جناب جاوید چودھری صاحب عرصہ دراز سے میں آپ کے کالم پڑھتا ہوں۔ میں آپ کی بہت زیادہ تعریفیں کیا کرتا تھا کہ چودھری صاحب ایک نہایت ذہین اور فطین شخصیت ہیں بلکہ میں یہاں تک کہا کرتا تھا کہ اگر کسی نے اپنی زندگی میں بڑا انسان بننا ہے تو چودھری صاحب کے کالم ضرور پڑھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے خیالات اور تجربات میں بھی بہتری آتی گئی۔ اب حالات یہ ہو گئے کہ میرا دل اب نہ آپ کہ کالم پڑھنے کو کرتا ہے حتی کہ آپ کا پروگرام کل تک سے تو مجھے انتہائی نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھی بِکے ہوئے ہیں یا آپ کو بہت زیادہ نوازا گیا ہے۔ خیر بات آپ کے کالم اور پروگرام کی ہو رہی تھی۔ پروگرام آپ ایسے کر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی علم کا سمندر ہے آپ کے پاس یا آپ بہت مغرور انداز میں پروگرام کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ میرے جتنا نالج کسی انسان کے پاس نہیں ہے میں اس وقت یہ سوچتا ہوں کہ پروگرام ایک ان پڑھ اور جاہل انسان سے بھی کروایا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں لکھے پڑھے بندے کی ضرورت ہی نہیں آپ کے سامنے ایک سیٹ کے لئیے لڑنے والے یا وزیر بننے کے لئیے مجبور اور بے بس انسان بیٹھے ہوتے ہیں جنہوں نے ہرحال میں اپنی پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے کبھی کسی نے مانا ہے کہ ہماری یہ غلطیاں ہیں یا ہماری پارٹی کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے ہر حال میں کوئے کو سفید ہی کہنا ہوتا ہے رہا آپ کا نالج آپ نے یہ سوال کرنا ہوتا ہے مولانا دھرنا دن میں شروع کرے گا یا رات میں؟ آصف ذرداری کی صحت خراب ہے یا نہیں؟ میاں نواز شریف کی ضمانت ہوگی کہ نہیں؟ وہ علاج کے لئیے بیرون ملک جائیں گے کے نہیں؟ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے گا کہ نہیں؟ خدا کی قسم یہ سوالات تو ایک ان پڑھ اور گٹر صاف کرنے والا بھی کرسکتا ہے اور اسطرح ملک اور قوم کا ایک گھنٹہ ضائع کروا سکتا ہے۔
آپ اچھے تجزیہ کار اور سیاست دان اپنے پروگرام میں بلائیں اور آن سے یہ سوالات کریں کے ہمارا ملک ساری دنیا سے اتنا پیچھے کیوں ہے؟ اور ہم اس کو کیسے ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں؟ ترقی یافتہ ملکوں کے حالات واقعات بتائیں۔ پروگرام کے دوران آپ ایسے ہنس رہے ہوتے ہیں جیسے دیہات میں لوگ تیتر اور مرغوں کو لڑا کر ہنستے ہیں اس وقت آپ بلکل ایسا کر رہے ہوتے ہیں جیسے کسی نے شیطان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں تو اس نے کہا خدا کی قسم میں نہیں لڑاتا میں صرف اتنا کردار ادا کرتا ہوں کہ گڑ کے شیرے میں انگلی ڈبو کر دیوار پر لگا دیتا ہوں اُس پر مکھی بیٹھتی ہے مکھی کو مارنے کے لئیے بلی آتی ہے اور بلی کو مارنے کے لئیے کتا آتا ہے اور کتے کو مارنے کے لئیے بلی کا مالک فائرنگ کرتا ہے اور یوں ایک لامتناہی جنگ شروع ہوجاتی ہے خداراہ چودھری صاحب آپ کو اور حامد میر کو مُلک کی اور قوم کی بھلائی کے لئیے پروگرام کرنے چاہیے اور ایسے پروگرام منصور علی خان اور کامران شاہد جیسے لوگ کرسی گھما کر کرتے رھیں جن کے پاس نہ تو اتنا نالج ہے نا ہی وہ کوئی اور پروگرام کر سکتے ہیں۔
اگلے دن آپ کا کالم تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد پڑھ کر بُہت بُرا محسوس ہوا آپ نے میاں شہبازشریف کی تعریفوں کے پل تورڑ دئیے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپ عثمان بزدار کو پنجاب حکومت کے لئیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ کیا میاں صاحب تعلیم میں صحت میں پولیس میں حتیٰ کے تمام اداروں میں کون سے ایسے سسٹم لا گئے تھے جوعثمان بزدار صاحب نے ختم کر دئیے اور پنجاب تباہ ہو گیا۔ 1947 میں جو حالات تھے آج بھی وہی ہیں۔ کاش میاں صاحب نے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر پنجاب میں ہی کم از کم بسم اللہ کر دیتے۔ میاں صاحب کے دور میں میرٹ بنانے کے لئیے لوگ ایجوکیشن کو ہی لے لیجئے، دھکے لے رہے ہوتے تھے آج عثمان بزدار کے دور میں ایک کلک پر آپ اپنا میرٹ کمپیوٹر پر دیکھ سکتے ہیں۔ میاں صاحب نے پنجاب پر دس سال حکومت کی بلکہ اگر اس کو 2 سے ضرب دی جائے تو کوئی قباحت نہ ہوگی کیونکہ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جو وزیر اعلیٰ ہو اور عین اُسی وقت اسکا بھائی وزیر اعظم بھی ہو جو ان کو اپنے ساتھ چین اور ترکی جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی سیر بھی کرواتا ہو۔ میاں صاحب کوئی ایسی پالیسی نہ بنا سکے جو اقتدار سے اترنے کے بعد لوگوں کے دلوں پر راج کرتی۔ یا آنے والی حکومت آپ کی پالیسی چلانے پر مجبور ہو جاتی۔ میاں صاحب کی مثال ایسے چرواہے کی تھی جو بہت طاقتور اور مضبوط ہو اور اپنے بھیڑ بکریوں کو دن رات ڈنڈے کے زور پر سنبھالتا ہو لیکن یہ نہیں سوچتا کہ ان کے لئیے چار دیواری بنا لے اور خود بھی آرام سے سوئے اور اور بھیڑ بکریاں بھی محفوظ رہیں اس طرح اگر میاں صاحب بھی اداروں میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح کوئی سسٹم بنا جاتے کہ میاں صاحب کے جانے کے بعد بھی ادارے آٹومیٹک چلتے رہتے جیسے میاں صاحب ان کے سر پر کھڑے ہوں۔
باقی رہے ترقیاتی کام میں نے میاں صاحب کو کبھی سڑک، پُل، یونیورسٹی، ہسپتال وغیرہ کا معیار چیک کرتے نہیں دیکھا تھا بلکہ صرف افتتاح کرتے ہی دیکھا۔ مغل بادشاہوں کے بنے پُل، مساجد آج بھی قائم ہیں لیکن پاکستان میں یہ چیزیں دس سال سے قبل ہی گر جاتی ہیں بعض اوقات تو افتتاح سے پہلے ہی گر جاتی ہیں۔
کام تیز کروانا کوئی فن نہ ہے بلکہ آپ ایسے بندے کو جو آنکھوں سے اندھا پیروں سے لنگڑا ہو کسی کام کا بھی ٹھیکہ دے دیں اور پیسہ وافر مقدار میں دے دیں اور اس کا رابطہ کسی اچھی فرم سے کروادیں وہ میاں صاحب سے بھی جلدی کام کروا دے گا کیونکہ نہ تو وہ معیار کو چیک کرسکتا ہے اور نہ ہی میاں صاحب نے کبھی معیار چیک کیا تھا اور جاوید چودھری صاحب آپ نے میاں صاحب کی تعریفوں کے پل باندھ رکھیں ہیں رات سونے سے پہلے اس سب پر سوچیے گا ضرور۔
زرا سوچئیے!