یہ ہماری قومی چھوٹ کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان کو اہمیت نا دیتے ہوئے اس میں دوسری زبانوں کی آمیزش کوناصرف لازمی بنا لیا بلکہ اس کی بنیاد پر کسی کے پڑھے لکھے اور جاہل ہونے کی سند بھی ہاتھوں ہاتھ دینی شروع کر رکھی ہیں۔ انگنت الفاظ جوانگریزی اور ہندی میں تو باآسانی سمجھ آجاتے ہیں لیکن اردو میں انکا پتہ بہت مشکل سے ملتا ہے۔ یہاں اساتذہ کا کردار بھی مشکوک قرار دیا جاسکتا ہے جو سہل پسندی کی خاطر اپنی گفتگو کے دوران انگریزی کا سہار ابغیر تردد کے لیتے ہیں اور طالبعلموں پر یہ تاثر چھوڑتے ہیں کہ ایسا کرنا کوئی بری بات نہیں۔ دوسری صورت میں اس کا پوشیدہ مقصد یہ ہے کہ ہماری زبان مکمل نہیں اسی لئے تو دوسری زبانوں کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی چھوٹ ہے جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ہم سب نے اپنی قومی زبان کی ترویج کیلئے کام کرنا ہے اگر ہم واقعی ملک و قوم کی سربلندی چاہتے ہیں۔ جلد ہی ہم اردو کو قومی زبان کے درجے پر فائز ہوتا دیکھیں گے بلکہ دنیا جہان میں اردو بولتے اپنے سفیروں کو بھی دیکھیں گے۔ یہ کسی فرد واحد کی ذمہ داری نہیں، سب سے پہلے اردو میں ٹیسٹ کرکٹ کو آزمائشی کرکٹ کہا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جس زبان میں سمجھایا جائے گا تو سمجھنے والے کو اس زبان کے طول و عرض سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ورنا سمجھایا کچھ جائے گا اور سمجھ میں کچھ اورآنے کے شدیدخطرات لاحق ہیں۔ اب کرکٹ کی بنیادی صنف کو ہی لے لیجئے اپنی مادری زبان میں رکھا گیا نام آج ساری دنیا میں ٹیسٹ کرکٹ کے نام سے عام ہے، اس کے برعکس عربی، اردو اور دیگر کئی زبانوں کے تاریخی نام انگریزی نے اپنی مرضی سے اپنی زبان میں متبادل رکھ لئے ہیں۔ کرکٹ کی ابتداء سولویں صدی عیسوی میں ہوئی، کرکٹ کو اٹھارویں صدی انگلستان کا قومی کھیل قرار دیا گیا اور تقریباً بیسویں صدی میں یہ ساری دنیا میں کھیلے جانے والے کھیلوں میں تقریباً دوسرے نمبر پر پہنچ چکا تھا۔ جون انیس سو نو میں امپیریل کرکٹ کانفرنس قائم کی گئی کے جس کے اراکین میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ شامل تھے، انیس سو پیسنٹھ میں نام تبدیل ہوا اور بین الاقوامی کرکٹ کانفرنس رکھ دیا گیا اور موجودہ نام بین الاقوامی کرکٹ کونسل انیس سو نواسی میں رکھا گیا۔
اوائل میں کرکٹ کھیلی جاتی ہوگی جس کے مخصوص قوائد و ضوابط ہونگے، بدلتے ہوئے وقت کیساتھ جدت پسند سوچوں کیساتھ ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کیا گیا جس کا بنیادی مقصد کھلاڑیوں کی آزمائش یا جانچ کرنا ہوگا اس کے بعد کسی بھی کھلاڑی کیلئے کوئی اعزاز یا پھر کسی اور طرز کی کرکٹ میں جگہ کی گنجائش بنانا ہوگا۔ اس جستجو میں ایک روزہ کرکٹ کی داغ بیل ڈالی گئی اور پہلا بین الاقوامی ایک روزہ مقابلہ پانچ جنوری انیس سو اکہتر میں کھیلا گیا جو انگلستان اور آسٹریلیا کے مابین تھا، یہ وہ ایک روزہ میچ تھا جو ٹیسٹ میچ کے پہلے تین دن بارش کی نظر ہوجانے کیبعد طے پایا کہ چالیس چالیس اوور کا ایک مقابلہ کیا جائے اس طرح سے ایک روزہ میچوں کی داغ بیل ڈلی۔ ہم ٹیسٹ کرکٹ کو آزمائشی کرکٹ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن مسئلہ وہیں آجاتا ہے کہ لوگ ہماری قابلیت پر شک نہیں کرینگے بلکہ سیدھا سیدھا جاہلیت کی سند ہاتھوں ہاتھ تھما دینگے۔ ٹیسٹ کرکٹ نام رکھنے والوں نے کیا اس کی مزید گنجائش رکھی ہوگی کہ آنے والے وقتوں میں ایک روزہ کرکٹ مقابلہ ہوگا، اسکے بعد ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہوگا، ٹی ٹین ہوگا، اس کے بعد سپر سکسز مقابلے منعقد کئے جائینگے اور سب سے بڑھ کر غیر سرکاری لیگز شروع ہوجائینگی جنکو باقاعدہ کاروبار کی شکل دے دی جائے گی اور جس کے لئے کھلاڑی اپنے ملکوں کی نمائندگی چھوڑنے کیلئے تیار ہوجائینگے۔ جیسا کہ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کے کتنے ہی ستارے اپنی قومی کرکٹ کو خیرباد کہہ کر دنیا جہان میں منعقد ہونے والی لیگز سے خوب کمائی کر رہے ہیں جن میں سر فہرست ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ہیں، کچھ ایسے کھلاڑی جنوبی افریقہ کے بھی ہیں اور تقریباً تمام ممالک سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ان رنگا رنگ لیگز کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ دنیا رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہے، سب کچھ رنگ دیا گیا ہے چاہے وہ کردار ہوں، کھیل ہوں یا پھر تعلیم۔
یہ تو طے ہے کہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں اگر بنیاد مضبوط نہیں ہوگی تو عمارت یا اہلیت کے کہیں بھی ڈھے جانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسی طرح سے نئی طرز کی کرکٹ میں کھلاڑی آرہے ہیں اور جا رہے ہیں سوائے ان کے جن کو بنیادی کرکٹ پر عبور حاصل ہے۔ یعنی جو ٹیسٹ کرکٹ کے اچھے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں درحقیقت وہی صحیح کرکٹ کے معمار ہیں جب کہ دوڑتی بھاگتی دنیا کی نظر میں سپرسکسز، ٹی ٹین اور ٹی ٹوئنٹی میں ماردھاڑ کرنے والے دراصل کھلاڑی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کے علاوہ دیگر کرکٹ کی اصناف موجودہ دنیا کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔ مدعا ہوتا کچھ ہے لیکن بات ادھڑتی چلی جاتی ہے اور کیا کچھ سامنے آجاتا ہے۔ جیسے کہ جب کرکٹ کی پیدائش ہوئی تو زمانے کا مزاج کیا تھا اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ایک بنیادی چیز مستقل مزاجی ہے جو کہ ہر دور میں کامیابی کیلئے سب سے ضروری عنصر ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی طوالت سے اکتا جانے والے دراصل کرکٹ نہیں بلکہ اس میں ہونے والی ہلڑ بازی کے شوقین ہوسکتے ہیں۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے آزمائشی کرکٹ کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے یعنی ناچاہتے ہوئے بھی کچھ رنگ اس میں بھی انڈیل دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سفید کپڑوں پر مختلف رنگوں سے ہندسے اور کھلاڑیوں کے نام لکھوادئیے گئے اس سے بڑھ کر برقی قمقموں میں مختلف رنگ کی گیندوں سے کھیلا جانے لگا۔ مختصر اوور کے عالمی مقابلوں کی طرح ٹیسٹ چیمپین شپ کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے۔ لیکن ان ساری غیر رسمی آمیزشوں سے اصل آزمائش نہیں ہوپارہی اور مختلف ممالک جن میں آسٹریلیا، بھارت، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اپنے روائتی انداز سے کھیلتے ہوئے کرکٹ کی اس صنف میں بھی اپنا سکا جمائے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے کھلاڑی، کھیل کے مزاج کی بجائے کھیل کو اپنے مزاج میں ڈھالنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں، جو درحقیقت انکی کامیابی کا خاصہ ہے۔
پاکستا ن کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن اس بات کو کتابوں تک محدود رکھنے کا ہر عملی قدم اٹھایا جاچکا ہے۔ ہمارا قومی جذبہ، جوش و خروش اور والہانہ لگاؤ صرف کرکٹ کیلئے مختص ہوچکا ہے، ہم کرکٹ میں شکست پر روتے بھی ہیں، اپنا کوئی نقصان بھی کرلیتے ہیں اور جیت پر اسکے شایہ شان جشن بھی مناتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹر جو خود بھی بین الاقوامی فہرست میں شامل ہونے سے قبل کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں، نام ہوجانے کے بعد معلوم نہیں کیا ہوجاتے ہیں۔ کیا کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے کام کیلئے متعین کئے گئے ماحول کا بہانا بنائے۔ ہم اپنے کھلاڑیوں اور دیگر عملے سے یہی سنتے ہیں کہ وہاں کا ماحول ہمارے لئے سازگار نہیں تھا، وہاں کے لوگ ہمارے حمائتی نہیں تھے۔ جن کا اوڑھنا بچھونا کرکٹ ہو اور جنہیں ملکی کرکٹ کھیلنے کیلئے خطیر رقم دی جاتی ہو، جو اضافی رقم کیلئے دنیا میں کھیلی جانے والی لیگز کا حصہ بنتے ہوں کیا انہیں ایسے جواز دینے چاہئے۔ ہم بطور پاکستانی ہم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہمیں کرکٹ کے کھلاڑی اپنے شوق اور لگن سے آراستہ قدرتی طور پر میسر ہوجاتے ہیں۔ غور کیجئے کہ کیا لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے ہم دوسرا بابر اعظم بنا سکے ہیں؟ دوسری طرف اسٹریلیا کو لے لیجئے فہرست تو طویل ہے لیکن آپ پونٹنگ کو لیجئے جس کی موجودگی میں مائیکل کلارک کو تیار کیا گیا، کلارک کی موجودگی میں اسمتھ کو تیار کیا گیا اور ابھی اسمتھ اپنے جوہر دیکھا رہے ہیں کہ لبوچینگ نامی بلے باز نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک کو لے لیجئے پائے کے بلے بازوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے وہاں ٹیم انتظامیہ کیلئے گیارہ کھلاڑی منتخب کرنا دشوار ہوتا ہوگا۔ پاکستانی کھلاڑی اگر کچھ کارہائے نمایاں کردیکھائے تواکثر حضرات کے مزاج ساتویں آسمان کو چھونا شروع ہوکردیتے ہیں اور رہی سہی کثر خوشامدی پوری کردیتے ہیں یعنی ابھی صحیح طرح سے اوپر چڑھے بھی نہیں ہوتے کہ نیچے سے سیڑھی کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔
پاکستان کا حالیہ سامنا جوکہ نیوزی لینڈ سے ہوا، پاکستان کیلئے کسی بھی طرح سے اچھا ثابت نہیں ہوا جس میں پاکستانی بلے بازی کی کمر کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اور کپتان بابر اعظم کا پورا دورہ باہر بیٹھ کر گزارنا پڑا جس کی وجہ دوران ِ مشق(پریکٹس) انکے انگوٹھے پر شدید چوٹ کا لگنا بنا۔ اگر فواد عالم کی واپسی پر بننے والے سیکڑے (سینچری) کو ہٹا دیں تو کوئی بلے باز خاطر خواہ کارگردگی دیکھانے سے قاصر رہا جن میں امیدوں کا محور شان مسعود، حارث سہیل، عابد علی وغیرہ شامل تھے ہاں البتہ محمد رضوان جنہیں کپتانی سونپی گئی کسی حد تک بلے بازی میں اپنا حصہ ڈالنے میں کامیاب رہے اور انتظامیہ اپنے اس تجربے پر کسی حد تک مطمئن بھی دیکھائی دی۔ پاکستانی ٹیم کے سابق وکٹ کیپر کپتان سرفراز احمد کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو پھر کیا انہیں صرف امامت کیلئے ساتھ لے گئے تھے، یک بعد یہ دوسرا دورہ تھا جس میں سرفراز احمد کیساتھ ایسا رویہ روا رکھا گیا، جو کہ کسی بھی طرح سے انتظامیہ کی پیشہ ورانہ محارت پر سوالیہ نشان بننے کیلئے کافی ہے۔ محمد عامر کیساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ نے صلہ رحمی کی اور انکے سرکردہ گناہ کی تلافی کے بعد انہیں ٹیم میں کھلی جگہ دی جس پر وہ جہاں بورڈ کے کوئی خاص شکر گزار بھی نہیں دیکھائی دئے بلکہ انتظامیہ کے روئے پر سوالیہ نشان بنا کر کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ محمد عامر کا موجودہ کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ سے شدید اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ بورڈ نے نیوزی لینڈ سے شکست کو کسی انتظامی کوتاہی سے نہیں جوڑا ہے اور ان تمام چہ ماگوئیوں کو نظر انداز کردیا کہ شائد ہیڈ کوچ یا پھر بولنگ کوچ تبدیل ہوجائینگے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا عمل جاری ہے جنوبی ایشاء سے پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی ٹیم جنوبی افریقہ کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، تقریباً چودہ سال بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر پہنچ چکی ہے جو کہ تمام حفاظتی خدشات کے خاتمے کے بعد ممکن ہوا ہے۔ اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سفارتی کامیابی بھی کہا جاسکتا ہے اور کرکٹ جنوبی افریقہ کی انتظامیہ جس میں سابق کپتان اور دائیں بازو سے بلے بازی کرنے والے گریم اسمتھ بھی شامل ہیں دل سے شکریہ کہ مستحق ہیں۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کپتان ڈی کاک کی قیادت میں اپنی بھرپور قوت کیساتھ پاکستان پہنچی ہے اور ساتھ ہی ایک ایشائی ٹیم سری لنکا کو ٹیسٹ سریز میں شکست دے کر آرہے ہیں۔ جبکہ پاکستان ایک بدترین نا سہی لیکن بری شکست کیساتھ میدان میں اترنے والا ہے، لیکن مثبت پہلو دیکھیں تو جب آپ اچھی ٹیم سے کھیل کر بھلے ہی ہارے ہوئے کیوں نا ہوں آپکے حوصلے ضرور بلند ہوتے ہیں پھر اپنے میدانوں پر کھیلنا ہے جو قدرے آسان ہوگا۔ بورڈ نے بغیر کسی انتظامی تبدیلی کے ٹیم میں ردو بدل کی ہے اور نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے اپنے جوہر دیکھانے کی کوشش کی ہے ہمیں امید ہے کہ نئی منتخب شدہ ٹیم ناصرف بہتر کارگردگی دیکھائے گی بلکہ جنوبی افریقہ کو آزمائشی اور ٹی ٹوئنٹی میں شکست دے کر سریز اپنے نام کرے گی۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ ٹیسٹ چیمپین شپ کے نمبروں میں انڈیا آسٹریلیا کو اس کے گھر میں سریز ہرا کر پہلے چار میں شامل ہوچکا ہے۔ ٹیسٹ مقابلے ہمارے لئے تو کسی آزمائش سے کبھی بھی کم نہیں رہے۔ پاکستان سپر لیگ بھی تیار ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار کون کہاں سے جلوہ گر ہونے جا رہاہے۔ دعا کیجئے کہ مرحلہ وار میدانوں کو کھولا جائے اور مخصوص تماشائیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے۔ آزمائش سے لیگز تک کا سفر مکمل ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے آگے سنگل یا ڈبل وکٹ بھی بین الاقوامی سطح پر کھیلی جائے گی۔ سب کچھ ایک طرف ہے دوسری طرف کرکٹ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہی ہے۔