1۔ محکمہ ایجوکیشن میں ٹیچر ماسٹر ڈگری اور کم از کم بی ایڈ بھرتی کیا جائے۔ اس کا بنیادی سکیل 16 – 17 سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان تعلیمی میدان میں اس وقت ترقی نہیں کر سکتا جب تک انتہائی لائق اور پڑھے لوگوں کے اندر یہ تڑپ نہ ہو کہ میں نے اے۔ سی۔ اے، ایس۔ پی اور جج بننے کی بجائے ٹیچر بننا ہے۔ اب یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ لائق لوگوں کو زبردستی یا دیگر مراعات دے کر جس کی وجہ سے لوگ دوسرے اداروں کی بجائے ٹیچر بننا پسند کریں۔
2۔ نصاب میں کم از کم جماعت چہارم سے لیکر ماسٹر ڈگری تک ٹیکس کے بارے میں شعور اجا گر کیا جائے۔ اب پیاسا کوا اور شیر چوہا کی کہانیاں پڑھانے کا دور گزر چکا ہے۔ عوام کا یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ ٹیکس صرف سیاست دانوں کی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بلکہ بتایا جائے کہ اسی سے ہسپتال کالج اور سڑکیں بنتی ہیں۔
3۔ ٹیکنیکل ادارے بنائے جائیں جہاں صرف رٹہ نہ لگوایا جائے بلکہ وہاں سرکاری ورک شاپس ہوں جہاں لوگ اپنی موٹر کار بس، ویگن، ٹرک اور ضروریات زندگی کی دوسری خراب اشیاء لائیں ان کا سامان بازار سے لائیں اور مفت میں ٹھیک کروا کے لے جائیں اس طریقے سے عوام کو بھی ریلیف ملے گا اور سٹوڈنٹ ادارہ سے باقاعدہ انجینیر بن کر نکلیں گے وہ بجائے ملازمت تلاش کرنے کے اپنا روزگار چلائیں گے۔
4۔ میٹرک سے آگے صرف ایک مضمون جس میں طالب علم ماسٹر کرنا چاہتا ہے پڑھایا جائےتا کہ بچوں کی صلاحیت دوسرے اختیاری مضامین پر ضا ٰئع نہ ہو۔
5۔ کمپیوٹر میں بی-ایس-سی اور ایم-ایس-سی کرنے والے طلباء کو دوران تعلیم پریکٹیکل کام کروایا جائے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ماسٹر کرنے والے کو اپنا خراب کمپیوٹر ایک معمولی پڑھے ہوئے بندے سے لائن میں لگ کر ٹھیک کرواتے دیکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ ماسٹر کرنے والا لوگوں کو ٹھیک کردے اور نوکری کی تلاش کی بجائے اپنا کام کرے۔
6۔ اخلاقیات کے اسباق کورس میں شامل کیے جائیں۔ سرکاری املاک مثلاً سکول، کالج اور سڑکیں وغیرہ کے بارے میں طلباء میں شعور پیدا کیا جائے کہ یہ آپ کی ملکیت ہیں ان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو سرکاری املاک خراب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مثلاً لوگ خاص طور پر سڑکوں کو مختلف طریقوں سے خراب کررہے ہوتے ہیں اس سڑک پر علاقہ کا (ایس-ایچ-او ) (ڈی –ایس -پی) اور (ڈی-پی-او) صاحب تک گزر رہے ہوتے ہیں لیکن کروڑوں روپے سے بننے والی سڑک کا کوئی پوچھتا تک نہیں۔ اس سے مدمقابل جبکہ کسی سے معمولی سی رقم کا موبائل یا بکری چوری ہو جاتی ہے تو پورے علاقہ میں کہرام مچا ہوتاہے۔
7۔ میڑک کا امتحان طلباء سے تین مضامین کا لیا جائے۔ سائنس، انگلش اور ریاضی باقی مضامین پڑھائے جائیں بیشک امتحان بھی لیا جائےلیکن میرٹ میں ان کے نمبر کاونٹ نہ کیے جائیں۔ جیسا کہ اگر ایک طالب علم کے سائنس میں ٪ 95 ریاضی میں ٪ 100 اور انگلش میں ٪ 90 ہیں اردو اور جنرل نالج میں ٪ 55 ہیں آپ اس کو ڈی میرٹ کر دیتے ہیں کہ طالب علم کو یہ نہیں پتہ کہ غالب کب فوت ہوا تھا۔ میر تقی میر کس دن پیدا ہوا تھا۔ صرف اس وجہ سے آپ نے ایک سائنس دان اور ریاضی دان بننے والے طالب علم کو پیچھے دھکیل کر ملک اور قوم کو ایک ہیرو سے محروم کر دیا۔
8۔ دورانِ تعلیم بزنس سے متعلقہ سمینار منعقد کیے جائیں جس میں طلبا ء کو بزنس کے متعلق شعور دیا جائے تا کہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد طلبہ صرف نوکری کی تلاش میں نہ رہیں بلکہ مختلف کاروبار شروع کر کے اپنا مستقبل بنائیں۔ لوگوں کے پاس کروڑوں روپے ہونے کے باوجود وہ ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ کاروبار سے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں جو کہ ملک کی خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔