ہوجائے گی، پکڑ لیا جائے گا (منفی تاثر بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے)۔ اس میں ایسے لوگوں کا کوئی قصور نہیں کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے بننے سے جو کھانا شروع ہوئے ہیں تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے (ناکسی نے کبھی روکنے کی کوشش کی ہے)۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹریفک پولیس والے کے روکنے پر معمولی سی رقم اسکی جانب بڑھا دی جاتی ہے جس سے اسکی مٹھی گرم ہوجاتی ہے اور وہ سلام کرتا ہوا جانے کا راستہ فراہم کردیتا ہے۔
آجکل پاکستان کی آب و ہوا خوفزدہ دیکھائی دے رہی ہے جس نے کچھ نہیں کیا وہ بھی اتنا ہی خوفزدہ ہے جتنا کہ کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظلم سہنے والا ظالم سے بڑا مجرم ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے بلکہ ایسا سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایسی ڈگر پر گامزن ہونے جا رہا ہے جس پر ستر سال پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔ یہ جوچیخیں سننے کو مل رہی ہیں یہ ان لوگوں کی ہیں جو ستر سال سے پاکستان کو جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے، اب انہیں پاک وطن سے جسدِ خاکی سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اب جب کھانے سے ہاتھ روکا ہے تو انکی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جوبارہا اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹ چکے ہیں لیکن کبھی پاکستانی عوام کیلئے سوچا تک نہیں، کوئی کام کیا ہوتا یا پاکستان اور پاکستانیوں اپنے ہم وطنوں کی فکر کی ہوتی، کوئی آئین سازی کی ہوتی اور جب آئین سازی ملک کی بقاء کیلئے کی ہوتی تو معلوم پڑتا کہ کون سا قانون، قانون ہے اور کونسا کسی کی پسند کی خاطر بنایا گیا ہے۔ سب نے آگے جانے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اب چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔
اس مضمون کے اصل مقاصد واضح کرتا چلوں ایک تو یہ کہ ہم اپنی قومی زبان کو کب اہمیت دینا شروع کرینگے اور علم کی راہوں میں اردو کے دیپ جلانا شروع کرینگے، آخر ہم کب اس مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ) سے باہر نکلینگے، ناصرف اردو بلکہ اپنی بنیادی ثقافت بھی دنیا کے سامنے ہر ممکن پیش کرنے کی کوشش کرینگے ہم پر مسلط کی جانے والی مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ)سے خود کو آزاد کروانا ہوگا، جس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ آپ میں صحیح اور غلط میں تفریق کرنے کی اہلیت موجود ہو۔ ہمیں سیاسی مذہبی اور مخصوص معاشرتی طرز زندگی سے آزاد ہونا پڑے گا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیاگیا ہے کہ بنیادی معیار مذاہب نے طے کررکھے ہیں اب ضرورت اس بات کی ہے ہم وہ غور شروع کریں جس کی ضرورت ہمیں ناصرف دنیا بلکہ فنا ہونے کے بعد کی بھی کچھ جانکاری میسر آجائے۔ خدارا اس مستقل ذہنی کیفیت (مائنڈ سیٹ) سے چھٹکارا حاصل کیجئے، اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو آزادی فراہم کیجئے۔ ہم نے بطور قوم (امت) اپنی خودی گروی رکھوا دی ہے اسے واپس لینے کیلئے قربانی دینی پڑے گی۔ اپنے تحمل، برداشت اور بردباری پیدا کیجئے، ہماری حقیقی آزادی آج بھی ہمارا انتظار کر رہی ہے اسکے لئے ہمیں اپنے اپنے حصار سے باہرنکلنا ہوگا۔