اُردو شاعری کا اپنا مزاج ہے۔ یہ مزاج ہر کسی کو اُسی طرح میسر آئے جس طرح میرؔ و غالبؔ اور اقبالؔ و فیض ؔکو میسر آیا تھا، یہ ضروری نہیں ہے۔ شاعر اپنے عہد کا نباض ہوتا ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ روایت کو کس حد تک ساتھ لے کر چلنا ہے اور جدت کے تقاضوں کو کہاں تک نبھاہنا ہے۔
شاعری کا سفر ہر صنف میں کامیابی سے جاری ہے تاہم اُردو غزل اس معاملے میں ہمیشہ سے پذیرائی کے اختصاصی وصف سے متصف رہی ہے۔ اُردو غزل کا معاملہ یہ ہے کہ اس صنف نے صدیوں اُردو ادب کے شعری سرمائے پر حکمرانی کی ہے۔ اس حکمرانی کی وجہ اس کا لطیف اندازِ بیان اور دل پذیر اُسلوبِ اظہار ہے جسے ثقیل کرنے کی شعوری کوشش ہر شاعر کے ہاں دکھائی دیتی رہی۔
قلی قطبؔ شاہ سے لے کر ولی ؔدکنی تک لفاظی تراش خراش کا یہ عمل تسلسل سے جاری رہا۔ اس شمع کو ولی ؔدکنی سے میر تقی میرؔ تک سیکڑوں شعرا نے جلائے رکھا۔ کلاسیکی غزل کے پورے عہد میں صنفِ غزل کو دیگر شعری اصناف کے مقابلے زیادہ توجہ ملی۔ یہ امر غزل کے لیے فخر و اعزاز کا باعث بنا۔ کلاسیکی غزل سے جدید غزل اور جدید غزل سے مابعد جدید غزل کا یہ سفر آج اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔
اکیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ یوں تو نثری اصناف میں نئی تخلیقات سامنے آرہی ہے تاہم شعری اصناف میں آزاد نظم کے فروغ کے ساتھ غزل کی صنف دیگر شعری اصناف پر ہنوز اپنا تحکم جمائے ہوئے ہے۔
اکیسویں صدی میں اُردو غزل کہنے والوں کی تعداد دُنیا بھر میں موجود ہے جو بہت عمدہ غزل کہہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا ادبی و سماجی منظر نامہ بیسویں صدی کی نسبت خاصا مختلف ہے۔ اب دُنیا گوبل ولیج بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے کلام کی ترسیل وتشہیر میں بہت آسانی ہوگئی ہے۔ اس سہولت کی وجہ سے جہاں شعرا کو توقع سے زیادہ قارئین تک رسائی کی آسانی میسر آئی ہے وہاں کہولت اور تن آسانی نے بھی جنم لیا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے خود ساختہ شعرا کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معیاری شاعری سننے اور پڑھنے کو بہت کم ملتی ہے۔
نووارد شاعر کلاسیکی روایت کے تتبع میں اپنی توانائی کا بیشتر حصہ صرف کر دینے کے جب کچھ نیا لکھنا چاہتا ہے تو اس کے پاس چبائے ہوئے نوالے چباتے رہنے کے علاوہ کچھ نیا کہنے کو نہیں رہ جاتا۔ روابط کی آسانی اور ترسیل کے بلا معاوضہ اختیارات نے شعرا کی ایک ایسی کھیپ تیار کی ہے جنھیں اوزان و بحور کا سرے سے علم ہی نہیں ہے اور وہ فیس بک، ٹِک ٹاک اور انسٹاگرام پر چھائے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں شعرا کی تعداد ایسی ہے جنھیں "متشاعر" قرار دیا جاسکتا ہے جنھیں یہ شوق ہو چلا ہے کہ سستی شہرت اور پذیرائی حاصل کرنے کا یہ نہایت آسان طریقہ ہے لہذا اسی روش کو روا رکھتے ہوئے اوٹ پٹانگ خیالات سے متصل ادھورے بے وزن مصرعوں کو نثری نظم کہہ کر سناتے جائیے اور داد و تحسین کی صداؤں میں شہرت کی ناآسودگی کا سامان کرتے جائیے۔
مذکورہ صورت حال کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ روایت دراصل صدیوں پرانی ہے۔ جب پرنٹ میڈیا کا راج تھا، کسی معیاری رسالے میں کلام کا شائع ہو جانا شاعر اپنے لیے فخر اور وجہ شہرت کا ذریعہ سمجھتا تھا جیسے آج کل سوشل میڈیا کا سہارا لے کر کچھ جعلی شاعر خود کو فیضؔ و فراقؔ اور جونؔ و شاہین عباسؔ سمجھ بیٹھے ہیں اور غزل پر غزل کہے جاتے ہیں اور اِترائے جاتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی غزلیہ روایت میں ہمارا نام ایک دن ضرور سرفہرست آئے گا۔
اکیسویں صدی کے قابلِ ذکر اور معتبر شعرا میں دسیوں شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اگر میں ان شعرا کے نام گنواؤں تو وہ ذاتی پسند اور خود ساختہ انتخاب ہوگا۔ اکیسویں صدی کے نمائندہ شعرا میں آج میں جس شاعر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے کلام میں وہ تمام فنی اور فکری اختصاص موجود ہیں جو ایک شاعر کو "مکمل شاعر" کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے درکار ہوتا ہے وہ نام شاہین عباس کا ہے۔
اکیسویں صدی کے معتبر شعرا میں سر فہرست نام شاہین عباس کا ہے جس نے اپنے کلام کو معیاری کلام کے جملہ تقاضوں سے نہ صرف ہم آہنگ کیا بلکہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج بھی کرکے دکھایا۔ شاہین عباس پاکستان پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 29 نومبر 1965ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد آپ نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کی اور انجینئرنگ کے پیشے سے منسلک ہو کر اورینٹ آپریٹنگ کمپنی میں ملازمت کاآغاز کیا۔ شاہین عباس نے 1980ء سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے چھے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ "خواب میرا لباس" (1992ء)، "تحیر" (1998ء)، "وابستہ" (2002ء)، "خدا کے دن" (2009ء)، "منادی" (2013ء)، "درس دھارا" (2014ء)۔ اس کے علاوہ "پارے شمارے" کے نام سے ایک ناول اور ایک افسانوں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
شاہین عباس نوے کی دہائی سے شعر کہہ رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہر وہ رنگ موجود ہے جو کلاسیکی روایت سے لے کر جدید عہد تک ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ شاہین عباس کے ہاں جذباتیت کی نسبت سنجیدگی کا عنصر زیادہ غائر نظر آتا ہے۔ شاہین عباس کی اپنی مخصوص لفظیات ہیں۔ سہل اور آسان الفاظ کا دروبست ان کے مخصوص شعری بیانیے کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ غزلیات کی مجموعی فضا تعمیری انداز کی حامل ہے جس میں شعوری ادراک کی بجلیاں کندہ محسوس ہوتی ہے۔ جو کہنا چاہتے ہیں وہ نہایت سلیقے سے کہہ جاتے ہیں۔ تلخ بات کو نرم لہجے میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے کوئی عام سی بات کہ دی ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا کہہ دیا گیا۔ چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے:
اس کے بعد اگلی قیامت کیا ہے کس کو ہوش ہے
زخم سہلاتا تھا اور اب داغ دکھلاتا ہوں میں
یہ دن اور رات کس جانب اُڑے جاتے ہیں صدیوں سے
کہیں رُکتے تو میں بھی شاملِ پرواز ہو سکتا
اب کھلا خواب میں کچھ خواب ملاتا تھا میں
خاک اڑاتا تھا میں سیاروں کی سیاروں پر
لہو کے کنارے بھی زَد پر پیں دونوں
یہ کیا زخم ہے مندمل ہونے والا
شاہین عباس کے ہاں مشرقی سماج کے تنزل کی گہری پرچھائیاں ملتی ہیں۔ شاہین کے ہاں سماج کی دورنگی کی پیش کش کا انداز حُزنیہ آہنگ کی عکاسی کرتا ہے۔ شاہین کی غزل میں آورد کی بجائے آمد کا رنگ اتناخالص اور نیچرل ہے کہ اسے عطا کہنے میں کوئی باق نہیں ہے۔
شاہین نے پاکستانی سماج اور معاشرت کے کھوکھلے نظام کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اس کے باغیانہ عناصر پر گہری طنز بھی کی۔ شاہین کے ہاں الفاظ کی تکرار کے باوجود تازگیِ بیان کی شدت موجود ہے۔ کہیں کہیں اُکتاہٹ اور نا اُمیدی دکھائی دیتی ہے لیکن غزل کا مجموعی تاثر مثبت اقدار و روایات کا عکاس ہے۔ بطور نمونہ یہ اشعار دیکھیے:
اس گلی میں کچھ نہیں بس گھٹتا بڑھتا شور ہے
اک مکیں کی خامشی ہے اک مکاں کا شور ہے
تُو نے چُپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی زمانے سے ہوئی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی
گھر بدلنا تو بہانہ ہےبہانہ کرکے
اندر اندر ہی سے انسان کہاں جاتا ہے
شاہین عباس گزشتہ تیس برس سے غزل کہ رہے ہیں۔ ان کی غزل میں سادگی اور روانی کی خاصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اپنے اندر کھوئے رہنے اور نادیدہ جہان کو دیکھنے کی شدید آرزو شاہین کے ذہنی اضطراب کا پتہ دیتی ہے۔ شاہین کے ہاں سماجی تنافر کا پہلو جذبے کی تعمیر سے جلا پاتا ہے۔ یہ شاعر اپنے اندر کے احساس سے بیرونی ماحول کو بدلنا چاہتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی کشمکش ہے جو شاہین کے ہاں برابر دکھائی دیتی ہے۔
مختصریہ کہ شاہین عباس کی غزل جدید اُردو غزل کے ارتقا میں ہراول دستے کا کردار کر رہی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ شاہین عباس کے جملہ کلام کی پرتوں کو کھولنے کے لیے مشاق نقاد کی توجہ ایک دن ضرور ان کے شاعرانہ قدو قامت کو تسلیم کروانے میں اپنے تئیں تفاخر محسوس کرے گی۔ شاہین عباس کے کلام کی پختگی اور فکر کی گہرائی کا اندازہ حسب ذیل اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
کچھ اتنے شوق سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا
زنجیر لازمی ہے کہ زنجیر کے بغیر
چلنا زمین پر ابھی آیا نہیں مجھے
ناکام عشق ہوں سو مرا دیکھنا بھی دیکھ
کم دیکھتا ہوں اور غضب دیکھتا ہوں میں
ایسا نہیں کہ اُس نے بنایا نہیں مجھے
جو زخم اُس کو آیا ہے آیا نہیں مجھے