1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد الیاس/
  4. لاہور کے بعد کئی لاہور

لاہور کے بعد کئی لاہور

اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہےاور وہ کسی کاباپ ہےنہ کسی کابیٹا اس کے تمام اختیارات سوائے چند ایک کےسب اپنے پاس رکھے ہیں کچھ نا سمجھ انسان اسکی نقل کرتے ہوئے دنیاوی اختیارات اپنی ذات کی حد تک محدود کر لیتے ہیں جس سے معاشرے میں کئی قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک گھر میں والدین جو کہ ایک چھوٹی سی سلطنت کے بادشاہ ہوتے ہیں اپنے اختیارات آگے اپنی اولاد کو منتقل نہیں کرتے جس کی وجہ سے کئی گھر اُجٹر کر برباد ہوجاتے ہیں ۔اسی طرح سیاست کا یہی حال ہے کئی دھائیوں سے طاقت ور خاندان ملک کے سیاسی نظام کو جکڑ کر بیٹھے ہیں وہ اس کو اپنے بیٹے بیٹیوں اور پوتا، پوتیوں سے آگے منتقل نہیں ہونے دیتے اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس ملک کا نظام ہمارے سوا کوئی اچھے سے نہیں چلا سکتا۔

جب سے تھرڈ سیاسی پارٹی ملک میں آئی ہے رات دن شور وویلا ہی ہورہا ہے کہ ملک تباہ و برباد ہوگیا ہے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بھیڑ اور بکریوں کے باڑے میں بھڑیاداخل ہوگیا ہےہر طرف سے چیخوں کی آوازیں آرہی ہیں حالانکہ انکو نئے آنے والوں کو ویلکم کہنا چاہیےکیونکہ جب بھی ملک پر مشکل آن پڑی تو اُن لوگوں کی جائیدادیں باہر ہیں وہاں جا کر زندگی بسر کر لیں گے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف سموگ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن ہم اس کو برائے نام لے رہے ہیں جیسا کہ وزیر اعلیٰ صاحب اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے آرڈر دئیے ہیں کہ لاہور میں سکول کالج اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کر دی جائیں اس لئیے کہ لاہور میں ہماری رہائش ہے باقی سارا ملک بھاڑ میں جائے مرتا ہے تو مر جائے لیکن ہم محفوظ رہیں۔ جناب اعلیٰ اگر اس ایشو کو سیریس نہ لیا گیا تو چند دنوں میں لاہور کے بعد فیصل آباد کے لوگوں کی آنکھیں دُکھتی ہوئی سنیں گے اور اسطرح لاہور کے بعد کبھی سیالکوٹ، ملتان تو کبھی سرگودھا اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو دمہ سانس کی بیماریوں میں مبتلا دیکھیں گے۔ جب تک ہم اپنی سمت درست نہیں کریں گے۔

ایک سے ایک مصیبت میں مبتلاء ہوتے جائیں گے اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کی یہاں پڑھے لکھے لوگ بھی اَن پڑھ ہیں مثال کے طور پر میڈیا کسی بھی ملک کا چوتھا بڑا ستون ہوتا ہے اور اس نے تا قیامت قائم دائم رہنا ہے باقی کوئی حکومت دس سال اور کوئی 5 سال آتی ہے۔ میڈیا کو پراپر گائیڈ لائن دینی چاہیے جس سے ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفت میں کھڑا ہوسکے لیکن جونہی 7 بجے سے لے کرہمارے بھائی شروع ہوتے ہیں 11 بجے تک خوب تماشا لگاتے ہیں خوب ہنساتے ہیں حالانکہ ان کا کام ہنسانا نہیں ہےان ٹالک شوز میں، بلکہ ہنسانا تماشا لگانا جن کا کام ہے وہ اُس کو بخوبی سرانجام دیتے ہیں لیکن ان پر بھی افسوس نہیں کیا جا سکتا میں ٹی وی پر دیکھتا ہوں کہ جو کوئی نیا میزبان بیٹھتا ہے وہ اگلے ہی مہینے علم کا سمندر بن کر تجزیہ کار بن بیٹھتا ہے اور بڑے بڑے معجزانہ سوالات کر رہا ہوتا ہے اور تجزیہ نگاری کر رہا ہوتا ہے ۔

میرے خیال میں ان لوگوں کو پراپر پروگرام کرنے چاہیے جس میں اس بات کا شعور دیا جائے کہ کیسے ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں کہ کیسےسستی بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور زراعت وغیرہ پر پروگرام کرنے چاہیے۔ ہنسانے والا کام جن کا ہے ان کو کر نے دیا جائے پڑھے لکھے لوگوں کا یہ کام نہیں ہے۔ سموگ کے بارے میں چند گزارشات درج ذیل یہ ہیں:

لاہور کے بعد متبادل لاہور بنانے پڑیں گے مطلب یہ کہ کم از کم ہر ڈویژن کو صوبہ کا درجہ دیں گے تو روڈ پر رش نہیں ہوگا جس سے فیول ٹائم اور پیسہ بچے گا جسے لوگ ضروریات زندگی پر خرچ کریں گے اب لوگ رہائش خریداری اور ہائیکورٹ لاہور ہونے کی وجہ سے لاہور کا رُخ کرتے ہیں۔

سکول کالجز بند کرنے کے بجائے پابندی لگائی جائے کہ جہاں آپ کی رہائش ہے وہاں کے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کروائیں روڈ پر ٪75 گاڑیاں بچوں کو سکول کالجز میں چھوڑنے جارہی ہوتی ہیں مقامی سکول میں داخل کروانے سے ہم فیول، پیسہ، وقت اورسموگ سے بچ سکتے ہیں۔

مقامی ٹیچرز کا اُن کے گھروں کے نزدیک تبادلہ کیا جائےجس سے اُن کو ذہنی سکون میسر ہوگا اور اِس سےبھی فیول، پیسہ، وقت اورسموگ سے بچا جا سکتا ہے۔

سموگ صرف سردیوں میں نہیں ہوتی بلکہ گرمیوں میں گھروں میں چھپ کر کہیں بیٹھ جاتی ہے ایسے اقدامات سارا سال ہونے چاہیے۔

بھٹوں میں جلنے والے ٹائر اور پولٹری فارمز کا فضلہ بھٹوں میں جلانا سموگ کا سب سے بڑا سبب ہے لوگوں کو بھٹے کی بنی ہوئی اینٹوں کے بجائے سیمنٹ سے بنی اینٹوں کی طرف مائل کرنا چاہیے بھٹہ مالکان کو اس طرف راغب کرنا چاہیے ورنہ لاہور کے بعد کئی لاہور بنانا پڑیں گے۔

مردہ جانوروں اور کچرے کو اچھی طرح سے ڈمپ (دبانا) چاہیے سیورج کے ڈھکن نہ ہونے کی وجہ سے زہریلی گیس ہوا میں شامل ہورہی ہے ایسا نہ ہو کہ کئی دیہات اور دوسرے علاقے بھی لاہور نہ بن جائیں۔

فیکٹریاں آبادی والے علاقوں سے باہر ہونی چاہیے ورنہ سارے شہر لاہور بن جائیں گے۔

لاہور کے بعد کئی ایسے لاہور بنائے جائیں تاکہ بڑے شہروں میں آبادی کا تناسب کم ہوسکے۔

ہائی وے کی سڑکوں کو پبلک اور پرائیوٹ پارٹنرشپ سے ون وے بنایا جائے جس سے فیول وقت اور پیسہ بچایا جا سکتا ہے، جس سے سموگ اور دھواں کوبھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

زیادہ سےزیادہ جنگلات لگائے جائیں جس سے آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوگی تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکے گا اگر ہم نے غفلت کی تو لاہور کے بعد کئی شہر لاہور جیسی بیماریوں میں پھنس سکتے ہیں اور پھر ہمیں لاہور کے بعد کئی لاہور بنانے پڑ سکتے ہیں۔

ذرا سوچئیے!اگر آپ میری تجویز سے اتفاقِ رائے کرتے ہیں تو پاکستانی ہونے کے ناطے یہ تجویز آگے شئیر کریں۔