میرے جیسا عام شخص تو کسی بھی نئے شہر کا موازنہ صرف لاہور/اسلام آباد کیساتھ ہی کر سکتا ہے، کیونکہ اپنے لیے تو چائنہ میں ہر دوسری شے ہی ایڈوانس ہے مگر چین کے بڑے شہروں میں نقل و حمل کا نظام کسقدر مؤثر، باسہولت اور ہیومن فرینڈلی بنا دیا گیا ہے اس کا اندازہ شنگھائی میں ملنے والی ایک ادھیڑ عمر سڈنی (آسٹریلیا) سے تعلق رکھنے والی خاتون کے تاثرات سے لگایا جا سکتا ہے جو میری پاکستانی شناخت کا علم ہونے پر حالیہ کرکٹ سیریز میں آسٹریلیا کے ہاتھوں پاکستان کے وائٹ واش ہونے پر مُجھے چِڑا رہی تھی، پوچھنے پر بتانے لگی کہ اسکے لیے سڈنی کے مقابلے میں شنگھائی کی سب سے زیادہ قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ اس بڑے، گنجان اور پرہجوم شہر میں ہر جگہ اسقدر قابلِ رسائی بنا دی گئی ہے کہ آپ کہیں بھی موجود ہوں مگر شہر کے کسی بھی دوسرے حصے میں پہنچنے کے لیے آپ کے پاس متعدد نوعیت کے آپشنز بروقت دستیاب ہوتے ہیں۔ یہی نظام ہم نے ہانگژو سٹی میں بھی پایا۔
تمام بڑے شہروں کے مابین موٹرویز اور ہائی سپیڈ ٹرینوں کے نیٹ ورک کا جال بچھا ہوا ہے۔ ہانگژو سے شنگھائی کے درمیان لگ بھگ لاہورتا اسلام آباد جتنا ہی فاصلہ موٹروے پر تین گھنٹے جبکہ 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے چلنے والی ہائی سپیڈ ٹرین پر یہی فاصلہ 40 منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہانگژو سے بیجنگ کے درمیان اسلام آباد تا کراچی جیسا فاصلہ 450 کلومیٹر فی گھنٹہ سے سفر کرنے والی ٹرین پر تقریبا 4 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ انکے ریلوے اسٹیشنز ہمارے ائیرپورٹ سے زیادہ بڑے معلوم ہوتے۔ ہر ہر منٹ کے حساب سے اتنی زیادہ ٹرینیں چلتی ہیں، مگر پھر بھی عوام الناس کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں اور ہر ٹرین میں بمشکل ہی کوئی سیٹ خالی نظر آتی ہے۔
شہر بھر کے اندر زیرِزمین ہائی سپیڈ میٹرو ٹرینوں کا نیٹ ورک ہے، اس نیٹ ورک کی بدولت جتنا شہر زمین کے اوپر آباد ہے اتنا ہی ایک پورا شہر زیرزمین بھی بسا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہم ایک عمارت کی بیسمنٹ میں چائے پی رہے تھے وہیں سے چلتے چلتے دس بارہ عمارتوں کی ملحقہ بیسمنٹ میں بنی مارکیٹ نما راہداریوں سے ہوتے ہوئے میٹرو ٹرین اسٹیشن پہنچ گئے۔ جہاں سے ٹکٹ لینے کے بعد مزید ایک اور بیسمنٹ میں اُتر کر ہمیں میٹرو ٹرین تک رسائی حاصل ہوئی۔ میٹرو ٹرین میں سفر کرنے پر معلوم ہوا کہ شنگھائی میٹرو ٹرین نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا میٹرو نیٹ ورک ہے جس کی ابتدا 1986 تا 1993 میں تعمیر ہونے والے ساڑھے چار کلومیٹر لمبے 1 ٹرین رُوٹ سے ہوئی، جو تب صرف چار اسٹیشنز کو آپس میں جوڑتی تھی۔ مرحلہ وار تعمیرات سے گزر کر آج یہ نیٹ ورک 16 ٹرین رُوٹس پر مشتمل ہے جو 413 اسٹیشنز کو آپس میں جوڑتے ہیں اور اسکی کل لمبائی 676 کلومیٹر ہو چکی ہے۔ اور ابھی بھی مضافات کو جوڑنے کیلئے اس پر مزید کام ہو رہا ہے۔ پورے شہر حتی کہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتے دریا تک کے نیچے بھی ان ٹرینوں کی آمدورفت بلاتعطل جاری رہتی ہے۔ سب سے خاص بات یہ کہ اسقدر معیاری سفر کا کرایہ انتہائی کم ہے، چونکہ ہم سے تو ہزارہا کوششوں کے باوجود ابھی تک لاہور میں ایک اورنج لائن میٹرو ہی نہیں چل پائی اسلئے ہمارے لیے تو یہ سب معلومات اِک الف لیلوی داستان ہی کے مترادف تھی۔
خیر الف لیلوی میٹرو سٹیشن سے نکل کر باہر سڑک پر آئیں تو بیشمار لوکل رُوٹس پر چلنے والی سستی اور جدید بسوں کا نیٹ ورک بچھا دکھائی دیتا ہے۔ پھر ٹیکسی سروس اور اُوبر/کریم کی طرز پر چائنہ کی اپنی موبائل فون ٹیکسی سروس 'دِی دِی' کی سہولت بھی موجود ہے۔ حالیہ برسوں میں بجلی سے چلنے والی بسوں، کاروں، ٹیکسیوں کی مقبولیت کی باعث شہر سے شور، دھوئیں اور آلودگی کا صفایا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں لوگ بجلی سے چلنے والی بے آواز بائکس کا استعمال بھی بکثرت کرتے ہیں
مگر ذرائع نقل و حمل میں جس شے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی سائیکلیں اور پُش بائکس ہیں۔ ایک تو یہاں سڑکوں پر بائک اور سائیکل کیلئے الگ سے لَین بنی ہوتی ہے۔ ہر کچھ فاصلے پر فٹ پاتھ پر مختلف کمپنیوں کے بائک اور سائیکل اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں، جہاں بیشمار سائیکلیں کھڑی ہوتی ہیں۔ جس کسی کو بائک/سائکل چاہیے وہ موبائل ایپلیکیشن سے سائیکل پر لگا 'کیوآر' کوڈ سکین کرتا ہے جس سے بائک اَن لاک ہو جاتی ہے۔ آپ سائیکل پر کہیں بھی جا سکتے ہیں اور جب تک آپ دوبارہ اس بائک کو کسی سٹینڈ پر لاک نہیں کر دیتے آپ کے کریڈت اکاؤنٹ سے دو 'یوآن' (چینی کرنسی) فی بیس منٹ کے حساب سے کٹتے رہتے ہیں۔ ہانگژو اور شنگھائی دونوں شہروں میں بڑی تعداد میں ہر عمر کے مرد و خواتین کو ان سائیکلوں/بائکس پر سفر کرتے دیکھا۔ یہاں ماڈرن پُش بائیک بیحد مقبول ہے چارجنگ بیٹری سے چلتی ہے، پیڈل چلانے سے بیٹری چارج ہوتی ہے، اور اگر بیٹری چارجڈ ہے تو پیڈل چلانے کی زحمت کیے بغیر ہی بس ہینڈل کو کنٹرول کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جائیں۔ جسطرح کی دھواں دھارسی ڈی 70 اور سی ڈی 125 موٹر سائیکلیں پاکستان میں چلتی ہیں، ویسی ایک بھی موٹر سائیکل ہمیں چائنہ میں دکھائی نہیں دی
چین کے شہروں میں نقل و حمل کا سب سے آخری، سستا اور صحت بخش ترین ذریعہ پیدل چلنے کا ہے، اور یہاں شہروں میں لوگ اتنا زیادہ پیدل چلنے کے عادی ہیں جسکا ایک عام پاکستانی شہری تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ذرا سی بارش ہو یا تیز دھوپ، یہ لوگ رنگ برنگی چھتریاں تان کر سڑکوں پر ایک دلکش نظارہ بنا دیتے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتے کے چین میں قیام کے دوران خود میرا پیدل سفر اوسطا 8 کلومیٹر روزانہ ہے۔ دیسی غذاؤں کی عدم دستیابی اور طویل واک کی بدولت اپنا وزن چار پانچ کلو گھٹ گیا ہے۔ وزن کم کرنے کے خواہشمند پاکستانیوں سے عرض ہے کہ کچھ عرصہ چین آ کر ضرور ٹھہریں۔