ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم سب انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خوف کا سامنا کررہے ہیں۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں، وہ کہہ نہیں سکتے۔ ہم اس عالم اسباب میں رونما ہونے والے واقعات کی تاریخ، ماہیت، اثرات کا علم رکھتے ہیں، مگر اس کے اظہار سے ڈرے ہوئے ہیں۔
ہم بہت سے چہروں کو پہچانتے ہیں۔ سامنے کے مسکراتے چہروں کے پیچھے چھپے ہوئے کریہہ، دانت نکوستے چہروں سے بھی تعارف رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں اکثر نے ماسک پہنے ہوئے ہیں یا کسی سموک سکرین کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ جو کچھ وہ ہیں، ویسے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ جو کچھ کہتے اور لکھتے ہیں، وہ ایک چیز ہے، جو کچھ حقیقت میں کرتے ہیں، وہ اور شے ہے۔
یہاں ایک انسان میں دسیوں بیسویں نہیں، صرف ایک اور انسان موجود ہوتا ہے۔ وہ صرف اپنے بارے میں، اپنی طاقت کے بارے میں، اس طاقت میں مسلسل اضافے کے بارے میں، اس طاقت کو دوسروں پر آزمانے کے بارے میں، اور دوسروں کو شکست وذلت سے ہم کنار کرتے ہوئے، قہقہہ زن ہونے کے بارے میں سوچتا ہے۔
ان کے لفظوں اور کرتوتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر ہم یہ فرق بیان نہیں کر سکتے۔ ہم آسمان سے نہیں، زمین پر موجود خداوندوں سے ڈرے ہوئے ہیں۔ انسانوں پر ہمیشہ زمین ہی تنگ ہوئی ہے، آسمان سے شکایت ضرور رہی ہے، مگر سب سے بڑی پناہ گاہ بھی وہی بنا ہے۔
ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ یہ ڈر حقیقی ہے اور بھیانک ہے۔ محض اپنی جان کے جانے کا ڈر نہیں ہے۔ یہ بدترین تشدد اور ذلت آمیز موت کا ڈر ہے، نہ صرف اپنی، بلکہ اپنے خاندان کے افراد کی موت کا بھی۔
یہاں بات کرنے پر زبان نہیں کٹتی، پورا آدمی کاٹ ڈالا جاتا ہے اور نذر آتش کردیا جاتا ہے اور پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دیا جاتا ہے۔ بس کوئی ایک آدھ دل جلا، اس راکھ کو سمیٹنے کی جرأت کرتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارا یہی ڈر ان سب کو مزید طاقت دیتا ہے، جنھوں نے پہلے ہی خدائی طاقت ہاتھ میں لے رکھی ہے۔
خدا کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے سے زیادہ انسانوں کو خدا ئی اختیار ہاتھ میں لینے کا جنون رہا ہے۔ یہ جنون اس وقت پورے ملک میں انتہا پر ہے۔ جنون کی مملکت میں سب سے پہلے جن کو وطن بدر کیا جاتا ہے، وہ دلیل ومنطق واستدلال ہوتے ہیں۔