1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد الیاس/
  4. نہ کچھ لو، نہ کچھ دو کی کامیاب پالیسی

نہ کچھ لو، نہ کچھ دو کی کامیاب پالیسی

پاکستان کو معرض ِوجودمیں آئے 73سال ہوچکے ہیں۔ ان دھائیوں کے دوران مختلف قسم کے حکمرانوں نے حکمرانی کی کوئی اپنے آپ کو جمہوری کہنے کا دعوے دار ہواتو کسی نےاپنے اقتدار کو لمبے عرصے تک چلانےکے لیےمارشل لاء لگایا۔ بڑے بڑے مقبول لیڈر بھی آئے۔ ایک چیز مارشل لاء اور جمہوری والوں میں مشترک رہی کہ اس ملک میں زندہ باد کے نعرے لگانا اور پاکستان کی خاطر جان قربان کے کھوکھلے نعرے لگانا اور انتہائی بے دردی سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھنا۔ اس بچارے ملک کا جس کا مذہب پوری دنیا سےاچھا اور پر امن ہے اس میں رہنے والی قوم جو تمام نبیوں میں سے سب سے افضل نبیﷺ کی امت ہےکہ بارے میں سوچنا گوارہ تک نہ کیا گیا آج ہمارے ملک کا شمار دنیا میں پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کے ہمارا ملک اتنا زرعی، اجناس، معدنیات سے مالا مال ہےاس کے باوجود اتنا پیچھے آخر کیوں زرا سوچیے! دوسرے ممالک قدرتی وسائل میں ہم سے آگے نہ ہیں مثال کے طور پر سوئیزلینڈ، جہاں صرف چٹیل میدان اور پہاڑ ہیں، دنیا کا خوبصورت ملک ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جہاں کئی ماہ تک برف پڑتی ہے، جس کی وجہ سے سبزے کا نام و نشان تک نہیں رہتا، کوئی پیداوار نہیں ہوتی جبکہ اس کے مقابلہ میں پاکستان میں کوئی بھی ایسا دن نہیں ہوتا جس دن زرعی اجناس مثلاً کماد، کپاس وغیرہ نہ آئے۔ ہر قسم کے معدنیات نکالنے میں کسی بھی قسم کے حالات متاثر نہیں کرتے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ ملک درجِ ذیل وجوحات کی وجہ سے ہم سے آگے ہیں۔
وہ لوگ عقل کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم مرتے دم تک اس کو زیرو میٹر لے جانا چاہتے ہیں اگر اس کو استعمال کرتے بھی ہیں تو دو نمبر کام کے لیے۔
ہم لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہ ہیں۔ ہمارے ملک میں کڑوڑوں روپے کمانے والے بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں مزدوری کرنے والا بھی ٹیکس ادا کرتا ہےصرف وہی ملک ترقی یافتہ کہلا سکتے ہیں جس کی قوم ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتی ہے۔
یہاں گورنمنٹ کی سوچ یہ ہے کے نہ عوام سے کچھ لو نہ دو۔ جس کی مثال یہ ہے، عوام صبح سے لے کر شام تک سڑکوں کو استعمال کرتی ہے ماسوائےچند ایک سڑکوں کے24 گھنٹےسڑکوں پر سفر کریں آپ سے ایک روپے بھی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ آپ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں کریں گے گاڑی تباہ ہوجائے گی، فیول ڈبل لگے گا لیکن یہ سب کچھ برداشت ہےلیکن گورنمنٹ کےخزانے میں کچھ جمع نہیں کروانا کاش 10، 20 روپے وصول کیے جائیں اور اس سے سڑک کی رئپرنگ کردی جائےلیکن دونوں فریقین نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
آپ سرکاری ہسپتال چلے جائیں وہاں آپ سے ایک روپیہ نہیں لیا جائے گا فری علاج کیا جائے گالیکن ہسپتال میں نہ تو ڈاکٹر ہوگا نہ دوا۔ سرکاری ہسپتال سے باہر نکل کر وہی مریض 1000روپے ڈاکٹر کی فیس ادا کرتا ہے اور دوائی الگ سے لیتا ہے۔ میں 1993میں ایک گاؤں کے سرکاری ہسپتال میں گیا وہاں کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ پرچی فیس 5روپے ہوگی ان 5روپے کےبدلے ڈاکٹر بھی ہوگا اور دوائی بھی ملے گی۔ کاش سرکاری ہسپتال بھی ایسے ہو جائیں کے چند روپے کے بدلے ڈاکٹر بھی موجود ہو اور دوائی بھی ملے لیکن حکومت اور عوام نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
آپ ڈاکخانہ میں چلے جائیں وہاں سستے ترین پارسل وغیرہ کے اخراجات ہوں گے لیکن آپ ان سے سوال کریں کے پارسل کب پہنچ جائے گا تو آگے سے جواب ملتا ہے نصیب میں ہوا تو ضرور ان کو مل جائے گا جبکہ پرائیویٹ کمپنی3 گنا زیادہ فیس لے کر گارنٹی کے ساتھ یہی پارسل ایک سے دو دن میں پہنچا دے گی۔ لیکن سرکاری سطح پردونوں فریقین نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
اسی طرح آپ پی۔ آئی۔ اے کا ٹکٹ خرید لیں۔ سستا ترین سفر ہوگا لیکن فلائٹ کے بارے میں بتایا جائے گا کےاگر چائنا سے پرزہ آگیا تو 6 گھنٹے کی تاخیر سے جہاز ضرور اْڑان بھرے گا۔ پرائیوئٹ کمپنی میں ہر گز ایسا نہیں ہوتا یہاں بھی دونوں فریقین نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
ریلوے پھاٹک پر گاڑی سٹارٹ کر کے آپ گھنٹوں کھڑے رہیں گےاْس کے بعد آپ کو فری گزرنے دیا جائے گا کاش عوام سے 10یا 20 لئیے جائیں اور برج یا انڈر پاس بنوائیں جائیں لیکن یہاں بھی دونوں فریقین نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
ریل میں سفر دنیا بھر سے سستا ہوگا لیکن اگر بروقت انجن سٹارٹ ہوگیا وگرنہ 8گھنٹے کی تاخیر سے آپ منزل مقصود پر ضرور پہنچ جائیں گے۔ یہاں بھی دونوں فریقین نہ کچھ لو نہ کچھ دو کامیاب پالیسی پر خوش ہیں۔
آپ اگر اپنے بچے کو سرکاری سکول میں لے جائیں آپ سے ایک دھیلا نہیں لیا جائے گا۔ حالات آپکے سامنے ہیں سرکاری سکول میں اگر آپ سے لیا کچھ نہیں جاتا تو آپ کے بچے کو دیا بھی کچھ نہیں جاتا۔ یہاں بھی نہ کچھ لو نہ کچھ دو کی پالیسی کامیاب۔
پی۔ ٹی۔ سی۔ ایل: اسی طریقہ سے پی۔ ٹی۔ سی۔ ایل سے پوری دنیا سے سستی ترین کال کرائی جاتی تھی۔ سالوں پہلے چلنے والا پی۔ ٹی۔ سی۔ ایل کا نام ونشان مٹ گیا ہے لیکن چند سال قبل آنے والے پرائیویٹ ٹیلی نار وغیرہ اربوں کھربوں روزانہ کما رہے ہیں۔ کاش بدلتے وقت کے سات یہ اداراہ بھی خود کو بدلتا تو یہ ملکی ادارہ تباہ نہ ہوتا۔
سٹیل ملز: ہماری سٹیل ملز کا پوری دنیا میں ایک نام ہوتا تھا۔ ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش تھالیکن ہم نے اپنی ناقص عقل سے اس کو بھی تباہ کر دیا، اس کے بعد بننے والے پرائیوئٹ ادارے آج اربوں روپے کما رہے ہیں۔
اگر آپ کا واسطہ کبھی عدلیہ سے پڑ جائے تو تقریباً آپ کا کیس بھی فری میں ہو جائے گا اور آپ کی معاونت کے لئیے سرکاری وکیل بھی دستیاب ہوگا۔ مگر اس شرط پر کہ دادا کیس کریں اور وصیت پوتے کو لکھ دیں کہ فیصلہ سن کر قبرستان میں اطلاع دے دینا۔ یہاں بھی نہ کچھ لو نہ کچھ دو کی پالیسی کامیاب۔
کاش یہ سب کچھ فری میں دینے کے بجائے پورے پیسے لیئے جائیں اور وقت پر حقدار کو اْس کا حق دلوایادیا جائے تو اس کو ادا کیے گئے پیسے اور تھکاوٹ بھول جائے گی۔ یہ مختلف اقسام کی سبسڈیز قرض لے کر دی جاتی ہیں اسکی مثال اس شخص جیسی ہے جو بنک سے لون لے کر صدقہ خیرات کر رہا ہو اور اس شخص سے قرض لینے والے اسکے پیچھے پیچھے ہوں۔
گیس: جب سے پاکستان بنا ہے قوم انتہائی سستے ریٹ پر گیس استعمال کر رہی ہے ایسے سمجھے کے جیسے کوئی مفت میں چیز مل رہی ہو جیسے اس نایاب چیز کو بہت بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ بل انتہائی تھوڑا مثلاً عام گھر کا بل 200 سے 1000روپے تک ہوگا تھوڑی سی مہنگی کی گئی تو پورا آسمان سر پر اْٹھا لیا ہے میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر مٹی کا تیل یا کوئلے کو بھی جلائیں یا گوبر سےبنے پلے بھی استعمال کئیے جائیں تو یہ بل سے مہنگے ہونگے، نہ کچھ لو نہ کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنے کی وجہ سےآج گیس کا محکمہ اربوں روپے کے قرض تلے دبہ پڑا ہےخدارا اگر آپ ملک کو قائم دائم دیکھنا چاہتے ہیں تو سبسڈی کے بجائے پورا بل لیں۔
بجلی:بجلی پر آج سبسڈی دینے سے آج محکمہ واپڈا کا حال دیکھیں گھنٹوں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کاش یہ رعایت نہ دی جاتی پورا بل وصول کیا جاتا اور24 گھنٹےبجلی موجود ہوتی۔ بجلی کا تو بڑا آسان حل ہے بٹن آپ کے ہاتھ میں ہےجتنی آپ میں سکت ہے استعمال کریں لیکن لوڈشیڈنگ سے کاروبار تباہ ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ یوں ہی سستی بجلی دیں تو ملکی پہیہ کیسے چلا سکے گے۔ میری وزیراعظم سے درخواست ہے کے جنگ سے پرہیز کریں کیونکہ جو قوم اپنے ملک کی فلاح کیلئے100، 200بل ادا نہیں کر سکتی وہ کبھی جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔
نتیجہ: وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے ملک کے بلوں پر سبسڈی نہیں مانگتی بلکہ پورا بل ادا کرتی ہیں۔
یہ سن کر بھی آپ کو حیرانی ہوگی کہ سرکاری املاک سرکاری پارلیمانی اراکین خود لے لیتے ہیں یا اپنے عزیزوعقارب کی تقدیر بدلنے کے لیے99 سالہ پیریڈ کےلیے اونے پونے روپوں میں لیز کر دی جاتی ہیں جبکہ اسی کے ساتھ والی دکان یا رقبہ لاکھوں روپے میں کرائے پر دیا جاتا ہے جس سے ملک کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہی لوگ اپنے دکان، پلازے لیز پر99 سال کیلیئے کیوں نہیں دیتے زرا سوچیئے!
کاش یہ اپنے اقتدار کو لمبا عرصہ تک چلانے کے لئیے بیت المال سکیم اور بےنظیر انکم سپورٹ سکیم چلائی جاتی ہیں ان کے بدلے میں ان پیسوں سے سے فیکٹریاں اور ملیں لگا دی جائیں جہاں وہ عزت سے اپنا روزگار حاصل کرسکیں جبکہ ان سکیموں سے بھکاری پیدا نہ کیے جائیں بھلا 1000روپے دینے سے اس بندے کا علاج، خوراک اور متفرق اخراجات پورے ہوجاتے ہیں آپ کے اس 1000روپے سے قبل بھی تو وہ بندہ40، 50سال کا ہوگیا ہےکیا آپ نے پال پوس کر اسے بڑا کیا؟ رازق سب کا اللؔلہ تعالیٰ ہے۔ زرا سوچیئے!