1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. غالب، ستم زدگاں کا جہان، خیال و تمنا کی وسعت

غالب، ستم زدگاں کا جہان، خیال و تمنا کی وسعت

غالب خیال اور تمناکی وسعت کے لیے دو عالم تو کیا عدم اور امکان کو بھی ناکافی سمجھتے ہیں۔ وہ دو جہانوں کو آدمی کے لیے ناکافی سمجھتے ہیں۔

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

اس نوع کے اشعار کو اکثر لوگوں نے غالب کی شوخی سے تعبیر کرکے ان پر گفتگو آگے نہیں بڑھائی جاتی۔ حالاں کہ شوخی و ظرافت کی ایجاد، سماجی اور نفسی تحفظ کی خاطر کی گئی ہے۔ بعض حقائق ایسے ہیں کہ ان کے اظہارسے فسادِ خلق اور فسادِ نفس کا خوف ہوتا ہے، اس خوف سے بچنے اور مقابلہ کرنے کے لیے ہی شوخ وظریفانہ پیرایہ اختیار کیا جاتا ہے۔

شوخی وظرافت، آدمی کے وجود اور انا دونوں کو تحفظ دیتی ہیں۔ غالب نے یہ پیرا یہ جہاں جہاں برتا ہے، اس کا سبب یہی ہے۔ اس شعر کے شوخ پیرائے کے پیچھے انسانی تمنا سے متعلق سنجیدہ فکر اور گہری تشویش موجود ہے۔ "وہ " سمجھتے ہیں کہ آدمی کی خوشی کے لیے مادی اور اخروی جہان کافی ہیں۔ لیکن غالب آدمی کا دل ٹٹولتے ہیں تو اس میں انھیں اضطراب محسوس ہوتا ہے۔

غالب اسی اضطراب کو شعر میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کو پیش کرنے کا سبب یہ یقین ہے کہ آدمی تصورات و نظریات کا مظروف نہیں بلکہ اپنی ہستی کے معنی کا خود خالق ہے۔ یعنی آدمی کو اپنی حقیقی تشویش اور اضطراب کے اظہار کا حق حاصل ہے۔

آدمی سوال اٹھا سکتا ہے، دوسروں پر، خود پر اور ہر اس چیز پر جو اسے مضطرب کرتی ہے۔ آدمی کی ہستی کے معنی اسی سوال سے اخذ ہوتے ہیں۔ اس سوال کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ آدمی کو ودیعت کی گئی دنیا اور آدمی کی تمنا میں کوئی مطابقت ہی محسوس نہ ہو۔

آدمی کے دل اور دیوتاؤں کے آدرش دو مختلف سمتوں میں جاسکتے ہیں اور اشعارمیں بھی غالب نےاس جہان کے تنگ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ آسمان کو بیضہ قمری اور دوسری جگہ بیضہ مور کہا ہے۔ ایک اور شعر میں عرصہ آفاق کو اپنی وحشت کے لیے تنگ کہا ہے۔ آگے وجود و عدم دونوں جگہوں پر تنگی کی شکایت کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ اس جہان کو کنج قفس کہتے ہیں جو انڈے کی مانند تنگ ہے اور آرزو کرتے ہیں کہ اس سے رہائی ملے تو نئی زندگی شروع کریں۔

نالہ، سرمایہء یک عالم و عالم کف خاک
آسماں بیضہء قمری نظر آتاہے مجھے

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کاجہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے

تنگی رفیق راہ تھی، عدم یا وجود تھا
میراسفر بہ طالعِ چشم حسود تھا

حبسِ دروں پہ جسم گراں بار سنگ تھا
وحشت پہ میری عرصہ آفاق تنگ تھا

تمام اشعار میں اضطراب و بے اطمینانی کی موج رواں ہے۔ اضطراب وبے اطمینانی بھی وہ جسے انسان اپنے وجود کی گہرائیوں میں محسوس کرے اور دیکھے کہ جیسے جیسے وجود کی تشویش بڑھتی ہے، وجود کی گہرائی بڑھتی ہے اور آدمی تنہاہوتا جاتا ہے۔ غالب نے نالے کا بھی ذکر کیا ہے، وہ اس جہان کے تنگ ہونے کے ادراک کا نتیجہ ہیں۔

بیضے کی تشبیہ سے قید میں ہونے کا مضمون ظاہر ہورہا ہے۔ قید کا یہ احساس کسی شخصی غم یا سیاسی عدم اطمینان کا نتیجہ نہیں، بلکہ بنیادی انسانی صورتِ حال کے علم کا نتیجہ ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں، آدمی آزادی وپابستگی کے سبب دو نیم ہے، آدمی کے ذہن، روح، تخیل، وجدان کی ساری کارکردگی، اس کے بدن و حسیات اور ان کے لازمی فنا کی حقیقت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی کش مکش آدمی کو شعور کے اوّلین لمحے سے دمِ آخر تک رہتی ہے تو وہ ذہن وبدن کی عدم مطابقت کی پیدا کردہ ہے۔

یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ جسے کلاسیکی شاعری وحشت کا نام دیتی ہے، اس کا ایک سبب، اس عدم مطابقت کا کوئی حل نکالنے میں ناکامی بھی ہے۔ آدمی کو اپنا جسم ہی دراصل زندان نظر آتا ہے اور پھر اسی کا انعکاس پورے جہان کو ایک زندان محسوس کرنے کی صورت میں ہوتاہے۔ لیکن یہ انعکاس کوئی فریب نہیں۔

آدمی جب بھی اپنی تمنا کی وسعت اورخیال کی بے کرانی کا تصور کرتا ہے، اس میں آدمی کے خاکی نہاد ہونےسے پیدا ہونے والا نالہ یا تشویش موجود ہوتی ہے۔ غالب نے انسانی تمنا کی وسعت کے لیے دشتِ امکاں کو بھی پہلا قدم کہا ہے اور دوسرے قدم کے لیے استفسار کیا ہے (ہے کہاں تمنا کا دوسراقدم یارب/ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پاپایا)اور پھر عدم کا خیال بھی انھیں باربار آتا ہے، لیکن نالہ وآہ ہر جگہ ہے۔

نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو وہاں نہ کھچ سکے، وہ یہاں آکے دم ہوئے

میں عدم سےبھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہ آتشیں سے بال عنقا جل گیا

ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو
عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا

ناز پروردہ صد رنگ تمنا ہوں، ولے
پرورش پائی ہے جوں غنچہ بہ خون اظہار

غالب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خیال کے دائرے میں کیا کیا آسکتا ہے اور کیا کیا چیزیں خیال خلق کرسکتا ہے۔ یہ جہان، دو جہان، عدم، عدم سے پرےاور اس سے پرے، سب انسانی خیال کے دائرے میں آتے ہیں۔ تما م عالم کو خیال کہنے کا ایک سبب یہ ہے کہ اتنے وسیع و بسیط عالم کو صرف خیال ہی گرفت میں لے سکتاہے۔ دیکھنے، سننے، محسوس کرنے کی حدیں ہیں، جن کا تجربہ ہر شخص کوہے، لیکن انسانی خیال کی حدوں کا احساس بڑا شاعر ہی دلا سکتا ہے۔

غالب کے لیے ہر حد، ایک دیوار ہے، وہ حد بھی جو آسمان کی ہے، وہ حد بھی جسے عدم کہا گیا ہے۔ ، وہ حد بھی جسے لفظ قائم کرتا ہے اور وہ حد بھی جنھیں پہلے شاعروں نے قائم کیا، غالب ان سب دیواروں /حدوں سے آگے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ عدم سے پرے ہونے کے مضمون کی اکثر شارحین نے متصوفانہ تعبیر کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عدم سے پرے بھی عدم ہے، یہ دونفی مل کر مثبت کو وجود میں لاتے ہیں۔

ہماری رائے میں عدم میں نیستی، معدوم ہونے کی مطلق حالت کامفہوم ہے۔ غالب معدومیت کو بھی اس انسانی خیال کی حد سمجھتے ہیں۔ جب عدم کا مفہوم سمجھ میں آگیا تو وہ ایک حد بن گیا۔ غالب کی جدیدیت، انسان کی معنی سازی کی جس لامحدود صلاحیت میں یقین رکھتی ہے، اس کے لیے عدم بھی ایک حد، کائنات کو سمجھنے کا ایک نظام ہے، لیکن اسی میں ایک شگاف ہے، جسے غالب دریافت کرتے ہیں۔ اگر موجود سے پہلے عدم ہے تو عدم سے ماورا بھی کچھ ہوگا۔ غالب اپنے شعری تخیل کو عدم سے بھی پرےلے جاتے ہیں۔ لیکن انھیں اس نیستی سے پرے کی کرے میں بھی، اپنی آہِ آتشیں یاد ہے اور ا س کی یہ صفت بھی کہ وہ عنقا جیسے ناموجود پرندے کا پر جلاسکتی ہے، یعنی جہاں عنقا نہیں پہنچ سکتا، وہاں آدمی کی آہِ آتشیں پہنچ سکتی ہے۔ عدم سے پرے، آہِ آتشیں اور بال عنقا کو جلانا، یہ سب شاعری کے فن اورمعنی سازی کی آخری حدوں کا خیال کرنے کی سعی ہے۔

خیال کا حقیقی یا غیر حقیقی ہونا، غالب سمیت کسی شاعر کے لیے اہم نہیں۔ چوں کہ شاعری میں ہر خیال محسوس پیرائے میں ظاہر ہوتا ہے، ایک لمحے کا حقیقی تجربہ یا انکشاف ہوتا ہے، اس لیے وہ معنی اور معنویت دونوں رکھتا ہے۔ جو حیثیت جسم کے لیے خون کی ہے، وہ ذہن کے لیے معنی کی ہے۔ لہٰذا خیال کی حدوں کو ناپنا، معنی خیزی کے مسلسل عمل کو جاری رکھنا ہے۔ اسی طرح تمنا کی وسعت، غالب کے لیے انسانی آزرئوں کی منتہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غالب کہیں کہیں تمنا کا لفظ محبوب کی آرز ویا اس سے وصل کی خواہش کے معنی میں لیا ہے (تماشا کہ اے محو آئنہ داری / تجھے کس تمناسے ہم دیکھتے ہیں )

لیکن وہ بیشتر جگہوں پر تمنا کو آرزو کے منتہاے کمال کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ صد رنگ تمنا کے ذریعے وہ اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ دشتِ امکاں کو پہلا قدم کہتے ہیں تو انسانی تمنا کی اس انتہائی حد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دشتِ امکاں، انسانی تخیل میں آنے والے جملہ امکانات اور ان امکانات کی بے کناریت کی علامت ہے۔ غالب، امکانات کی بے کناریت کو بھی ایک حد سمجھتے ہیں، یعنی ایک نقشِ پا، جس سے آگے جانا ہے۔ نقشِ پا پچھلوں کے ہیں، پوری انسانیت کے۔ اب سے آگے جانا ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمناکسی ایک معروض سے نہیں بندھی، وہ خون کی گردش ہے، معنی کی گردش ہے، اور انسانی وجود میں مضمر، کنارہ شکن تخلیقیت کا استعارہ ہے۔ ابتدا سے اب تک آدمی جو کچھ آرزو کرتا آیا ہے اور جو کچھ وہ آگے آرزو کرے گا، تمنااس سب کا احاطہ کرتی ہے۔ تمنا، کسی ایک مقام پر رکنے، کسی ایک شے کو اپنی منزل تصور کرنے اور اس کے لیے پروانے کی مانند جاں نثار کرنے کا نام نہیں، نہ یہ تسکین کی ابدی خواہش ہے بلکہ تمنا کبھی نہ بجھنے والی پیاس ہے، جو انسان کو سعیِ گرم پر آمادہ رکھتی ہے۔

یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمنا، اعلیٰ فن کی مانند خود اپنا انعام ہے۔ جس طرح اعلیٰ فن پارے خود ہی اپنا معنی ہوتا ہے، اسی طرح تمنا خود ہی اپنا معنی و مطلب ومقصد ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمنا خود ہی فن کی خالص اور اعلیٰ ترین سطح ہے۔ لہٰذا تمنا کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طلب نہیں ہوتی۔ غالب اپنی ہستی کو فضاے حیرت آباد تمنا کہتے ہیں اورجہاں آہ ونالہ پر نہیں مارسکتے۔ تمنا کے ذریعے انسانی تخلیقیت کی انتہا کی نشان دہی، ایک سچ ہے اور یہ بھی درست کہ اس سچ کا انسانی تاریخ کو بدلنے میں اہم کردار ہے۔

ہوں میں بھی تماشاے نیرنگ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے

مری ہستی فضاے حیرت آباد تمنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

(جدیدیت اور نوآبادیات، مطبوعہ اوکسفرڈ، 2021ء سے اقتباس)۔