1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. مطربہ شیخ/
  4. روشنی کے تعاقب میں

روشنی کے تعاقب میں

شاعری ادب کا طاقتور اظہاریہ ہے، شاعری تخیل کی لامتناہی پرواز ہے اور حقیقت کی گہری کھائی ہے، اس کھائی میں جب اظہار کے پھول کھلتے ہیں تو شعر جنم لیتا ہے۔

کانٹے تو پھولوں کے جنم جنم کے ساتھی ہیں، کبھی خوشنما پھول حقیقت کے کانٹوں کے گھاو سے ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ لہو رستا ہے اور کبھی خیال کا ریشمی پیراہن ایسا سرسراتا ہے کہ روح تک خوشبو اتر جاتی ہے۔

کوشش کرتی ہوں کہ شعر کہہ سکوں لیکن اتنی جرات نہیں ہے کیونکہ اردو میں ہماری خواتین شاعرات اتنے اچھے شعر اور نظمیں کہہ رہی ہیں کہ فدویہ کی کیا مجال کہ اپنا بے وزن کلام ادب کے طاقچے پر دھرنے کی کوشش کرے۔

نسائی شاعری رومانویت، جرات رندانہ کا اظہار، فکری شعور اور عورت کے جذبات کا اظہار ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا کی بدولت اپنا طاقتور اظہاریہ خوبصورت کلام کی صورت پیش کرنے والی کئی خواتین سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک ایسی ہی خوش جمال و خوش اخلاق شاعرہ "نیر روحیل" سے ملاقات ہوئی، جب انکی کتاب "روشنی کے تعاقب میں" کا مطالعہ شروع کیا تو سرشاری کی کیفیت طاری ہوگئی۔

نیر روحیل کا بامعنی تخلیقی اظہار انکے اندر پوشیدہ دردمند، حساس اور ایک مضبوط شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ نیر کی جمالیاتی حسیات بہت طاقتور ہیں، یہ جمالیاتی اظہار ذات کے نہاں خانے میں پوشیدہ احساسات کو بھی بیان کرتا ہے۔

بہت سی خوش کن نظمیں دل کو چھو گئیں۔

پاکستان میں فہمیدہ ریاض صاحبہ، تنویر انجم صاحبہ کی نظمیں اور انڈیا میں شبنم عشائی صاحبہ کی نظمیں مجھے بہت پسند آتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کہ میرے ہی تخیلات و احساسات ہیں۔

نیر روحیل صاحبہ کا کلام پڑھ کر بھی ایسے ہی اپنائیت بھرے محسوسات نے جنم لیا اور میں بے ساختہ تبصرہ لکھنے پر مجبور ہوگئی۔

شاعرہ نے سادہ انداز میں حقیقت و تخیل کے رنگین و سنگین تانے بانے بنے ہیں۔

ایک خوبصورت نظم "اجی" کے عنوان سے ملاحضہ فرمایئے۔

اجی

ہاتھوں کی اوٹ بنا کر جب

سگریٹ سلگاتے ہو

پھر اس کے دھویں سے بچنے کے لئے

آنکھیں ذرا موند لیتے ہو

کتنے پیارے لگتے ہو

اجی سنتے ہو

میں روز تمھارے کالر میں

نیا پھول ٹانک دیتی ہوں

تم اپنے ہاتھ میرے شانوں پر دراز کرتے ہو

میرے سرد ہاتھوں کو گرمانے کے لئے

کبھی اپنی ہتھیلیوں میں داب لیتے ہو

تو کبھی جیبوں میں چھپا رکھتے ہو

بہت مہربان دکھتے ہو

اجی سنتے ہو

کبھی واک کے سمے

اپنے بچپن کے قصے سناتے ہوئے

یا پہاڑوں میں کوئی منظر اشارے سے دکھاتے ہوئے

میرا دھیان بھٹکاتے ہو

اور چپکے سے مجھے تکتے ہو

بہت شریر لگتے ہو

اجی سنتے ہو

جب بھی لکھنے پڑھنے کا کوئی کام کروں

تم جانے کیوں اکتا جاتے ہو

پھر جب بکھیر دیتے ہو میرے کاغذ قلم

بالکل زہر لگتے ہو

اجی سنتے ہو

جو بات زبان سے ادا نہ ہو سکی، شاعرہ نے نظم میں دلبستگی سے باندھ دی۔

اسی طرح ایک دوسری نظم بہ عنوان "فریب نگاہ" بھی بہت خوب ہے۔

فریب نگاہ

مضبوط، فراخ سینے کی پناہ گاہ

اور اس پناہ گاہ میں چھپا

کوئی سر

دوستو یہ منظر

ضروری نہیں

ہمیشہ ہی رومانوی ہو

کیا خبر یہ منظر

کوئی اور معنی بھی رکھتا ہو

کیا پتہ وہ سر

کوئی حقیر تنکا ہو

جو خواہش بقا میں

اس شہتیر سے لپٹا ہو

شاعرہ نے "ہائیکو" پر بھی طبع آزمائی کی ہے اور بے مثال ہائیکو کتاب میں موجود ہیں۔

رقص بسمل کے سوا کچھ نہیں

یہ کائنات

ایک دل کے سوا کچھ نہیں

ایک اور دلگیر ہائیکو

جانے کس غم کا چہرہ چھپائے گی

پیاز کاٹنے کے بہانے وہ

کھل کے آنسو بہائے گی

شاعرہ سماجی مسائل کا ادراک بھی رکھتی ہیں، نرم لہجے میں مزاحمتی نظمیں و ہائیکو ان کے کلام کا دل سوز پہلو ہے۔

کھیت کھیت ہریالی ہے

ہاری کے صحن میں پھر

بھوک نے جڑ جما لی ہے

بہانوں سے کہاں ٹلیں گے

آو جواب ڈھونڈیں

بچے سوال کریں گے

امید ہے کہ روشنی کے تعاقب کا سلسلہ دراز رہے گا، اور مستقبل میں ہم قارئین مزید نکھرا اور دلفریب کلام پڑھ سکیں گے۔

"نیر روحیل صاحبہ" کو انکے پہلے مجموعہ کلام کی بہت مبارکباد۔۔