1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خرم امتیاز/
  4. میرا ووٹ

میرا ووٹ

میں سیاست کو پرفیکشن یا فینسی آئیڈیلسٹک ڈیمانڈز کا میدان خیال نہیں کرتا۔ نہ ہی میرا اعتقاد افسانوں اور سبز باغوں سے کسی صورت بھی تشفی پاتا ہے۔

پاکستان کے داخلہ اور خارجہ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئےمگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب حکمرانی کرنے کے لئے پاکستان کوئی آسان ملک ہرگز نہیں رہا اور نہ ہی مزید کسی غیر سنجیدہ قیادت اور تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ آئیڈیل باتیں کرنا ملکی بنیادی مسائل اور پاکستانیوں کے عمومی ایٹیچیوڈ سے صرفِ نظر کے مترادف ہے۔

میں البتہ ن لیگ کی حکومت کو چند کریڈٹ دینا چاہتا ہوں۔

(1) لوڈشیڈنگ (جو کہ سنہ 2012 میں پاکستان کا سب سے بڑا عفریت اور ن لیگ کی حکومت کیلئے لٹمس ٹیسٹ کیس تھا) کو کم کرنے بارے انکی کوششیں

(2) بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو جنگی جنون میں مبتلا امریکی گروپ سے نکال کر معاشی ترقی کے حامل چائنیز گروپ میں شامل کرنا

(3) دہشت گردی پر کنٹرول، جو احباب سویلین حکومت کو اسکا کریڈٹ دینے سے گریزاں ہیں وہ ذرا یوٹیوب پر لاہور سیف سٹی پراجیکٹ بارے دیکھ لیں (جو آئندہ دیگر شہروں میں بھی نافذالعمل ہو گا

(4) پنجاب آئی ٹی بورڈ کی کاوشوں کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔

(5) اکانومی کی صورتحال بہتر ہوئی، فارن ریزروز میں اضافہ ہوا، جی ڈی پی گروتھ 5 سے اوپر چلی گئی۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں کچھ سنگ میل حاصل کیے گئے۔

جو کام بہتر ہو سکتے تھے مگر نہ کیے گئے ان میں سب سے پہلے تو

(1) بلدیات کا نظام جسے سیاست کی نذر کرتے ہوئے اختیارات سے محروم رکھا گیا۔

(2) پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے چند اقدامات ضرور کیے گئے لیکن وہ ناکافی ہیں۔ بہت ساری ممکنہ تبدیلیاں اور اصلاحات لائی جا سکتی ہیں مگر اسقدر توجہ نہ دی گئی۔

(3) قانون سازی کا فقدان رہا۔ سیاست زیادہ ہوئی عملا کام نہ ہونے کے برابر رہا۔

(4) صحت کے معاملے میں بھی تسلی بخش کارکردگی نہیں ہے۔ نہ وفاق کی نہ ہی صوبوں کی۔ پنجاب مگر پھر بھی باقی صوبوں سے بہتر ہے، لیکن ن لیگ کو اسکا زیادہ کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا۔

(5) آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ، ماحولیات و آلودگی (جو کہ آئندہ برسوں میں پاکستان کو وبال جان بنانے کے درپے ہیں ) کے بارے میں نہ تو گزشتہ حکومتوں اور نہ ہی موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت دکھائی دی۔

(6) نواز شریف جو آجکل سویلین بالادستی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور بلاشبہ ہم اس نعرے میں انکے ساتھ بھی ہیں مگر گزشتہ چار سالوں میں نواز کا ذاتی کردار جمہوری اقدار کے منافی رہا، مجھے ان سے سب سے بڑا شکوہ یہی ہے کہ انکی پارلیمنٹ میں عدم دستیابی کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں، عوامی معاملات بارے پارلیمنٹ میں مکالموں اور مذاکروں کا فقدان رہا۔ اسی سبب آئین و قانون سازی کے عمل میں سست روی چھائی رہی۔ قومی معاملات میں پارلیمنٹ کی لاتعلقی۔ نے پاکستان میں جمہوریت کو واضح طور پر کمزور کیا ہے۔ نواز نے نوے کی دہائی کے انداز کا طرز حکمرانی اختیار کرنے کی کوشش کی جو اکیسویں صدی کے میڈیائی پاکستان کے تقاضوں ںسے متصادم ہے۔ میں انھیں ایک متحرک، دبنگ، آؤٹ سپوکن اور ایکٹیو وزیراعظم کے طور پر دیکھنا چاہتا تھا جس میں مجھے سخت مایوسی ہوئی۔

میں اگلا ووٹ کسے دوں گا، اس بارے فیصلہ اسلئے مشکل ہے کہ اس لولی لنگڑی روایتی دقیانوسی ن لیگ کا بہتر سیاسی متبادل مجھے کوئی بھی نظر نہیں آ رہا۔ میں اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ کا حامل ہوں۔ عمران خان سے میری محبت نفرت میں بدل چکی ہے، ویسے بھی پی ٹی آئی مجھے کسی کام کی اہل معلوم نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی کو بطور متبادل سوچنا بھی جرم سمجھتا ہوں۔ جماعت اسلامی عوامی کونیکشن سے کوسوں دور ہے۔ مذہبی و مسلکی جماعتوں کو میں سیاست کا اہل نہیں سمجھتا۔ باقی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں۔ کچھ اچھے لوگ تو ہر جماعت میں موجود ہیں مگر ملکی سطح پر نظام کو آگے بڑھانے والا فی الحال کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔