امرتا کی کردار دھنو ایک متمول گھرانے کی لڑکی، جو ایک لڑکے کی محبت میں گھر سے چلی آئی، لیکن لڑکے نے اسے دوسرے کے ہاتھ فروخت کرنا چاہا تو اس نے عقل مندی سے اس سے خلاصی حاصل کر لی اور بہادرانہ انداز میں اکیلے زندگی گزارنے لگی۔ جس گاوں میں دھنو نے زندگی گزاری، مرتے وقت اپنا مکان اور تھوڑی سی زمین گاوں میں موجود لڑکیوں کے اسکول کے نام کر دی، دھنو کے آخری الفاظ تھے "لڑکیاں چار حروف پڑھ لکھ جائیں تو ان کی زندگی برباد نہ ہو"۔
آہ امرتا پریتم آپ نے تو افسانہ لکھ کر مہذب انداز میں پیغام پہنچا دیا لیکن کون سمجھا ہے۔
عصر حاضر میں بھی خواتین کی تعلیم پر پابندی ہے، جہاں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے وہاں حالات سازگار نہیں اور جہاں تعلیم یافتہ افراد رہتے بستے ہیں وہاں بھی ایسے رویئے ایسے جملے، ایسے برتاو ہیں کہ دل خاکستر ہوا جاتا ہے اور کلام نرم و نازک بے اثر ہے۔
عورت کو ہر روپ میں ملکیت سمجھنا خطے کے نفسیاتی نصاب میں ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا واقعہ نیا نہیں، اس سے ملتے جلتے کئی واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں، بلکہ وقتا فوقتا ایسی خبریں آتی ہیں۔
یہ طاقتور کی ملکیت کا وہ برتاو ہے جو نہ صرف گھر کی عورت پر برتا جاتا ہے بلکہ سڑک پر گزرتی خاتون، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی خاتون، آفس کولیگ، گھریلو ملازمہ حتی کہ سوشل میڈیا پر بھی یکساں طور سے برتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ عورت کے حقوق کی بات کرنے والیاں عورتوں کو بے حیا بنا رہی ہیں، آخر مردوں کو کس نے اتنا بے حیا بنا دیا کہ ان کو بہن، بیٹی کی تمیز ہی نہیں رہی۔
آمنے سامنے گفتگو ہو یا سوشل میڈیا۔ اکثریت کی یہی رائے ہوتی ہے کہ عورت ملکیت ہے اور صرف دلداری اور جسمانی سکون حاصل کرنے کے لئے ہے۔
آفس ورکرز کے لئے یہ کہنا کہ وہ باس کا دل لبھاتی ہے، اس بات کا اعتراف ہے کہ مرد باس بھی صرف یہی چاہتے ہیں کہ ورکر ان کی ملکیت رہے اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے بجائے ان کا دل لبھائے۔
حقیقت میں ایسا ہو یا نہ ہو، اکثریتی عامیانہ و سطحی سوچ یہی ہے اور اسی عامیانہ سوچ کی وجہ سے ہر عمر کی عورت ہر جگہ غیر محفوظ ہے۔
کوٹ ادو میں نو سالہ بچی کو ایک نو عمر لڑکے نے ریپ کیا۔
ایک پندرہ برس کا لڑکا ایسا فعل اسی عامیانہ سماجی رویئے کی بدولت کر پاتا ہے جس میں وہ دن رات عورت کے بارے میں منفی سوچ اور الفاظ سنتا ہے اور عورت کو ملکیت تصور کرتا ہے۔ عورت دشمن یہ منفی سوچ پروان چڑھانے والے نام نہاد مذہب پرست اور وہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنے مفاد کے لئے ایسے لٹریچر کی اشاعت کرتی ہیں جو عورت کے حقوق کو مذہب کے نام پر دائروں میں مقید کرتا ہے یہ لٹریچر پڑھ کر کم فہم اور بے شعور افراد سوشل میڈیا پر بھی ایسی تحاریر لکھتے ہیں اور لیکچر بھی دیتے ہیں۔ بد تہذیبی کی اس روش میں بدقسمتی سے خواتین خود بھی شامل ہیں، وقتا فوقتا ایسے بلاگز و ویڈیو لاگز نظروں سے گزرتے ہیں جس میں خواتین دوسری خواتین کو لعن طعن کر رہی ہوتی ہیں وہ اس جبر اور پدر شاہی سوچ کے خلاف بات کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے پر زور دیتی ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ پڑوسی ملک میں خواتین کی تعلیم کے خلاف، ان کے معاش کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں کی ہمارے عوام زور شور سے حمایت کرتے ہیں، اس حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو ابھی تک انسان کے درجے پر بھی نہیں سمجھا جاتا جب کہ مذہب نے اسے تعلیم و معاش حاصل کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کبھی اقلیتی لڑکیوں اور بچوں کے لئے آواز بلند نہیں کرتیں جو اغوا اور جبری نکاح کا نشانہ بنتی ہیں، سکھر کی پانچ سالہ معصوم پریا کماری دو ہزار اکیس میں اغوا ہوئی، معصوم بچی ماہ محرم کی سبیل میں بنایا گیا شربت بانٹ رہی تھی لیکن کسی ظالم نے اسے اغوا کر لیا، پریا کماری کی تلاش تا حال جاری ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں سورت النساء کی آیت نمبر 19 میں واضح حکم ہے کہ اے ایمان والوں تم کو یہ مناسب نہیں ہے کہ عورتوں کی جان اور انکے مال پر جبرا قابض ہو جاو۔ مخاطب ایمان والے ہیں اور خواتین کے لئے واضح طور پر نہیں لکها کہ ایمان والیاں یا مشرکین خواتین۔
اللہ کو اپنے بندے کا ظالم بن جانا پسند نہیں اسلئے بار بار فرمایا۔ ظالمین میں سے نہ ہو جاو۔ اللہ علیم و حکیم ہے اور اسکے علم میں ہے کہ ایمان والے مرد مسلمان خواتین کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خواتین پر بهی نظر رکهیں گے اسی لئے حکم دے دیا کہ تم کو مناسب نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں دیکها جائے تو تم کو زیب نہیں ہے۔ تیسرے الفاظ سے دیکها جائے تو تمہارے لیے اچها نہیں ہے کہ تم عورتوں کی جان و مال پر زبردستی تصرف کر لو۔
یعنی یہ اللہ کےنزدیک ناپسندیدہ ہے۔ خاتون چاہے مسلمان ہو چاہے ہندو یا کرسچن۔ ایک مسلمان مرد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ زبردستی اس خاتون سے نکاح کر لے یا اپنے گھر میں رکھ لے یا اس کی جان لے لے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خواتین کے تحفظ کے لئے ایسا بیانیہ ترتیب دینا ہوگا جس کی مد میں یہ باور کروایا جائے کہ خواتین کو دوسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے۔ خواتین کے لئے مذہب نے جو احکامات اور حقوق دیئے ہیں ان پر عمل درآمد کروایا جائے نہ کہ قبائلی و روایتی طور سے خواتین سے برتاو کیا جائے۔ خواتین نہ صرف گھر بلکہ گھر کے باہر بھی محفوظ ہوں۔