بر عظیم پاک و ہند قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں کے امتزاج کا خوبصورت گلدستہ ہے۔ گنگا جمنا، حیدر آباد دکن، وادی مہران، وادی نیلم، گلگت بلتستان کی وادیوں، کوہ ہندوکش و ہمالیہ کی عظیم چوٹیوں اور دریاؤں کے سنگم پر پنپنے والی عظیم تہذیبوں کے دیو مالائی قصے ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔
مختلف زبانیں، مختلف لباس، مختلف پکوان، مختلف روایات اور شادی بیاہ کی رسومات۔ خطے میں باہر سے آنے والے چاہے دوست ہوں، سفارتی نمائندے ہوں۔ حملہ آور ہوں یا غاصب کوئی بھی خطے کی تہذیب کو نہ تبدیل کر سکا، نہ ہی پائمال کرسکا۔ ہاں البتہ متاثر ضرور ہوا۔
خطے کی سب سے قدیم اور بھرپور روایتی ثقافت "پشتون ثقافت" ہے۔ تئیس ستمبر کو پشتون ثقافت کا دن منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پشتون ثقافت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دو ہزار برس قدیم ہے، بلاشبہ پچھلے دو ہزار سالوں میں اس میں کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ لیکن اب بھی پشتون روایات میں وفاداری، مہمان نوازی، انصاف، ہمت، بہادری اور دوستی کو اہمیت حاصل ہے۔
پشتون اپنی زبان پشتو کی بہت قدر کرتے ہیں۔
نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں گزشتہ کئی برس سے پشتون کلچر ڈے منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس برس بھی اسلام آباد میں سورمیون کلچرل اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SCDO) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں خواتین اور بچوں نے پشتون ثقافتی دن جوش و خروش کے ساتھ منایا۔
متنوع ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد 'پشتون کلچر ڈے' منانے کے لیے اتوار کو ایف 9 پارک میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی۔ تاکہ پاکستان کے ثقافتی تنوع کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا جا سکے۔
اس تقریب میں، شرکاء نے روایتی پشتون لباس پہن کر ثقافتی ورثے کو اپنایا جو ملک کے اندر ایک ساتھ رہنے والی مختلف قوموں اور ثقافتوں کی خوبصورت روایات کی عکاسی کرتا تھا۔
تقریب کا مقصد پاکستان میں یکجہتی اور خوشحالی کی فضا کو فروغ دینا تھا۔ سورمیون کلچرل اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی بانی گلناز شیخ نے کہا کہ یہ جشن خوشحال اور متحد پاکستان کے لیے امید کا پیغام ہے۔ ہم خواتین کی سرکردہ تنظیم کے طور پر نہ صرف متنوع ثقافتوں کا جشن منا رہے ہیں بلکہ قومی سطح پر تمام ثقافتوں کے لیے شمولیت اور احترام کا جذبہ بھی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ سب کے لیے اس طرح کے مزید مواقع پیدا کریں، اپنے اپنے نسلی پس منظر سے قطع نظر، جہاں سب لوگ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے ثقافتی فخر کا اظہار کر سکیں۔ یہ تقریب اس بات کی علامت ہے کہ مشکل ترین وقت میں بھی پاکستان میں اتحاد اور یکجہتی ممکن ہے۔
تقریب کی منتظمہ ڈاکٹر انیلہ جن کا تعلق بنوں شہر سے ہے، کہا "بطور خواتین، ہم ثقافت کی علمبردار ہیں اور اس طرح کی تقریبات ہمیں روایات اور اقدار کو منتقل کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں"۔
شبانہ جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ وہ بھی اس تقریب کی منتظمین میں سے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ تقریب میں بھرپور طریقے سے شریک ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا، مختلف اقوام کے ثقافتی دن ہمارے بچوں کو ان کی تاریخ سے جوڑتے ہیں اور با معنی انداز میں بھائی چارے اور اقدار و روایات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔
منتظمہ ندا ڈایو نے کہا، آج کا جشن اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہمارے ملک میں غیر یقینی صورتحال کے باوجود، ہم اب بھی پاکستان میں تمام برادریوں اور ثقافتوں کے لیے اتحاد اور حمایت کے جذبے سے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
مصنفہ، سماجی کارکن۔ سیاست دان مطربہ شیخ جن کا تعلق کراچی سے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا خطہ مختلف النوع کے ثقافتی پس منظر کا حامل ہے۔ وادی مہران سے وادی نیلم تک ہم سب خوبصورت روایات کے حامل ہیں۔ آج اس تقریب میں بطور مہمان شریک ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ مختلف طبقہ فکر اور ثقافت سے تعلق رکھے والی خواتین سے ملاقاتیں ہوئیں۔
پشتون پکوان چکھے اور ان کی تراکیب سیکھیں۔ اس طرح تمام ثقافتوں کے دن منانے کی بہت اہمیت ہے، جب ہم ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ہم مضبوط ہوتے ہیں اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ امن، محبت اور ادبی و تہذیبی آوازوں کو بلند کیا جائے۔
تقریب کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوا، شرکاء نے مختلف ثقافتی سے لطف اندوز ہونے اور مستقبل میں ایسی تقریبات کے انعقاد میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔
روایتی ثقافتی دن پاکستان میں امن و اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔