تعلیمی سال یکم اپریل کے بجائے یکم جنوری سے شروع ہونا چاہیے۔ اس طریقہ سے گرمیوں کی چھٹیوں سے قبل 5 ماہ ہونگےجن میں ٹیچر کورس مکمل کروائیں گے اور چھٹیوں کے بعد دہرائی شروع ہوجائیگی۔ قبل یہ اپریل میں پڑھائی شروع ہوتی ہے اور مئی میں چھٹیوں کی افواہ گرم ہو جاتی ہے۔
امتحانات 15نومبر سے شروع ہونے چاہیے ایک دن پنجم اور دوسرے دن ہشتم کا پیپر ہو اس طرح 10 دنوں میں پیک امتحانات ختم ہوجایئنگے۔ اس طرح ایک دن نہم اور ایک دن دہم کا پیپر ہو اس طرح سے پیپر میں وقفہ بھی ہوگا اورتقریباً 15سے 20 دنوں میں سکینڈری بورڈ کا امتحان مکمل ہوجائے گا حتی' کے ماسٹر ڈگری تک اس طریقہ سے امتحان لئیے جائیں جبکہ اس سے قبل 2 فروری کو پیک امتحان شروع ہوتا ہے اور 30 جون تک امتحان کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ امتحان پر اساتذہ کی ڈیوٹی 30 جون تک رہتی ہے۔ جس سے تعلیم کا ستیاناس ہو جاتا ہے اور پڑھائی کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری ادرے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ہر یونین کونسل میں ایک آئی –ٹی پرسن بھرتی کیا جائے۔ جس کے ذمہ یونین کونسل کے میل فی میل اداروں کا ہر قسم کا ریکارڈ موجود ہو سکول فنڈ سے لے کر ٹیچر کی سروس بک تک کا آن لائن ریکارڈ موجود ہو۔ سرکاری ڈاک وہی آن لائن دفتر بھیجے۔ اس سے آپکا ڈیٹا بھی درست ہوگا اور اساتذہ بھی پڑھائی پر 100 فیصد توجہ دے سکیں گے اور وہ پڑھائی سے متعلق جوابدہ بھی ہونگے۔
امتحانات پر حاضر سروس اساتذہ کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے کیونکہ وہ نقل کا سبب بنتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی کی وجہ سے پڑھائی کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ امتحانات پر ڈیوٹی صرف ریٹائرڈ افراد کی لگائی جائے اس سے نقل کا رجحان بھی کم ہوگا اور تعلیمی معیاربھی معیاری ہوجائے گا اور اس طریقہ سے ریٹائرڈ ملازمین کی مالی امداد بھی ہوجائے گی اور وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود کفیل ہونگے۔
اپریل۔ مئی۔ جون۔ اتنے شدید گرم موسم میں امتحانات لینا طلباء کے ساتھ سخت ناانصافی ہے، ذرا سوچیے! کمرے کے اندر 40 طلباء ہوں اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بھی نہ ہو تو کیا انھوں نے خاک پیپر دینا ھے۔ اس کے علاوہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طالبعلم مناسب طریقہ سے امتحانات کی تیاری بھی نہیں کر سکتے۔ زرا سوچیے!
اس بات پر خصوصی توجہ دی جائے کہ اتنے بھاری بھر کم بیگ سے معصوم بچوں کی جان چھڑائی جائے۔ اتنا بھاری بستہ اٹھانے کی وجہ سے چھوٹے بچوں کے کندھوں اور ریڑھ کی ہڈی کےمسائل جنم لے رہے ہیں کورس طویل ہونے کی وجہ سے بچے پریشان رہتے ہیں۔ زرا سوچیے!
"او۔ ایس۔ سی" کڑوڑں بچے جو سکول میں داخل نہیں ہوتے ان کو سکول میں داخل کروانے کا واحد ایک ہی طریقہ ہے۔ کہ ہر ضلع میں ایک مجسٹریٹ بھرتی کیا جائے جن کا کام صرف بچے سکول نہ بھیجنے والے والدین کو سزا یا جرمانہ کرنا ہو۔
اس کے علاوہ ان کا کام یہ ہو کہ صبح سویرے جونہی ادارے کھلنے کا ٹائم شروع ہو وہ ملازمین کی حاضری چیک کرنا شروع کر دیں۔ ان کے راستے میں جو بھی ادارہ مثلاً سکول، کالج، ہسپتال، ڈاکخانہ، یونین کونسل وغیرہ وغیرہ چیک کرتے جائیں۔ اس طرح تمام اداروں کی حاضری بھی 100 فیصد درست ہو جائے گی اور ملازمین کام کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اس ایک آفیسر کی بھرتی کی وجہ سے آپ کے تمام اداروں کی حالتِ زار چند مہینوں 100 فیصد درست ہو جائے گی۔ زرا سوچیے!
فی میل اساتذہ کے تبادلہ پر کبھی بین نہیں ہونا چاہیے تاکہ خالی سیٹ پر تبادلہ کرواسکیں۔ عام تاثر یہ لیا جاتا ہے کہ اگر اس وقت تبادلہ کیا تو بچوں کی پڑھائی کا نقصان ہوگا لیکن یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ جس خالی سیٹ پر ان کا تبادلہ کرنا ہے وہاں بھی ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے۔
پرائمری یا مڈل سکول میں تعینات ایم۔ فل یا پی۔ ایچ۔ ڈی ٹیچر کو ان کے تعلیمی معیار کے مطابق سکینڈری یا ہائرسکینڈری سکول میں تعینا ت کیا جائے تاکہ ان کی تعلیم فریش ہوتی رہے، بجائے اس کے کہ پرائمری سکول میں رہ کر ان کی تعلیم کو زنگ لگنا شروع ہوجائے۔ زرا سوچیے!