یہ سیمنیار چھ جولائی کو غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہوا۔ اس کے محرک ڈاکٹر سرور الہدیٰ اور منتظم ڈاکٹر محمد ادریس، ڈائریکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ، تھے۔ پاکستان سے تبسم کاشمیری، اصغرندیم سید اور مجھے مدعو کیا گیا تھا۔ ہم تینوں آن لائن شریک ہوئے۔ اس آن لائن سیشن کے صدر پروفیسر شافع قدوائی تھے۔
میں نے سرشار پر ایک مضمون پڑھا: "اردو ناول کا لکھنوی باب، رتن ناتھ سرشار اور ڈان کیہوٹے"۔ اس کا ایک حصہ اپنے احباب کی نذر ہے۔
"سچ یہ ہے کہ سرشار نے اس ناول (ڈان کیہوٹے) کی سیاسی قرأت کی ہے، اور اسے ترجمے میں بھی برقرار رکھا ہے۔ ڈان کیہوٹے کا لفظی مطلب، مثالیت پسند، بے عمل شخص ہے۔ سرشار نے اسے خدائی فوجدار کا نام دیا ہے۔ یعنی ایسا شخص جو دوسروں کے معاملات میں خواہ مخواہ دخل دیتا ہے۔
مثالیت پسند و بے عمل شخص اور خدائی فوجدار میں فرق ہے۔ سرشار کا ترجمہ من مانا ضرور ہے مگر سیاسی جہات رکھتا ہے۔ سرشار نے اس ہسپانوی ناول کے عنوان ہی کو نہیں، اس کے جملہ کرداروں، جگہوں، مقامات اور واقعات، مکالموں کو بھی ہندوستانی، لکھنوی بنادیا ہے۔ ان کے لیے ترجمہ، کسی متن کی اصل کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا عمل نہیں، بلکہ اپنی زبان میں ایک قابل فہم، دل چسپ، مانوس اور مفید متن تیار کرنے کا نام ہے۔
وہ لفظی ترجمے کے نظریے اور اصل متن کی ایک ایک لرزش کو احتیاط سے دوسری زبان میں ڈھالنے میں یقین رکھتے محسوس نہیں ہوتے۔ ان کے لیے اصل متن سے زیادہ، مترجمہ متن کا قاری اور وہ فضا اہم ہے، جس میں وہ متن پڑھا جائے گا۔ علاوہ ازیں وہ ترجمے کو ایک آڑ سمجھتے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ جو بات وہ راست نہیں کہہ سکتے، اسے ترجمے کے ذریعے کہتے ہیں۔
"فسانہ آزاد" بھی ڈان کیہوٹے ہی سے ماخوذ ہے، مگر اس میں وہ سیاسی اظہار سے گریز کرتے ہیں، جب کہ اپنے ترجمے یعنی "خدائی فوجدار " میں وہ سیاسی اظہار کرتے ہیں۔ مثلا وہ لکھتے ہیں کہ خدائی فوجدار کو یہ جنون ہوا کہ "دنیا میں جہاں تک ان کی رسائی ہوکوئی زبردست کسی زیردست پر زبردستی نہ کرنے پائے۔ کوئی ظالم کسی مظلوم پرظلم نہ کرے۔ گورنمنٹ سے رعایا کوصدمہ نہ پہنچنے پائے۔ الغرض ظلم اور جبر اور تعدی کا نام دنیا کے پردے سے یوں جاتا رہے، جیسے گدھے کے سر سے ڈان سینگ"۔ نیز کہ " شیطان نے ایک روز دور سے انگلی جو دکھائی تو دماغ مرغ وحشت کا آشیانہ بن گیا۔ سوچے پیٹ بھر کھاناتو صبح سے شام تک کتا بھی کھالیتا ہے، وہ انسان کیا جو دنیا میں آکے نام نہ کرے، اور سب سے بڑھ کے نام پید اکرنے کی یہ ترکیب ہے کہ زبردستوں کی زبردستی سے زیر دستوں کو بچائے۔ مردم آزاروں کی مردم آزاری سے غریبوں بے کسوں کو محفوظ رکھے۔ ظالموں سے خوب دل کھول مظلوموں کی طرف سے لڑے اور جبرا ور تعدی کا نام دنیا سے ایسا دور کردے جیسے گدھے کے سر سے سینگ"۔
ڈان کیہوٹے میں بس ایک سطر آتی ہے کہ اس نے اس مصیبت بھری دنیا کا خود کو نجات دہندہ سمجھا، جب کہ سرشار ایک سے زیادہ جگہوں پر خدائی فوجدار کے عزائم کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ وہ زیردستوں کو زبردستوں سے بچانا چاہتا ہے۔ یہ کہ " کوئی ظالم کسی مظلوم پر ظلم نہ کرے۔ گورنمنٹ سے رعایا کو صدمہ نہ پہنچنے پائے"، سراسر سرشار کی اپنی ایجاد ہیں، ڈان کیہوٹے میں ایسا کچھ نہیں۔ سرشار جو کچھ راست نہیں کہہ سکتے تھے، اس ترجمے کے ذریعے کہا۔ ان کے لیے خدائی فوجدار ایک ایسا ہی شخص ہے جو اپنے لباس، نام نہاداسلحے، گھوڑے اور مصاحب کے سبب ایک مضحکہ خیز کردار ہے مگر وہ رعایا کو گورنمنٹ سے پہنچنےو الے صدموں سے بچانا چاہتا ہے۔
بایں ہمہ خدائی فوجدار، محض ایک تخیلی کردار نہیں ہے۔ وہ لکھنؤ کو جانا پہچانا کردار ہے، یعنی بانکا۔ سرشار نے ڈان کیہوٹے کو خدائی فواجدار بناتے ہوئے، اس میں لکھنؤ کے بانکے کی بیش تر خصوصیات یک جا کردی ہیں۔ بہ قول نیر مسعود: " بانکے اپنے کردار اور اعمال میں اپنی مثال آپ تھے۔ مظلوموں کی حمایت میں ظالم سے بھڑ جانا، حریفوں کو ان کی تعدادکا لحاظ کیے بغیربے دھڑک سر بازارللکار دیناجوان سے مدد طلب کرے، اس کے لیے جان تک دے دینے سے دریغ نہ کرنا، ایک وضع مقرر کرکےمرتے دم تک اسی ہر قائم رہناغیرت اور خود داری پرلمحہ بھر کے لیے آنچ نہ دینا، یہ سب ایسی خصوصیتیں تھیں جنھوں نے ان کو ایک دل آویز افسانوی حیثیت دے دی۔ "سرشار نے فسانہ آزاد کے میاں آزاد اور خوجی میں بھی بانکے کی کچھ خصوصیات یک جا کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ڈان کیہوٹے واقعی دنیا کو مصیبت بھری خیال کرتا تھا اور اس کا نجات دہندہ بننا چاہتا تھا؟ نیز کیا یہ واقعی ایک ظریفانہ ناول ہے، جیسا کہ لکھنوی ادیبوں نے اسے سمجھا۔ پہلی بات یہ کہ ڈان کیہوٹے کا کردار حقیقی انسانی دنیا، جس میں بے شمار تضادات ہیں، کی ترجمانی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
ڈان کیہوٹے ایک صاحبِ حیثیت آدمی ہے۔ وہ سال بھر بے کار رہتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی دل چسپی، سورماؤں کے قصوں کی کتابیں پڑھنا تھا۔ ان کتابوں نے اس کے ذہن ودل کو اس قدر گرفت میں لیا کہ اس نے کھیلنا ترک کیا، اپنی جاگیر سے غافل ہوا۔ نیز یہ کتابیں خریدنے کے لیے کئی ایکڑ زمین تک بیچ ڈالی۔ وہ ان کتابوں میں درج کارناموں اور ان کی نثر سے بہ یک وقت متاثر ہوا۔ اسے پندرھویں صدی کی ہسپانوی مصنفہ فلیسانو دی سلوا (Felicano de Silva) کی کتب، ان کے سحر آفریں اسلوب کے سبب زیادہ پسند آئیں۔
سروانٹس نے لکھا ہے کہ " اس کے ذہن میں جھگڑے، جنگیں، خطرات، زخم، شکایتیں، طکسم، ناممکنات وغیرہ بھر گئے جو ان کتب میں موجود تھے۔ اسے یہ کتابیں، مستند تاریخی کتابوں کی مانند، سچ لگنے لگیں"۔ اس نے ان کتب میں لکھی گئی ایک ایک بات کو تاریخی سچ سمجھا۔ وہ یقین کرنے لگا کہ واقعی آدمی، دیوتائی کارنامے انجام دے سکتا ہے اور ان کے نتیجے میں شہرتِ دوام حاصل کرسکتا ہے۔ وہ جنگجوؤں کا لباس پہنتا، ایک معمولی خود سر پر رکھتا، ایک مریل گھوڑے پر سوا ر گھر سے نکل پڑتا ہے۔ بعد میں وہ سانچو پانزا کو اپنا مصاحب بناتا ہے۔ (اسی سانچو پانزا سے خوجی جیسا زندہ جاوید کردار سرشار نے تراشا۔)۔
وہ قدم قدم پر حقیقی دنیا کو اس دنیا سے یکسر مختلف پاتا ہے، جسے اس نے کتابوں میں پڑھا اور جس پر اس نے غیر متزلزل یقین کیا۔ اس سے اس کی صورتِ حال مضحکہ خیز اور المیہ ہوجاتی ہے۔ سر شار اور دوسرے لکھنوی ادیبوں کو ڈان کیہوٹے میں مضحکہ خیزی تو دکھائی دی، المیہ محسوس نہیں ہوا۔ ڈان کیہوٹے کی امریکی مترجم ایڈتھ گروس مین (Edith Grossman) نے دنیا کی سب سے المناک کتاب کہا۔ اس نے 2009ء میں ایک گفتگو میں کہا کہ اسے لگا کہ وہ اسے پڑھتے ہوئے اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پاسکیں گی۔ یہ فرق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرشار تو اس کا ترجمہ کرتے ہوئے، مسلسل ہنستے تھے، ایڈتھ گروس مین ترجمہ کرتے ہوئے روتی تھیں؟ کیا زمانے، حالات، انفرادی ذوق کا فرق ہے؟ یہ فرق بھی ہیں، لیکن ایک اہم فرق اس ثقافتی فضا کا بھی ہے، جس میں یہ ناول پڑھا گیا"۔