1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد الیاس/
  4. پرانا اور جدید انسان

پرانا اور جدید انسان

حالات واقعات دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہےکہ4000 سال گزرنے کے باوجودحالات جوں کے توں ہیں۔ آج کے جدید دور میں انسان دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ چاند پر رہائش رکھنے کا سوچا جارہاہےلیکن میں سوچتا ہو ں کہ انسان نے اتنا تو ضرور کر لیا ہے کہ اپنے رہنے سہنے کے لیے بڑے عالی شان محل اپنی سواری کے لیےموٹرسائیکل سے لے کر ہوائی جہاز تک تیار کر لیا کھانے پینے کے لیے خوبصورت ہوٹل اور پینے کے لیےاعلیٰ مشروب تیار کر لیے ہیں لیکن اپنی سوچ کو اتنا ترقی یافتہ اور پٹرھا لکھا ہونےکے باوجود نہیں بدلا۔ ہزاروں سال پہلے بھی ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسان کو قتل کر دیاجاتا تھا۔ آج بھی چند سکوں کے عوض یا کوئی معمولی سا مالی فائدہ لینے کے لیےحتیٰ کے گدھا گاڑی سے لے کرانتہائی قیمتی گاڑیاں دوڑانے یا رستہ نہ دینے کی وجہ سے انسان کو قتل کر دیاجاتا ہےـ آج کے انتہائی تعلیم یافتہ دور میں انسان کو قتل کرنے والے آلات جیسے کے بندوق، پسٹل اور ایٹم بم وغیرہ بنانے والے کو نوبل پرائز انعام دیا جاتا ہےحالانکہ اس سائنسدان کو نوبل پرائز دینے کے بجائے دہشت گرد اور درندگی پھیلانےوالا شرم ناک انسان کہنا چاہیے۔ اگر یہی پڑھا لکھا انسان لوگوں کی فلاح اور بہتری کے لیے کام کرتا، انسانی زندگی کے لیے دوائی تیار کرتا، انسان کے گردوں، دماغ اور عضاء کی پیوند کاری کرتاتو پوری دنیا اچھےالفاظ میں یاد رکھتی اور مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا پوری دنیا جیسا کے امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ میں یہ سوچا جاتا ہے کہ دوسروں پر رعب اور دھاک بیھٹنا کے لیے جنگیں کی جاتی ہیں۔ پوری دنیا سے جنگ کا لفظ ختم کر دینا چاہیے کیونکہ اس میں جیتنے والا بھی انسانوں کا قاتل ہوتا ہےاور ہارنے والا بھی کیونکہ اس نے بھی انسانوں کو قتل کیا ہوتا ہے۔ کاش یہ سوچ پیدا کی جائے کےجتنا پیسہ اسلحہ بنانے اور خریدنے پر خرچ کرتے ہیں وہ انسانیت کی فلاح اور بہتری کے لیے خرچ کیا جائےتو یہی دنیا جنت کا سماں پیش کرنے لگے گی۔
آج کے اور جدید دور کے انسان میں فرق صرف یہ ہےکہ وہ انسان کو پتھر اور خنجر سے قتل کرتا تھااورجدید دورمیں پٹرھا لکھا اور مہذب انسان بیک وقت لاکھوں، ہزاروں انسانوں کوقتل کر دیتا ہے۔ اگر یہی رزلٹ ہے تو پڑھائی پر لاکھوں کھربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ زرا سوچیے!
اس انسان سے بہتر تو جنگل کے جانور ہیں جو ایک ساتھ جنگل میں رہتے ہیں، بھوک پیاس کے علاوہ نہ تو وہ کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ ہی رہنے کیلیے گھیرہ تنگ کرتے ہیں۔ انسان کی زندگی دنوں، سالوں پر محیط ہے لیکن وہ صدیوں رہنے کا سامان ذخیرہ کر رہا ہے۔
ہائے اے انسان اپنی سوچ کو بدل وگرنہ زمانہ تجھے جانوروں سے بدتر کہنا شروع کردے گا۔ زرا سوچیے!
میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ اس موضوع پر اقوام متحدہ میں توجہ دلوائیں کیونکہ ساری دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہ ہےجو انسان کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ 21ویں صدی میں تو شیر اور بکری کو بھی ایک پانی پیتے دیکھا جاسکتا ہے آخر ہم پوری دنیا والےتو پھر انسان ہیں۔ زرا سوچیے!