حال ہی میں اسرائیلی مصنف یووال نوح ہراری کی نئی کتاب Nexus: A Brief History of Information Networks from the Stone Age to AI شائع ہوئی ہے۔
ہراری ہمارے زمانے کے بڑے نہیں، مقبول عام مصنف ضرور ہیں۔ بڑا مصنف ہر شے کو گہرائی میں دیکھتا، کئی اطراف سے دیکھتا اور نئے اور بڑے سوالات قائم کرتا ہے۔ مقبول عام مصنف، ایک واضح نقطہء نظر کو سادہ وسہل زبان میں عوام تک پہنچاتا ہے۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کا ناک نقشہ، زیادہ تر مقبول عام مصنف بناتے ہیں، ہر زمانے کے مقبول عام مصنف۔
بڑے مصنف سراہے زیادہ، پڑھے کم جاتے ہیں۔ سمجھے تو اس سے بھی کم جاتے ہیں۔
دوسری طرف اکثر مقبول عام مصنف، بڑے مصنفوں کے خیالات کو سادہ و سہل زبان میں پیش کرنےو الے ہوتے ہیں۔
بہ ہر کیف ہراری ایک مقبول عام مصنف ہیں۔ وہ مقبول عام مصنف ہی کی مانند، مقتدر قوتوں کی ناراضی سے بچتے ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں نازی ازم، سٹالن ازم پر کھل کر تنقید کرتے ہیں، مگر صیہونیت اور استعماریت پر تنقید سے گریز کرتے ہیں، بس چلتے چلتے کہیں اشارہ کردیتے ہیں۔
ان کی نئی کتاب ان کی پہلی کتابوں ہی کا تسلسل ہے۔ اس کتاب میں وہ انفارمیشن کی تاریخ (جو جال یعنی Nexus کی صورت وجود رکھتی ہے) پتھر کے زمانے سے مصنوعی ذہانت کے عہد تک بیان کرتے ہیں۔ بالکل سادہ، عام فہم انداز میں۔ سادہ اور عام فہم انداز میں کئی اہم باتوں کے ذکر کو حذف کرنا پڑتا ہے۔ تفصیلی بحث سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انفارمیشن پر لکھی گئی یہ کتاب، خود انفارمیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرچہ اس میں انفارمیشن کو دانائی کے مقابل سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر یہ کتاب، کتابِ حکمت نہیں، تاریخی و معاصر عہد سے متعلق معلومات اور ان کے ضمن میں ایک واضح نقطہ نظر کی حامل کتاب ہے۔
اس سے پہلے وہ اپنی کتاب Homo Deus میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سماج پر اثرات کو موضوع بناچکے ہیں۔ ان کی اس کتاب ہی سے یہ بات عام و خاص تک پہنچی ہے کہ کس طرح انٹرنیٹ کے الگوردم ہمارے خیالات و احساسات کو مخصوص ہیئت دے رہے ہیں اور ہمیں فیصلہ سازی کے اختیار سے محروم کررہے ہیں۔ ہماری زندگیاں، الگوردم کے رحم و کرم پر ہیں۔ وہ اپنی تازہ ترین کتاب میں بھی انفرمیشن، سچ، دانش، کہانیوں، سیاسی پاپولزم کے ساتھ ساتھ، مصنوعی ذہانت کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے سلسلے میں ان کے خیالات اس قابل ہیں کہ ان کا یہاں ذکر کیا جائے۔
ہراری کے مطابق انسانوں کو ہوموسیپینز کہا گیا ہے، یعنی دانش مند انسان۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک لاکھ سال سے اس دانش مند انسان نے خود کو تباہ کرنے کا مسلسل سامان کیا ہے۔ ہراری مصنوعی ذہانت کو بھی خود کو تباہ کرنے کے سامان میں شامل کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی دانش اس وقت کہاں ہوتی ہے، جب وہ اپنے ہاتھوں عالم کو تباہ کر ڈالنے و الے آلات ایجاد کرتا اور انھیں عام کرتا ہے؟ ہراری اس سوال کے جواب میں اساطیر اور شاعری کی طرف رجوع کرتا ہے۔ پہلے وہ یونانی یونانی فائیٹون (Phaethon) کی اسطور ہ کا ذکر کرتا ہے۔
فائیٹون، سوریا دیوتا ہیلیوس کا بیٹا ہے۔ اسے اپنے اعلیٰ خاندان سے تعلق کا تکبر ہے۔ یہ تکبر اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ (جیسے خود کو تمام مخلوقات سے برتر ہونے کا غرور انسان کو مضطرب رکھتا ہے)۔ وہ ضد کرتا ہے کہ وہ سورج کو کھینچنے والی بگھی کو خود چلائے گا، یعنی آسمانی مملکت میں داخل ہوکر، آسمانی طاقت کو اپنے اختیار میں لائے گا۔ وہ کسی کی بات نہیں مانتا۔ وہ بگھی پر بیٹھ جاتا ہے۔ بگھی اس کے قابو سے نکل جاتی ہے۔ سورج اپنے مقررہ راستے سے ہٹ جاتا ہے، یعنی فطرت کے نظم میں ایک عظیم خلل پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں تباہی آتی ہے۔ نباتات اور دیگر مخلوقات جل کر راکھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں زیوس مداخلت کرتا ہے۔ وہ فائیٹون کو طوفان بادو باراں سے مار ڈالتا ہے۔ وہ متکبر انسان راکھ کے ذروں کی مانند زمین پر گرتا ہے۔ دیوتا آسمانی اختیار بحال کرتے ہیں اور دنیا کو بچالیتے ہیں۔ یہ کہانی، فطرت کو تسخیر کرنے کی ضد اور اس کے عواقب کی کہانی ہے۔ فطرت کو تسخیر کرنے کی کوئی کوشش، مہلک اثرات سے محفوظ ہوسکی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
گوئٹے کی نظم "جادوگر کا بالکا" (1797ء) میں جادوگر ایک ورکشاپ چلاتا ہے۔ وہ کسی کام سے باہر جاتا ہے۔ وہ شاگرد کے ذمے چھوٹے موٹے کام لگا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ ندی سے ورکشاپ کے لیے پانی لے آئے۔ بالکا ایک منتر سے جھاڑو کو ندی سے پانی لانے کے بھیجتا ہے۔ وہ منتر بھول جاتا ہے۔ جھاڑو پانی لاتا رہتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ پانی ورکشاپ میں جمع ہوجاتا ہے۔ وہ غصے میں جھاڑو کے دو ٹکڑے کرتا ہے۔ دونوں ٹکڑے پانی لانے لگتے ہیں۔ جادوگر خود آکر منتر پڑھتا ہے تو جھاڑو پانی لانا بند کرتے ہیں۔
ان دونوں پرانے متون میں فطرت کو مطیع کرنے ہی کے عمل میں تباہی لانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تاہم ہراری ان دونوں کہانیوں پر تنقید بھی کرتا ہے۔ یہ کہ اس میں تباہی کا ذمہ دار ایک شخص کو قرار دیا گیا ہے، جب کہ یہ اجتماعی عمل ہے۔ اسی طرح دونوں کہانیوں میں ایک فرد کو لامحدود طاقت کا حامل قرار دے کر نجات دہندہ بھی بنایا گیا ہے۔ ہراری نجات کو بھی اجتماعی قرار دیتا ہے۔ وہ ہر انسانی اجتماع یا گروہ کو کہانیوں کی پیداوار کہتا ہے۔ نسل، مذہب، قوم، ثقافت یا کسی از م کی کہانی۔ چناں چہ اگر نجات کہیں ہے تو ان کہانیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنے اور انھیں بدلنے میں ہے۔
ہر نئی ایجاد کے ساتھ، اس کی ایک کہانی بھی وضع ہوجایا کرتی ہے۔ ٹیلی گراف سے انٹرنیٹ، گوگل، فیس بک اور اب مصنوعی ذہانت کی ایجاد کے پس منظر میں بھی کہانی ہے اور ان کی تشہیر وفروخت اور رواج ومقبولیت بھی کسی نہ کسی کہانی پر منحصر ہے۔
ہراری تسلیم کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی یہ کہانی ابھی منقسم ہے۔ مثلاً امریکی سرمایہ دار مارک اینڈریسین کہتا ہے کہ مصنوعی ذہانت، انسانیت کے تمام مسائل حل کردے گی۔ یہ دنیا کو برباد نہیں کرے گی، بلکہ بچائے گی۔ دوسری طرف ہراری یوشو بیجیو، جعفری ہنٹن، سام آلٹمان، ایلون مسک اور مصطفیٰ سلیمان کا ذکر کرتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اے آئی ہماری تہذیب کو تباہ کردے گی۔ ہراری ان کا ہم نو اہے۔ ہراری مصنوعی ذہانت کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ طب اور دوسرے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کی افادیت کا قائل ہے، مگر یہ کہاں ضروری ہے کہ ایک چیز ایک جگہ مفید ہے تو وہ ہر جگہ ہی مفید ہوگی۔
ہراری مصنوعی ذہانت کو سب سے بڑا خطرہ چند اسباب کے تحت قرار دیتا ہے۔ ایک یہ کہ یہ دنیا کے موجودہ تصادمات کو بڑھائے گی، کم نہیں کرے گی۔ یہ امید کہ انٹرنیٹ کےسبب اربوں انسانوں میں فوری ابلاٖغ کا رشتہ، انھیں فکری وجذباتی طور پر بھی قریب کرے گا، دم توڑ چکی ہے۔ لوگوں کے ہر نوع کے تعصبات مزید پختہ ہوئے ہیں اور انٹرنیٹ ان تعصبات کو مزید گہرا کرنے اور ان کے بے روک ٹوک اظہار کا ذریعہ بنا ہے۔ ہراری کے مطابق، مصنوعی ذہانت سلیکون کرٹن پیدا کرنے جارہی ہے۔ ایک طرف مصنوعی ذہانت کے مالکان ہوں گے، دوسری جانب پوری دنیا۔ گویا پوری دنیا، ان نئے حکمرانوں کے رحم وکرم پر ہوگی۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ بہ قول ہراری، مصنوعی ذہانت انسانی تاریخ کی پہلی ٹیکنالوجی ہے جو خود فیصلے کرسکتی ہے اور خیالات تخلیق کرسکتی ہے۔ اس سے پہلے کی تمام ٹیکنالوجیز صرف انسانوں کی مدد کرتی تھیں، فیصلے نہیں کرتی تھیں۔ بندوق خود فیصلہ نہیں کرتی تھی، بندوق بردار فیصلہ کرتا تھا۔ اب بندوق خود فیصلہ کرے گی کہ اسے کب اور کس پر گولی برسانی ہے۔ مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی میں انسانوں کو بے دخل کرنے جارہی ہے۔ اس کے فیصلے کیاہوں گے، کچھ معلوم نہیں۔
یہ ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت نظمیں لکھ سکتی ہے، موسیقی ترتیب دے سکتی ہے، مگر ہراری کہتا ہے کہ یہ زندگی کی نئی صورتیں بھی ایجاد کرسکتی ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت نیا جینیاتی کوڈ رقم کرسکتی ہے یا غیر نامیاتی کوڈ سے غیر نامیاتی چیزوں کو نامیاتی بناسکتی ہے۔ حالاں کہ ابھی مصنوعی ذہانت کا انقلاب، بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے۔
انسانی تخلیقیت کو بھی مصنوعی ذہانت سے سنگین خطرہ ہے۔ تخلیق کیا ہے؟ ہراری جواب میں کہتا ہے کہ تخلیق کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ کسی پیٹرن کو پہچاننا ہے۔ دوسرا مرحلہ اسے توڑنا ہے۔ مصنوعی ذہانت کسی بھی پیٹرن کو عام انسانوں سے بہتر سمجھ سکتی ہے۔ پیٹرن کو توڑنے کے کئی طریقے ہیں، یعنی کوئی نئی نظم تخلیق کرنے کے کئی امکانات ہیں۔ مصنوعی ذہانت چوں کہ خود فیصلہ سازی کرسکتی ہے، اس لیے وہ کسی پیٹرن کوتوڑنے کے امکانات میں سے بہترین امکان کو منتخب کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔
اب ہمارے پاس کیا چارہ ہے؟ یہ کہ ہم تخلیق کے نئے پیٹرن وضع کریں، ایسے پیٹرن جن کا ڈیٹا مصنوعی ذہانت کے پاس نہیں۔
یا پھر موجود پیٹرن کو ان طریقوں سے توڑیں، جن تک مصنوعی ذہانت کا "تخیل" نہیں پہنچتا۔
یا پھر ہم دنیا کو نئی نظر سے دیکھیں۔ دنیا کو دیکھنے کو ہماری اب تک کی جو کنڈیشننگ ہوئی ہے، اس سے آزادی حاصل کریں۔
آخری بات یہ کہ مصنوعی ذہانت کے پاس اپنے جذبات نہیں ہیں۔ مگر ہراری کے مطابق، اسی سبب سے وہ انسانی جذبات کو زیادہ بہتر انداز میں پہچان سکتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے جذبات کو پہچاننے میں اس لیے غلطی کرتا ہے کہ وہ خود اپنے جذبات کے جنگل میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ اسے وہ پرسکون، بے خلل ذہنی کیفیت کم ہی نصیب ہوتی ہے، جب وہ دوسرے انسان کی جذباتی حالت کو اس کی اصل صورت میں سمجھ سکے اور اس کے لیے مناسب زبان اختیار کرسکے۔
مصنوعی ذہانت کاکوئی اپنا جذباتی بیابان نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے وسیع ڈیٹا کی مدد سے انسانی جذبات کو بے خلل انداز میں سمجھ لیتی ہے۔ اب تک ادب، سائنس اور تاریخ نے انسانی جذبات کو جس طور سمجھا ہے، جنریٹو مصنوعی ذہانت کے پاس وہ سب محفوظ بھی ہے، اور اسے بے داغ ذہانت کے ساتھ بروے کار لانے کا طریقہ بھی ہے۔
شاعری میں بھی، مصنوعی ذہانے اسی لیے ن انسانی جذبات کا اظہار کرسکتی ہے۔ شاعری کے موجود ومحفوظ پیٹرن کو پہچان کر اور پھر توڑ کر۔
یہ خطرہ معمولی نہیں ہے۔
انسان کے پاس تخلیق سے بڑا کوئی شرف نہیں ہے۔ جنریٹو مصنوعی ذہانت، اس کے لیے بڑا، سنگین، حقیقی خطرہ ہے۔