سات سالہ فیضی نے ندیدوں کی طرح دودھ سے لبالب بھرے برتن کی طرف دیکھا، جو ابھی اسکا باپ کمرے میں رکھ کر گیا تھا، فیضی نے کنکھیوں سے ماں کی طرف دیکھا جو باپ کے لئے روٹی پکا رہی تھی۔ فیضی کے دیکھتے ہی ماں کو محسوس ہوگیا، وہ فورا بولی وے فیضی خبردار دودھ کی طرف دیکھا بھی، منشی تیرے باپ کو مارے گا، فیضی ڈھیلا سا ہو کر بیٹھ گیا، اور سوچنے لگا، صبح سویرے اٹھ کر میرا باپ اتنی ساری بھینسوں کا دودھ نکالتا ہے، لیکن سارا منشی کو دے دیتا ہے، اسے دودھ بہت پسند تھا، لیکن ماں باپ نے کبھی پیالہ بھرکر دودھ فیضی کو یا اسکے کسی بہن بھائی کو نہ دیا تھا، بلکہ جب بھی فیضی نے دودھ پینا چاہا، اسکو باپ کا تھپڑ ہی ملا تھا۔
فیضی اسی طرح دودھ کے برتن کو تکتے دوبارہ سو گیا، دن چڑھے وہ اور اسکے بہن بھائی سو کر اٹھے اور روکھی روٹی کھا کر گاوں کی گلیوں میں رلنے لگے۔
سہہ پہر کو ماں کھیتوں سے آئی اور پانچوں بچوں کو گاوں کے اکلوتے تندور پر جمع کرکے چند روٹیاں لگائیں جو بچوں نے پیاز کے ساتھ کھا لیں، ماں اور دوسری عورتیں تندور پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔۔
شام تک کھیتوں سے مرد بھی آگئے اور سب نے وہیں پر کھانا کھایا، ریڈیو پر خبریں سنیں اور پھر اپنے گھروں میں آکر سو گئے۔
برس ہا برس سے یہی معمول تھا، وہی کھیت، وہی خوراک، وہی غربت اور وہی ٹھاکر و منشی۔
اس لگے بندھے معمول میں ہلچل تب اٹھی۔ جب دنیا میں جنگ چھڑ گئی۔ ریڈیو پر جنگ زدہ ممالک کی خبریں ہر وقت آنا شروع ہوگیئں۔
ایک دن گاوں سے باہر جانے والی کچی سڑک پر بے شمار فوجی گاڑیاں آکر رک گیئں، گاوں والے پریشان ہو گئے، فوجی گاوں میں داخل ہوئے، ایک بڑی عمر کے فوجی نے تقریر شروع کی کہ ہم سب حکومت کی رعایا ہیں، ہمارا کام حکومت کی خدمت کرنا ہے اسلئے آپ لوگ فوج میں بھرتی ہو جاو اور مزدور لوگ ہمارے ساتھ سڑک پکی کرنے اور ریل کی پٹڑی بچھانے کا کام کرو۔ حکومت اپنی خدمات سر انجام دینے کا معقول معاوضہ دے گی۔
لوگ جذباتی ہو گئے، سب نے ہامی بھر لی۔
فوجیوں نے ادھیڑ عمر مردوں کو ریل کی پٹڑی بچھانے کا کام سونپ دیا، اور نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرکے دوسرے شہر روانہ کر دیا، گاوں میں رونق لگ گئی تھی، سادہ لوح عوام چند سکوں کے عوض ریل کی پٹڑی بچھانے کے لئے سخت محنت کر رہے تھے، اور اپنے نوجوان بچوں کو جنگ پر بھیج دیا تھا۔
گاوں کے بچے ویسے ہی خوراک کی کمی اور بنا تعلیم کے بے مقصد زندگی گزار رہے تھے، فیضی کا باپ ریل کی پٹڑی بچھانے کے مقام پر مزدوری میں جتا ہوا تھا، ماں کھیتوں میں کام کرتی اور بچوں کو ریل گاڑی آنے کے مقام پر جانے سے باز رکھتی۔
کئی ماہ گزر گئے، جنگ ختم نہ ہو رہی تھی، فوجی گاوں سے گندم، چاول و دیگر اناج اٹھا لے گئے۔
لوگ بھوکوں مرنے لگے۔
لیکن فوج کو پرواہ نہ تھی۔
ریل کی پٹڑی مکمل ہوئی تو دو دن بعد ہی ریل گاڑی اس پر سے گزرنے لگی، ہر گاڑی میں فوجی بھرے ہوئے ہوتے۔
لوگ پہلے تو شوق سے دیکھنے گئے لیکن گاوں اور اسکے آس پاس کے دوسرے گاؤں میں پھیلتی بھوک سے لوگ بےزار ہو رہے تھے، دور دراز ممالک میں ہونے والی جنگ فیضی کے چھوٹے سے گاوں کو بھی متاثر کر چکی تھی۔
فیضی اور اسکے بہن بھائی گاوں کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیتوں میں اگے خورد رو پودے کھاتے اور معصومیت بھرے کھیل کھیلتے رہتے۔
خدا خدا کرکے جنگ بندی ہوئی، چند ماہ سکون سے گزرے۔
پھر نیا ملک بننے کا غلغلہ اٹھا، پہلے پہل ریڈیو پر پھر گاوں میں آنے والے دوسرے گاوں کے لوگ بتانے لگے، کہ نیا ملک بن جائے گا، انگریز بھاگ جائے گا، جنگ میں انگریز کو شکست ہوگئی ہے۔
گاوں کے لوگوں کو چنداں پرواہ نہ تھی کہ نیا ملک بنے گا، وہ تو اپنے کھیت اگانے میں مگن تھے، اور ان جوانوں کو روتے تھے، جو جنگ میں مارے گئے تھے یا زندہ ہونے کے باوجود گاوں واپس نہ آ سکے تھے۔
ملک کے حالات خراب ہوتے گئے، تواتر سے نیا ملک بننے کی خبریں آتی رہیں۔
ریل گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی یہی بتاتے، ریل گاڑیاں اب گاوں کے قریبی مقام پر رکتی بھی نہ تھیں، بلکہ گزرتی جاتی تھیں۔
ایک دن ریڈیو سے اعلان ہوا کہ نیا ملک بن گیا ہے جس کا نام پاکستان ہوگا۔
سب نے حیرانی سے یہ خبر سنی، اور رات بھر باتیں کرتے رہے، دوسرے دن ملک بھر سے فسادات کی خبریں ریڈیو پر سنائی دینے لگیں۔
گاوں میں بھی لوگ ایک دوسرے کو گھورنے لگے لیکن ٹھاکر اور اسکا منشی سمجھدار آدمی تھے، انہوں نے گاوں کے لوگوں کو آپس میں دست و گریباں ہونے سے روکے رکھا۔
گاوں کا یہ امن چند دن کے لئے تھا، دوسرے گاوں و دیہات سے قافلے فیضی کے گاوں میں آنے لگے، کیونکہ یہاں سے ریل گزرتی تھی، قافلے والے افراد کے ذریعے حالات معلوم ہونے لگے۔
تو گاوں کے لوگ گروہوں میں بٹ گئے، ہر مذہب کا الگ گروہ بن گیا۔
ایک رات فیضی کے باپ نے فیضی کی ماں سے کہا، بچوں کے کپڑے لتے اور چند ضروری برتن باندھ لے، صبح منہ اندھیرے ہم بھی ریل گاڑی میں بیٹھ کر پاکستان نکل جائیں گے، پہلے تو فیضی کی ماں نے بحث کرنی چاہی۔
لیکن فیضی کے باپ نے دانت پیس کر اسے گھرکا اور سمجھایا کہ مرنے سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ ہجرت کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، تو فیضی کی ماں نے دو گٹھڑیاں باندھ لیں۔ صبح سے پہلے ہی سب بچوں کو گہری نیند سے اٹھا کر ریل گاڑی کی پٹڑی پر پہنچ گئے۔
دن نکل آیا لیکن ریل گاڑی نہ آئی، پٹڑی کے قریب ایک قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، انہوں نے ریل گاڑی کی پٹڑی کے ساتھ چلنا شروع کر دیا، فیضی کے باپ نے کہا چلو ہم بھی چلتے ہیں، چار و ناچار چلتے رہے، دوپہر کے بعد ایک ریل گاڑی آئی جو مسافروں سے بھری ہوئی تھی، اور اس میں جگہ نہ تھی، ریل گاڑی بغیر رکے گزرتی رہی، سب کھڑے بے بسی سے دیکھتے رہے۔
فیضی اور دیگر بچے تھک کر چور ہوچکے تھے لیکن بے چارگی سے چلتے جاتے تھے، شام کے دھندلکے میں ایک ریل گاڑی آتی نظر آئی، کچھ لوگ پٹڑی کے درمیان میں کھڑے ہو کر اسکو روکنے کی کوشش کرنے لگے۔ مسافروں سے بھری ریل آہستہ آہستہ رک گئی۔
جیسے تیسے سب سوار ہو گئے، اور فرش پر بیٹھ گئے۔
فیضی نے باپ کے کرتے کا دامن مضبوطی سے تھام لیا، اور پوچھنے لگا، ابا کب تک پاکستان پہنچیں گے۔
فیضی کے باپ نے کہا، پتر مجھے کیا معلوم۔
فیضی چپ رہا اور ریل گاڑی کے جھٹکوں سے خوف زدہ ہوتا رہا۔
فیضی کی ماں بھی پریشان تھی لیکن چپ تھی۔
ساری رات سفر کرنے کے بعد ریل لاہور پہنچ گئی، مسافروں نے خوشی سے نعرے لگائے۔
پاکستان آ گیا، پاکستان آ گیا۔
سب لوگ ریل سے اتر گئے اور اسٹیشن پر پھیل گئے فیضی کا خاندان بھی ریل سے اتر کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔
فیضی کی ماں نے پوچھا، اب کہاں جائیں گے فیضی کے ابا، یہاں تو گڈیاں ہی گڈیاں ہیں۔
فیضی کے باپ نے سوچتے ہوئے کہا، کہیں نہ کہیں تو چلتے ہیں، اسٹیشن سے نکل کر وہ لوگ ایک سڑک پر چلنے لگے۔
ابا مجھے بھوک لگی ہے، فیضی کا بھائی کہہ اٹھا۔
ہاں ابا مجھ سے چلا نہیں جاتا، فیضی بھی گڑگڑایا۔
فیضی کا باپ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سامنے سے دو آدمی آتے دکھائی دیئے، جن کے ہاتھوں میں تسلے تھے اور ان میں موجود پلاو سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔
وہ سب رک کر انہیں دیکھنے لگے۔
وہ آدمی ان کے سامنے سے گزرتے چلے گئے پھر ایک نے پیچھے مڑ کر دیکھا، چند قدم پیچھے آیا، اور بولا۔
مہاجرین ہو، آگے کیمپ ہے جاو وہاں کھانا ملے گا۔
وہ سب اچھا اچھا کہتے ہوئے تیز قدموں سے کیمپ کی طرف بڑھنے لگے۔
کیمپ میں عجب عالم تھا، لوگ زخمی اجسام و کٹے پھٹے اعضاء کے ساتھ ادھر ادھر پڑے تھے۔
کچھ بیمار تھے، بچے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ زمین پر بیٹھے آنے جانے والوں کو تکتے تھے۔
ایک طرف چند دیگوں سے پلاو بانٹا جا رہا تھا، فیضی کے باپ نے ہجوم میں گھس کر کسی طرح ایک تسلہ پلاو حاصل کر لیا۔
سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا اور کیمپ میں ہی بیٹھ گئے۔
چند دن فیضی کا باپ صورتحال کا جائزہ لیتا رہا، اور فیضی کی ماں سے کہتا رہا، شکر ہے ہم اپنے بچوں سمیت پاکستان پہنچ گئے، لیکن فیضی کی ماں کو اپنا گاوں اور گھر یاد آتا رہا، وہ وہیں کی باتیں کرتی رہی۔
فیضی و بچے بھی کھیتوں کو یاد کرتے رہے۔
فیضی کا باپ کیمپ میں ہی کام تلاش کرنے لگا، وہ محنتی آدمی تھا فارغ بیٹھنا اسے پسند نہ تھا، ایک دن ایک آدمی اسے ریلوے اسٹیشن پٹڑی کی مرمت کے لئے لے گیا، چند پیسے کما کر فیضی کا باپ شام کو کیمپ واپس آگیا۔
اسی طرح چند دن گزر گئے۔
ایک دن کیمپ میں ایک امیر آدمی آیا اسکے ساتھ ملازم اور کھانے کی دیگیں بھی تھیں، لوگ معمول کے مطابق کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ فیضی کا باپ ایک طرف کھڑا تھا، آدمی کی نظر اس پر پڑی تو ایک ملازم کو کھانے کا تسلہ دے کر اسکی طرف بھیجا۔
فیضی کے باپ نے منع کر دیا، جب سے مزدوری ملی تھی وہ اپنے بچوں کے لئے بازار سے کھانا لانے لگا تھا، اسے خیراتی بننا پسند تھا۔ تسلہ واپس کرنے سے خیرات دینے والے آدمی کو بڑی حیرت ہوئی وہ فیضی کے باپ کے قریب آیا اور پوچھا کیوں تم بھوکے نہیں ہو؟
فیضی کے باپ نے کہا، نہیں صاحب میں کسان ہوں، ضرورت پڑنے پر مزدوری بھی کر لیتا ہوں، اپنے گاوں میں ریل کی پٹڑی بچھانے کے لئے میں نے بھی کام کیا، اس نے فخر سے بتایا اور اپنے مزید کارنامے گنوانے لگا۔
آدمی مسکرایا، تم اچھے اور ایمان دار آدمی معلوم ہوتے ہو۔
میں تم کو نوکری دونگا۔ کرو گے؟ فیضی کے باپ نے جھٹ ہامی بھر لی۔
اس آدمی کے ملازم نے فیضی کے خاندان کو ایک چھوٹی موٹر میں بٹھایا اور کچھ دیر سفر کے بعد ایک عالیشان مکان کے سامنے موٹر روک دی۔ فیضی کے خاندان والے حیرت سے سب کچھ دیکھتے ہوئے اس آدمی کے پیچھے مکان میں داخل ہوگئے۔
اس آدمی نے انکو ایک صاف ستھرے کمرے میں پہنچا دیا اور کہا، کل سے تم کو کام بتا دیں گے۔
فیضی اور اسکے بہن بھائی کمرے کا سامان اور دیگر اشیاء چھو کر دیکھتے رہے، بجلی کا بلب جلا تو خوش ہوئے اور کمرے میں کھیلنے کودنے لگے، فیضی کے باپ نے سب کو ایک ایک تھپڑ مار کر بٹھا دیا۔
رات کو آلو گوشت کا سالن اور روٹیاں آئیں، سب بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا اور خوش ہو کر سو گئے۔ فیضی کا باپ فکرمند تھا کہ نہ جانے کیا کام کروائیں گے۔ دوسرے دن صبح وہی ملازم آیا جو ان کو لے کر آیا تھا، ناشتے کی ٹرے اسکے ہاتھ میں تھی۔
ناشتہ کے بعد وہ بولا، صاحب تو دوسرے شہر چلے گئے ہیں اور چند دن بعد آئیں گے جب تک میں تم کو جو کام کہوں وہ کرنا اور ہاں اپنی بیوی کو مکان کے اندر بھیج دو وہ صفائی کر لے گی۔ فیضی کے باپ کو گھر کے وسیع و عریض باغ میں پودوں کی کانٹ چھانٹ کے کام پر لگا دیا گیا۔
فیضی کے باپ نے ایک ہی ہفتے میں باغیچے کو مزید خوبصورتی و نکھار دے دیا، بچوں کو بھی اپنے ساتھ لگائے رکھا۔
امیر آدمی جب گھر واپس آیا تو اسے بہت خوشی ہوئی۔ اس نے فیضی سے کہا تمھاری مالی کی ملازمت پکی ہوگئی ہے۔ تم خوش ہو یہاں، کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔
فیضی کے باپ نے گردن ہلاتے ہوئے کہا، نہیں صاحب کوئی پریشانی نہیں، پاکستان میں تو سب اچھا اچھا ہے۔
امیر آدمی قہقہے لگانے لگا، پھر بولا۔
بے شک تم نے سچ کہا، یہاں سب اچھا ہے، اور گھر کے اندرونی حصے میں غائب ہوگیا۔
شام کو جب فیضی کی بیوی اپنے کوارٹر میں واپس آئی تو فیضی نے اسے بھی یہ خوش خبری سنائی، بیوی نے منہ بنا کر کہا، صاحب نے مجھے بھی یہی کہا ہے لیکن مجھے تو ان امیر عورتوں کی زبان ہی سمجھ آتی سب انگریجی بولتی ہیں اور مجھ سے کیا کہتی ہیں سمجھ ہی نہیں آتا۔
کیا پاکستان میں سب لوگ انگریجی بولیں گے، انگریج سے تو لڑتے تھے اب سب انکی زبان گھروں میں کیوں بولتے ہیں۔
فیضی کے باپ نے ڈپٹ دیا، شکر کر کام مل گیا، تنخواہ بھی ملے گی، پیٹ بھر کھانا مل رہا ہے، کل کو بچے بڑے ہونگے ان کے لئے تنخواہ سے بچت کرکے بازار سے کپڑے لتے اور جوتے لائیں گے۔
فیضی کی ماں نے تنک کر کہا، تو صاحب لوگوں کی نقل کر رہا ہے، تیری کیا اوقات ہے، گھر کے اندر ولایت سے آئے ہوئے برتن، کپڑے اور جوتے رکھے ہوئے ہیں وہ بھی یہ ڈھیر سارے۔
فیضی کی آنکھیں یہ سن کر کھل گیئں، اماں ولایت کے کپڑے اور برتن کیسے ہوتے ہیں؟ مجھے بھی دکھاو۔۔
باپ نے ڈانٹا چپ کر۔ خبردار گھر کے اندر بچوں کو لے گئی۔ صاحب نے منع کیا ہے کہ بس باغیچے اور کوارٹر تک رہو۔
فیضی اس وقت چپ ہوگیا، لیکن اسکے دل میں کھوج لگ گئی کہ گھر کو اندر سے دیکھے اور ولایتی اشیاء کو چھوئے۔
وہ گھر کے اندر داخل ہونے کے بہانے ڈھونڈنے لگا، جلد ہی اسے موقع مل گیا۔
گھر میں دعوت کا اہتمام ہوا تو نوکروں کی کام چور فوج نے فیضی کو ادھر ادھر دوڑائے رکھا، اے لڑکے سنبھال کر یہ گلدان باغیچے میں رکھو، کرسیوں کے کورز ٹھیک کرو، اے لڑکے
یہ پھول اندر لے جاو اور لمبی والی ملازمہ کو دے دو۔
دوسرے مالی نے پھولوں کا گلدستہ بنا کر فیضی کو دیا۔
فیضی کشاں کشاں گھر کے اندر داخل ہوا، جوش و خوشی سے اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، گھر کے اندر داخل ہوا تو اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا کیا سامان ہے، دیواروں پر پردے، سنہرے فریم سے مزین تصویریں، بڑے بڑےصوفے، میزیں، رنگ برنگی روشنیاں، چھت کے پنکھے، اور میزوں پر رکھے آرائشی برتن۔
فیضی دم بخود کھڑا ہو کر دیکھنے لگا، اچانک ایک ملازم نے سامنے آ کر ڈپٹ کر کہا اندر کیوں آئے ہو۔
فیضی نے گھبرا کر کہا یہ پھول دینے، لمبی والی بی بی نے مانگے تھے جی۔
ملازم نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا، جاو وہ ادھر ہے۔
فیضی اس طرف بڑھا، تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی میز پر کھانے پینے کا سامان رکھا تھا، ساتھ ہی ایک چھوٹی میز پر ایک خوبصورت بلوریں پیالے میں دودھ اور طشتری میں بسکٹ رکھے تھے۔
فیضی نے ندیدوں کی طرح دودھ کو دیکھا، اسے یاد آیا پاکستان آنے کے بعد سے اس نے دودھ ہی نہ پیا تھا، گاوں میں تو وہ ابا کی نظر بچا کر چند گھونٹ پی ہی لیتا تھا، اس نے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا لیکن ملازم آ جا رہے تھے، لمبے قد والی ملازمہ نے فیضی کو مخاطب کیا، اے لڑکے پھول مجھے دو۔
فیضی نے پھول اسے پکڑا دیئے۔ اور سب کی نظر بچا کر وہیں زمین پر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ملازمین مصروف تھے کسی نے توجہ نہ دی۔ فیضی کی نظر دودھ کے پیالے پر تھی۔
اس نے نظر بچا کر آہستہ آہستہ چھوٹی میز کی طرف کھسکنا شروع کیا، میز کے قریب پہنچ کر اس نے کپکپاتی انگلیوں سے بلوریں پیالہ اٹھایا اور اپنے منہ سے لگا لیا۔
ابھی چند گھونٹ ہی بھرے ہونگے کہ ایک لڑکی ایک بلی کو اٹھائے آ گئی اور فیضی کو دیکھ کر یکدم ٹھٹھک گئی، فیضی اسے نہ دیکھ سکا وہ خوشبو دار دودھ پینے میں مگن تھا، لڑکی کو جب سمجھ آیا تو وہ چیخنے لگی، یہ کون ہے اور اندر کیسے آیا اور میری بلی کا دودھ پینے لگا۔
فیضی کے ہاتھ سے پیالہ گر کر چکنا چور ہوگیا، دودھ و کانچ فرش پر پھیل گئے، بلی چھلانگ لگا کر لڑکی کی گود سے نکل کر کمرے میں ادھر ادھر بھاگنے لگی۔
لڑکی کی چیخ و پکار سن کر ملازمین اکٹھے ہو گئے۔
فیضی کی یہ حالت نہ تھی کہ وہ اٹھتا، وہ وہیں ساکت بیٹھا تھا، ایک ملازم نے فیضی کو تھیڑ لگایا اور بولا اندر کیوں آئے، فیضی چپ رہا اور سسکنے لگا۔
لڑکی نے بھی آگے بڑھ کر فیضی کو پے در پے ٹھوکریں رسید کیں اور چیخی بلڈی ایڈیٹ۔
ملازم نے چند مزید تھپڑ اور گھونسے لگانے کے بعد فیضی کو گھسیٹ کر گھر سے باہر باغیچے میں لا کر پھینک دیا اور اسکے باپ کو آوازیں دینے لگا، فیضی کے باپ نے یہ سب سن کر شرمندگی سے فیضی کو مزید مارا، گھر میں ایک ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن دعوت کی وجہ سے معاملہ رفع دفع کرکے فی الوقت فیضی کے باپ کو کوارٹر میں اپنے خاندان سمیت بند ہونے کا حکم دیا گیا۔
فیضی اپنے کوارٹر میں زمین پر پڑا سسکتا رہا اور باپ اسے گالیاں دیتا رہا۔ جب کہ ماں کہتی رہی، کہ کیا ہوا بچے نے چند گھونٹ دودھ پی لیا، ان کے خزانے میں کوئی کمی آ گئی؟ ہائے میرے غریب بچے۔ وہ دہائیاں دینے لگتی تو فیضی کا باپ اسے چپ کرا دیتا۔
گھر میں رات بھر دعوت چلتی رہی، اور کوارٹر میں فیضی کا خاندان بھوکا بیٹھا اپنے لئے فیصلے کا منتظر رہا۔
صبح فیضی نے آنکھیں نہ کھولیں، اسکی ماں چیخ چیخ کر رونے لگی کہ میرا بچہ مار دیا۔
فیضی کا باپ فیضی کے بے جان وجود کو گود میں اٹھا کر گھر کے باغیچے میں گیا اور چیخنے لگا مجھے انصاف چاہیے مجھے یقین ہے پاکستان میں انصاف ضرور ملے گا، اسکی چیخ و پکار سن کر گھر کے مالک نے بالکنی سے جھانکا کیوں صبح صبح شور مچا رہے ہو، احسان فراموش تم کو ملازمت دی۔ کھانا کھلایا اب تم غرا رہے ہو؟
فیضی نے باپ نے کہا میرا بیٹا مر گیا صاحب۔۔
آدمی غائب ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ نمودار ہوا، اور چند نوٹ اچھال کر بولا، جاو کفن دفن کردو، شکر کرو تم کو ملازمت سے نہیں نکال رہا ہوں۔