جدید اُردو غزل کی نسائی آوازوں میں صائمہ آفتاب کا نام معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ صائمہ آفتاب نے غزل سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے ہاں غزل کی کومل اور نرمل روایت کا اعادہ ملتا ہے۔ صائمہ آفتاب کا تعلق مشرقی پنجاب کے معزز گھرانے سے ہے۔ ان کی تعلیم لاہور کے معروف تعلیمی اداروں میں ہوئی ہے۔ انھوں نے مقابلے کا امتحان پاس کرکے پاکستان کے اعلیٰ سرکاری محکمے میں ملازمت حاصل کی جہاں ہنوز اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ بچپن سے ہی شعر و شاعری کا ذوق تھا جس میں وراثت کے اعلی اذہان کی کارفرمائی شامل ہے۔
صائمہ آفتاب نے سرکاری مصروفیات کے باوجود شاعری جیسی کومل اور نرمل روایت کو زیادہ وقت دیا ہے۔ ان کے ہاں غزل کی لکھنوی بانکی ادا شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ صائمہ کے الفاظ کا دروبست سادہ، آسان اور رواں برتا گیا ہے جس سے کہنے اور محسوس کرنے کا انداز مدغم ہوگیا ہے۔ صائمہ آفتاب زیادہ تر وقت شاعری کے مطالعے پر صرف کرتی ہیں۔ موضوعات کا اعادہ نہیں کرتیں، نیا خیال غزل نئی کے اصول کے تحت شاعری کرتی ہیں۔
اے رنجِ آگہی کوئی چارہ تو ہوگا نا
چل خوش نہ رہ سکیں گے گزارا تو ہوگا نا
یہ آرزو بھی وقت کے دھارے میں بہہ گئی
اب ناں سہی کبھی وہ ہمارا تو ہوگا، نا
میں کانپ اُٹھتی ہوں اتنا سوچ کر ہی
کہ تو حسبِ ضرورت مل نہ جائے
صائمہ آفتاب کے ہاں کہیں نسائی آواز دبی ہوئی اور کہیں جاگیردرانہ سماج میں للکاری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ سہل ممتنع میں عمدہ مصرعے تراشنے کا فن جانتی ہیں۔ ان کی غزلوں کا انتخاب "ریختہ"نے بھی کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں دُنیا بھر کے مشاعروں میں انھیں اپنی انفرادی شاعری کے پیشِ نظر مدعو کیا جاتا ہے لیکن یہ خود اپنی ترجیحات کو متعین کرتی ہیں۔
جاتی ہے جو متاع دل و جاں تو کیا ملال
یہ عشق کی دُکاں ہے خسارہ تو ہوگا، نا
بڑی شدت سے جینا چاہتی تھی
مگر اب یہ اجازت مل نہ جائے
ایک شاعرہ کے لیے یہ امر لائقِ تحسین ہے کہ وہ کس مشاعرے میں شرکت کرے گی اور کس مشاعرے میں جانے سے معذرت کرے گی۔ صائمہ آفتاب کے ہاں سستی شہرت کی ہوس نہیں ہے اور نہ نمود ونمائش کی یہ قائل ہیں۔ شعری سخن فہمی اور شاعرانہ لیاقت کی صحیح اپروچ کے نکتہ نظر سے ان کی شاعری کو پرکھا جائے تو صائمہ کے ہاں نئے موضوعات اور احساسات کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔
کچھ ایسی سہولت سے مکیں دل میں ہوا وہ
مجھ کو بھی مری ذات سے جانا نہیں پڑا
اس سے بڑھ کے کیا ہوتا زندگی کے دامن میں
ایک غم ہے ہونے کا دوسرا بچھڑنے کا
مسلسل ایک حیرت کا سفر ہے
کہاں پہنچے کہاں سے ہم چلے تھے
برصغیر پاک و ہند کا اجتماعی مسئلہ نسائی آواز کو دبانا رہا ہے۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جس پر مرد وعورت نے خوب لکھا ہے۔ لطف النسا سے لے کر ادا جعفری اور پروین شاکر سے صائمہ آفتاب تک، سبھی شاعرات کے ہاں عورت کی انفرادیت کے وصف کو کچلنے کے خلاف مزاحمت کی تحریک ملتی ہے۔
اب لوہا اُگاتے ہیں درختوں کی جگہ ہم
کوئل کو بھی اب شور مچانا نہیں پڑتا
عورت چاہتی ہے کہ اُسے بہ حیثیت عورت ٹریٹ کیا جائے اور اُس کے نسائی جذبات کا احترام کیا جائے اور اس کی نسائی شخصیت کو بعینہ قبول کیا جائے لیکن پدر سری سماج میں عورت کو اس کا صحیح مقام اور مرتبہ ہنوز نہیں مل سکا۔ صائمہ آفتاب کے ہاں عورت کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر ملتا ہے۔
پیار اور توقع کے سلسلے نہ بڑھ جائیں
اس جگہ مناسب ہے سوچنا بچھڑنے کا
سپردگی تو بڑا مسئلہ نہیں لیکن
حریم ذات میں خود میرا آنا جانا نہیں
محبت کا جذبہ انسانوں کے درمیان سانجھ اور اشتراک پیدا کرتا ہے۔ کسی کو چاہنا اور چاہے جانا کوئی عیب نہیں ہے۔ دُنیا کا سب سے بڑا فلسفہ ہی محبت کی اقلیم کا حصول کا ہے جس کے لیے انسان ہر قسم کے خطرے کو مول لے لیتا ہے۔ صائمہ آفتاب کے ہاں اس جذبے کی ترجمانی منفرد انداز میں ملتی ہے۔
میں آل سے ہوں شہہ کربلا کی سو مجھ کو
چناب سے بھی ملا ہے وہی فرات کا دکھ
صائمہ کے ہاں سطحی اور معمولی جذبے کی عکاس شاعری خال خال دکھائی دیتی ہے۔ گو، محبت ان کا مرکزی موضوع ہے جس میں احترام کا عنصر مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن بے اعتباری اور مروتی کو یہ شاعرہ کسی طور گوارا نہیں کرتی۔
جاتے جاتے گلے لگاتا کیا
وہ مرا اور دل دکھاتا کیا
ہزار ابر محبت یہاں برس بھی چکے
بس ایک شاخِ تمنا نہیں ہری ہوئی ہے
جدید اُردو غزل کا نسائی ڈھانچہ اب مستحکم ہوگیا ہے۔ صائمہ آفتاب کی ہم عصر شعرا میں کئی ایک نام ایسے ہیں جن کے ہاں عورت کی آزاری، حقِ خواہش، حقِ ملک اور حقِ رائے کا نکتہ احتجاج کی صورت ایک نعرہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ فریحہ نقوی، سعدیہ بشیر، کومل جویہ، ارم زاہرا، امن شہزادی، بلقیس خان، پونم یادو، دعا علی، سائرہ اقبال، راحیلہ اشرف، ندا گیلانی، شبنم مرزا، رغیرہ کے ہاں نسائیت کے موضوعات کی اُٹھان دیکھنے کی چیز ہے۔ مذکورہ شاعرات نے اُردو غزل کو نسائیت کا مستقل ترجمان بنا ڈالا ہے۔
مری بپتا بھی کتنی دُکھ بھری ہے
جسے تقدیر سن کر ہنس پڑی ہے
مجھے بھیجا تو پورا تھا خدا نے
مگر حصوں کی قیمت لگ رہی ہے
چلا گیا ہے مگر یہ سبق سکھا گیا ہے
ترس دوبارہ کسی دلِ زدہ پہ کھانا نہیں
صائمہ آفتاب کے ہاں جدت کے ساتھ روایت کے تتبع کا رجحان بھی ملتا ہے۔ یہ شاعرہ چوں کہ پڑھی لکھی اور جدید معاشرت کے جملہ رجحانات و میلانات سے بخوبی آگاہ ہے اور دُنیا بھر میں پھیلی پیشہ ور برسر روزگار خواتین کے مسائل سے بھی آگاہ ہے، اس لیے اس شاعرہ کے ہاں جہاں جذباتی نوعیت کے معاملات پر قلم فرسائی کا عنصر ملتا ہے وہاں خانگی و بیرونی مسائل پر بھی اظہار رائے کا ببانگِ دہل اظہار ملتا ہے۔ بطور نمونہ چند اشعار دیکھیے۔
کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزہ چائے
اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ
گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شائد
کہ اب بھی آنکھ سے رسا ہے باقیات کا دکھ
صائمہ آفتاب نے اُردو غزل میں کئی اہم میلانات کو جگہ دی ہے جو ابھی تک غزل میں جگہ نہیں پاسکے تھے۔ اکیسویں صدی میں جہاں عورت کو بات کرنے اور اپنے نکتہ نظر کو پیش کرنے کے مواقع مل رہے ہیں وہاں اُردو شاعرات بھر پور اس سہولت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں مستعد دکھائی دیتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سہولت اب ہر اُس شخص کے پاس میسر ہے جو کچھ نیا کہنا چاہتا ہے اور کسی پلیٹ فارم کی تلاش میں ہے۔ سوشل میڈیا آپ کو وہ پلیٹ فارم دیتا ہے جہاں آپ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ببانگ دہل اظہار کر سکتے ہیں۔ اب وہ زمانہ گیا کہ جب اظہار پر کسی کی گرفت اور کلی دسترس ہوتی تھی۔ جو کہا جائے وہ سنا جائے اور جو لکھا جائے وہ دوسروں تک پہنچ کر رہے گا۔
اب اس مقام سے رستے جدا ہیں تیرے مرے
حوالے رب کے چلے جاؤ اور بھلانا نہیں
صائمہ آفتاب کا شمار اکیسویں صدی کی مابعد جدید اُردو غزل کے معتبر سخن وروں میں ہوتا ہے۔ صائمہ آفتاب بہت کم کہتی ہیں لیکن عمدہ کہتی ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہےکہ عمدہ کہنے اور بجا کہنے کا کیا مطلب ہے۔ امید کی جاتی ہے صائمہ آفتاب نسائی اُردو غزل کی روایت میں مروروقت کے ساتھ بنیاد ساز شاعرہ کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
گزشتہ شب سے وہ ہے شہر میں کہیں موجود
فضا میں خوشبوئے وابستگی رچی ہوئی ہے